جس طرح عام انتخابات پہ چھائے بے یقینی کے سائے چھٹتے جا رہے ہیں اسی نسبت سے طاقت کی اُس پیچیدہ جدلیات کی پرتیں بھی کھلتی جا رہی ہیں جس نے پچھلے 76برسوں سے ہماری خواہشات کو اپنی گرفت میں لے رکھا تھا۔ بلاشبہ جب تک ہمارا ریاستی ڈھانچہ امریکی مقاصد کی تکمیل کیلئے وقف رہا‘ اس وقت تک مغربی میڈیا میں یہاں کے مقبول سیاسی رہنماؤں کے غیرفطری عروج و زوال کو بھی سیاسی عوامل کا نتیجہ باور کرایا جاتا تھا لیکن کابل سے امریکی انخلا کے بعد سے یورپی ذرائع ابلاغ سیاسی انجینئرنگ کو جواز بنا کر مغرب مخالف رائے عامہ کا رُخ مقتدرہ کی طرف موڑنے میں سرگرداں نظر آتے ہیں۔ شاید 9مئی بھی اُسی سوشل میڈیا ابلاغیات کا شاخسانہ ہو جس کا مواد مغربی صحافتی اداروں نے نہایت مہارت کے ساتھ پی ٹی آئی ٹرولز کے دل و دماغ میں اتارا دیا تھا۔ بلاشبہ 1954ء میں بنگال کے الیکشن سے لے کر 2018ء کے عام انتخابات تک‘ پاکستان میں تمام متنازع انتخابات کا اصل بینیفشری امریکہ تھا‘ اس لیے مغربی ذرائع ابلاغ تھوڑی بہت طنزیہ تنقید کے ساتھ انتخابی عمل کی اثابت کو تسلیم کرکے آگے بڑھ جاتے تھے لیکن یہ پہلی بار ہوا ہے کہ عالمی میڈیا نے اپنے وسائل کو مقتدرہ پر تنقید کرنے کیلئے وقف کر دیا۔ حیرت انگیز طور پہ عالمی ذرائع ابلاغ عمران خان‘ میاں نواز شریف اور بلاول بھٹو کی امیج سازی کے ساتھ مقتدرہ کے سیاسی کردار کی طرف انگلی اٹھا کر زخم خوردہ سیاستدانوں اور رائے عامہ کی تنقید کا رُخ مقتدرہ کی طرف موڑنا چاہتے ہیں۔ لاریب مغربی میڈیا نے ہمیشہ اپنے جانبدارانہ اصولوں کے ذریعے انسانی آزادیوں کا احاطہ کیا؛ چنانچہ ان تغیرات کے مضمرات کو نظر انداز کرنا مہلک ہو گا۔
آٹھ فروری کو ہونے والے 12ویں عام انتخابات میں تین ہفتے سے بھی کم وقت رہ گیا ہے۔ مغربی تجزیہ کاروں نے ابھی سے اس الیکشن کو ملک کے جمہوری سفر میں سب سے زیادہ متنازع انتخابات ڈکلیئر کر دیا ہے۔ مغربی ناقدین تحریک انصاف اور اس کے بانی کو در پیش حالات کی طرف اشارہ کرتے ہیں جس کے نتیجے میں مبینہ پری پول دھاندلی منصفانہ مقابلے کیلئے لیول پلینگ فیلڈ کی راہیں مسدود کر رہی ہے۔ بانی پی ٹی آئی اگست 2023ء سے جیل میں ہیں‘ انہیں کرپشن‘ سائفر کیس اور اپنے حامیوں کے ذریعے قومی تنصیبات پر حملوں سمیت متعدد الزامات کا سامنا ہے۔ ریاستی اداروں کے خلاف مزاحمتی پالیسی سے اُکتا کر پارٹی رہنماؤں کی بڑی تعداد پی ٹی آئی چھوڑ گئی۔ پارٹی کے کئی فعال لیڈرز گرفتاری سے بچنے کی خاطر زیر زمین چلے گئے۔ کچھ نے منحرف ہو کر دیگر سیاسی جماعتوں میں شمولیت اختیار کر لی۔ پی ٹی آئی کے متعدد امیدواروں کے کاغذاتِ نامزدگی مسترد ہوئے‘ جیسے 2017ء میں تین رکنی پانامہ بینچ نے نواز شریف کو وزراتِ عظمیٰ سے ہٹانے کے بعد پارٹی قیادت کیلئے بھی نااہل قرار دیا تھا‘ اسی عدالتی فیصلہ کو نظیر بنا کر بانی پی ٹی آئی کو گزشتہ ماہ سزا یافتہ ہونے کی وجہ سے پارٹی چیئرمین شپ سے محروم کردیا گیا۔ گوہر علی خان نے تین سال سے بھی کم عرصہ قبل پارٹی میں شمولیت اختیار کی تھی‘ اس کے باوجود انہیں نیا پارٹی سربراہ نامزد کر دیا گیا لیکن تاحال وہ پارٹی کے تنظیمی امور پہ اپنی گرفت مضبوط نہیں کر سکے۔ سپریم کورٹ میں الیکشن کمیشن کے ساتھ قانونی جنگ کے دوران پی ٹی آئی انتخابی نشان ''بلّے‘‘ کو برقرار رکھنے میں ناکام رہی۔ ایسے اقدامات سے ملک کا سیاسی منظرنامہ کافی حد تک بدل گیا کیونکہ یہاں کے عوام فاتح کی حوصلہ افزائی اور شکست خوردہ کی تضحیک میں لذت محسوس کرتے ہیں۔ اگرچہ 2018ء کے الیکشن میں (ن) لیگ کو ایسے ہی حالات کا سامنا تھا جس سے اب پی ٹی آئی گزر رہی ہے لیکن مغربی ذرائع ابلاغ نے ٹریجڈی بنانے کے بجائے اُسے پاکستانی قوم کے مجموعی کردار پہ طنزیہ تبصروں سے لطف لینے تک محدود رکھا‘ اس وقت چونکہ پی ٹی آئی اس جبریت کی بینیفشری تھی اس لیے مین سٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا پہ (ن) لیگ کے خلاف انتقامی کارروائیوں کو التباسات کی دھند میں چھپا دیا گیا مگر اب پی ٹی آئی والے کہتے ہیں کہ جن حالات کا آج اُن کے کارکنان کو سامنا ہے‘ ملک کی ماڈرن تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ کاغذاتِ نامزدگی مسترد ہونے اور پی ٹی آئی کے امیدواروں کے پارٹی چھوڑنے پر مجبور ہونے جیسے عوامل بہت کچھ بتا رہے ہیں۔
علی ہٰذا القیاس 240 ملین آبادی کے ملک میں انتخابی جوڑ توڑ کی موجودہ لہر میں شاید ہی کوئی عمل نیا ہو‘ درحقیقت سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ تاریخی طور پر ملک میں زیادہ تر انتخابات مختلف درجوں میں داغدار رہے۔ ماضی قریب میں جیسے 1988ء‘ 1990ء‘ 1993ء اور 1997ء کے انتخابات کو متنازع سمجھا گیا۔ 2002ء کے عام انتخابات‘ جس وقت ملک کی دونوں مقبول جماعتوں پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ کی قیادت جلاوطن اور پارٹی کارکن پابجولاں تھے‘ عین اسی وقت افغانستان میں امریکی جنگِ دہشت گردی کیلئے سیاسی حمایت حاصل کرنے کی خاطر ایم ایم اے بنائی گئی تو مغربی ذرائع ابلاغ میں جبریت کے شکار میاں نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کیلئے ہمدردی کی کوئی رمق نظر نہ آئی۔ کم و بیش پندرہ سال بعد 2013ء میں میاں نواز شریف دوبارہ اقتدار میں واپس آئے تو چین کے ساتھ سی پیک منصوبے کی راہ روکنے کی خاطر پی ٹی آئی کی پُرتشدد تحریکوں اور نظامِ انصاف کی فعالیت کے ذریعے ان کی حکومت کو مفلوج بنایا گیا۔ 2017ء میں ایک عدالتی فیصلے کے ذریعے میاں نواز شریف کو برطرف کرنے کے بعد 2018ء کے الیکشن‘ جن کے بارے میں آج بھی بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ مسلم لیگ (ن) کو تب لیول پلینگ فیلڈ میسر نہ تھی‘ میں پی ٹی آئی کامیاب ٹھہری۔ میاں نواز شریف کو اپریل 2017ء میں بیٹے سے تنخواہ لینے کے جرم میں نااہل قرار دے کر وزارتِ عظمیٰ سے ہٹا دیا گیا‘ پھر انتخابات سے محض چند روز قبل ان کی سیاسی جانشین بیٹی مریم نواز کے ہمراہ بدعنوانی کے الزام میں انہیں 10سال قید کی سزا دے کر جیل بھیج دیا گیا۔ انسانی حقوق کے اداروں اور مقامی انتخابات کی نگرانی کرنے والے کئی گروپوں سمیت بین الاقوامی برادری نے 2018ء میں ہونے والی دھاندلی سے صرفِ نظر کیا لیکن مغربی میڈیا اب موجودہ الیکشن میں اُسی مشقِ ستم کیش کو مماثلت بنا کر 2018ء کے الیکشن کو کافی خراب بتا رہا ہے جس کے نتیجے میں پی ٹی آئی جیتی تھی۔
آج بہت سے تجزیہ کار مانتے ہیں کہ خان کے عروج کے پیچھے مقتدرہ کے کچھ کردار کنگ میکر کا رول ادا کرتے رہے اور خان کو اپنے حریفوں کی قیمت پر کامیابی کا زینہ فراہم کیا۔ آج مغربی تجزیہ کار انتہائی دکھی دل کے ساتھ کہہ رہے ہیں کہ پارٹیاں بدل گئیں‘ لیڈر بدل گئے لیکن طریقہ کار وہی ہے۔ کیا مغربی اشرافیہ کیلئے آج 2024ء کے انتخابات کو بنیاد بنا کر پچھلے تمام انتخابات کو غیر منصفانہ قرار دینا درست عمل ہے؟ تاہم اس وقت بڑا فرق یہ ہے کہ پرانے ہتھکنڈوں کو اس بار مقامی سیاسی کارکنوں اور مغربی ذرائع ابلاغ کی طرف سے تنقید کا سامنا ہے۔ دوسرا یہ کہ پی ٹی آئی‘ مسلم لیگ(ن) کے مقابلے میں اپنی مظلومیت کے بیانیے کو مقبول بنانے میں زیادہ کامیاب رہی۔ یہی پیش دستی 2024ء کے انتخابات کے بعد یہاں گہری سیاسی اور سماجی تبدیلیوں کی راہ ہموار بنائے گی۔ خان کی مزاحمت پر مبنی پالیسی کی وجہ سے تضادات شدت اختیار کر رہے ہیں‘ جو معاشرے اور اداروں میں مخاصمت کو جنم دے رہے ہیں۔ منیرؔ نیازی نے کہا تھا:
اک اور دریا کا سامنا تھا منیرؔ مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved