جس قوم کا مجموعی مزاج یہ ہو کہ مرغن کھانا دیکھ کر ٹوٹ پڑے اور پھر جب طبیعت بوجھل محسوس ہو‘ پیٹ میں درد ہو تو چورن‘ فروٹ سالٹ اور ہاضمے کی دوائیاں کھاتی پھرے‘ سخت سردی میں بارش میں بھیگے‘ زکام‘ نزلہ اور بخار کا شکار ہو تو علاج کے لیے ڈاکٹر کے پاس جائے‘ اردگرد محلے میں موجود گندے پانی کا نکاس نہ کرے اور رات کو مچھر بھگانے والے کوائل‘ مچھر دانیاں یا سپرے کر کے نیند حاصل کرے؛ جہاں اکثر لوگ تیز نکلنے کے چکر میں گاڑی غلط لائن میں لا کر کھڑی کردیں‘ ٹریفک رک جائے اور ایک آدھ گھنٹے ہارن بجانے‘ انتظار میں تڑپنے کے بعد لوگ نیچے اتریں اور ٹریفک سیدھی کر کے اسے بحال کریں‘ ایسی قوم کو آپ کیسے سمجھا سکتے ہیں کہ اس ملک میں دہشت گردی ناکوں‘ سکیورٹی کیمروں‘ پولیس پوسٹوں اور بھرپور فوجی آپریشنوں سے نہیں رکے گی بلکہ اس کی شدت میں اضافہ ہوگا۔ جو کوئی ان کارروائیوں میں جیل کاٹ کر جائے گا اپنے مؤقف پر مزید سخت ہو جائے گا۔ جس کا بھائی‘ بیٹا یا باپ مرے گا وہ انتقام کی آگ سینے میں لیے ہوئے ایک آتش فشاں بن جائے گا۔ عام آدمی جو ان ناکوں‘ سکیورٹی پوسٹوں اور بے جا تلاشیوں سے عزتِ نفس سے محروم ہوگا‘ اس کے دل میں ایک اور طرح کی نفرت پیدا ہوگی۔ وہ شروع شروع میں تو یہ سمجھے گا کہ یہ سب کچھ اس کے فائدے کے لیے ہے لیکن جب دھماکے رکیں گے نہ دہشت گردی تو اس کی نفرت کا نشانہ پورا نظام ہوگا جو مکمل طور پر فیل ہو چکا ہے۔ کیا یہ نظام فیل ہو چکا ہے؟ یہ ایسا سوال ہے جس کا جواب ہر کوئی ’’ہاں‘‘ میں دے گا۔ وزیراعظم سے لے کر ایک چپڑاسی تک اور صنعت کار سے لے کر مزدور تک سب یہی کہیں گے کہ یہ سسٹم ناکام ہوچکا ہے۔ بڑی سے بڑی انتظامی میٹنگوں میں جا کر دیکھ لیں‘ ہر کوئی اسی بات کا رونا روتا نظر آئے گا کہ ہم ناکام ہو گئے ہیں۔ پورا سسٹم ناکارہ‘ بوسیدہ اور کرپٹ ہے۔ ان لوگوں کو یہ آسان منطق سمجھ میں نہیں آتی کہ خراب پیٹ سے بدہضمی نہیں ہوتی‘ بدہضمی سے پیٹ خراب ہوتا ہے۔ ملیریا مچھر سے ہوتا ہے اور مچھر گھر میں خودبخود پیدا نہیں ہو جاتا‘ چاروں جانب پھیلی گندگی‘ غلاظت اور گندے پانی سے جنم لیتا ہے۔ ہمارے چاروں جانب گندگی پھیلی نہیں بلکہ ایک منظم طریقے سے پھیلائی گئی ہے۔ دنیا کی کسی قوم نے اپنے سکیورٹی مسائل کا حل اس طرح نہیں کیا کہ چاروں جانب سے پوری قوم کو ہی قید کردیا جائے بلکہ ان قوموں نے تو یہ کیا کہ اس ساری تباہی کا رُخ ہماری جانب موڑنے کی کوشش ہی نہیں کی بلکہ پوری طاقت کے ساتھ موڑ دیا۔ اگر وہ لوگ بھی اپنے ملکوں میں چیک پوسٹیں قائم کر کے‘ سکیورٹی کیمرے لگا کر یا پورے سکیورٹی نظام کو چاق و چوبند بنا کر چین سے بیٹھ جاتے تو ان کا بھی وہی حشر ہوتا جو آج ہمارا ہو رہا ہے۔ انہوں نے ہر اس راستے کو نہ صرف بند کرنے کی کوشش کی جو ان کی جانب طوفان کی طرح بڑھ رہا تھا بلکہ اس طوفان کا رخ واپس انہی ملکوں کی جانب موڑ دیا جن سے یہ آ رہے تھے۔ 11 ستمبر کے واقعے کے بعد پوری دنیا میں ایک جنون پیدا ہوا‘ جہاں یہ جنون مسلم امہ کو طاقت سے نیست و نابود کرنے کا تھا وہیں کئی سو تھنک ٹینکوںکو یہ ذمہ داری سونپی گئی کہ امت مسلمہ کے اُن کمزور مقامات کا جائزہ لیا جائے جہاں سے اس پر علمی و فکری اور سیاسی و گروہی طور پر حملہ آور ہو کر اسے کمزور کیا جا سکتا ہے۔ ان تھنک ٹینکوں میں سب سے معتبر رینڈ (RAND)کارپوریشن ہے۔ اسے امریکی حکومت ہر معاملے میں یہ ذمہ داری دیتی ہے کہ وہ اس کے لیے پالیسی گائیڈ لائن مرتب کرے۔ یہ پالیسی گائیڈ لائن بعد میں امریکہ کی حکومتی پالیسی کا حصہ بنا لی جا تی ہے۔ یہاں میں صرف اس کارپوریشن کی ایک رپورٹ پیش کر رہا ہوں جس سے اندازہ ہوگا کہ مسلم امہ آج آگ اور خون میں کیوں غلطاں ہے۔ اسے Project Airforce کہتے ہیں اور اس کا نام ہے \"US Strategy In the Muslim World After 9/11\" یعنی 9/11 کے بعد اسلامی دنیا میں امریکہ کی حکمتِ عملی۔ 11 ستمبر کے بعد امریکی ایئرفورس نے اس کارپوریشن کو یہ ذمہ داری سونپی کہ وہ اسلامی دنیا میں ان رجحانات کا جائزہ لے جو امریکی مفادات کے خلاف ہیں اور ان گروہوں کے بارے میں بتائے جو امریکہ کے لیے کارآمد ہو سکتے ہیں۔ یہ رپورٹ 2004ء میں مکمل ہوئی۔ اس رپورٹ کو پڑھنے کے بعد یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ کس طرح پوری مسلم دنیا کے گروہوں‘ فرقوں اور قومیتوں کو آپس میں دست و گریبان کیا گیا۔ اس کی پالیسی گائیڈ لائن دیکھیں اور پھر سوچیں کہ ان دس برسوں میں ہمارے ساتھ کیا ہوا: 1۔ امریکہ کو تمام ممالک میں ایسے اتحادی گروہ تلاش کرنے چاہئیں جو جمہوریت کے علمبردار ہیں اور انتہا پسندی کا خاتمہ چاہیں۔ 2۔ مسلمان 85 فیصد سنی اور 15 فیصد شیعہ ہیں۔ امریکہ کو شیعہ گروہوں کے ساتھ اپنی پالیسیوں کا الحاق کرنا چاہیے تاکہ وہ سنی اکثریت سے آزادی کی خواہش پر لڑیں‘ یوں وہ انتہا پسندی کے خلاف دیوار ثابت ہوں گے۔ 3۔ مسلمانوں میں عرب صرف 20 فیصد ہیں جبکہ غیر عرب سیاسی طور پر زیادہ بیدار ہیں۔ امریکہ کو غیر عرب مسلمانوں کو عربوں کے مقابلے میں زیادہ اہمیت دینی چاہیے۔ 4۔ مسلمانوں میں بہت سے قبائلی اور نسلی گروہوں کو امریکی مفاد کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔ 5۔ تمام مسلم دنیا میں افراد کا ایک ماڈریٹ نیٹ ورک بنایا جائے اور اس کی مالی‘ اخلاقی اور سیاسی طور پر مدد کی جائے۔ 6۔ جب ان معاملات پر عمل ہو رہا ہو تو ساتھ ساتھ شدت پسند اور انتہا پسند نظریات والے اسلام کے نیٹ ورک کو خراب کیا جائے۔ 7۔ مدارس میں تعلیمی اصلاحات پر زور دیا جائے۔ 8۔ معاشی منصوبوں کا آغاز کیا جائے اور لوگوں کو بتایا جائے کہ امریکہ تمہارے لیے بہتر معاشی سرگرمیاں کر رہا ہے۔ 9۔ سول اسلام (Civil Islam) یعنی سول سوسائٹی کو ثقافتی اور معاشرتی سرگرمیوں کے ذریعے منظم کیا جائے اور اس کی مدد کی جائے۔ 10۔ تمام انتہا پسندوں تک مالی امداد پہنچنے کے راستوں کو بند کیا جائے۔ 11۔ دہشتگردی کیخلاف جنگ میں مدد کو کسی ملک میں استحکام اور معتدل مزاجی کیساتھ منسلک کیا جائے۔ 12۔ اسلامی پارٹیوں کو جمہوری سیاست کا حصہ بنایا جائے اور انہیں حکومتی کاروبار بھی شریک کیا جائے۔ 13۔ بیرون ملک مقیم مسلمانوں کو مسلمان ملکوں میں خیراتی اور فلاحی کاموں میں مدد فراہم کی جائے تاکہ وہ انتہا پسندی کی بجائے ان کاموں میں توانائی صرف کریں۔ 14۔ تمام مسلم ممالک کی افواج کے ساتھ براہ راست تعلقات استوار کیے جائیں۔ 15۔ ان ملکوں کی قومی صلاحیتوں کو صرف دہشت گردوں اور انتہا پسندوں سے جنگ تک محدود کیا جائے۔ ان تمام پالیسیوں پر گزشتہ دس برسوں سے عملدرآمد ہو رہا ہے اور پوری اسلامی دنیا لہولہان ہے‘ لیکن ہمارے اہلِ اقتدار‘ اہلِ دانش اور اہلِ سیاست اب بھی یہ تصور کرتے ہیں کہ ایکشن یا آپریشن کے چورن سے معاشرے کی بدہضمی دور ہو جائے گی؟ اسے سکون مل جائے گا؟
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved