سپریم کورٹ کے جج جسٹس اطہر من اللہ کے کھرے اور پورے سچ نے مملکتِ خداداد کی اصل بیماری اور بنیادی نقائص کا ڈی این اے ہی کر ڈالا ہے۔ انہوں نے آزادیٔ رائے کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے ان تاریخی غلطیوں کا احساس دلانے کی کوشش کی ہے جن کی سزائیں ہم نسل در نسل کاٹ رہے ہیں۔ گویا لمحوں کی خطائیں صدیوں کی سزاؤں میں بدلتی جا رہی ہیں۔ انہوں نے تو برملا باور کروا ڈالا ہے کہ ریاستیں اظہارِ رائے کو کنٹرول نہیں کر سکتیں۔ جسٹس اطہر من اللہ نے سانحۂ مشرقی پاکستان اور ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کو بھی سچ کی آواز دبانے کی بھیانک غلطی قرار دیا ہے۔ یہ تو سپریم کورٹ کے صرف ایک جج کے خیالات ہیں‘ اعلیٰ عدالتوں کے کم و بیش سبھی سربراہان کے بیشتر ریمارکس ایسے تاریخی اور سنہری حروف سے لکھوا کر آویزاں کرنے کے قابل ہیں۔ ماضی کے کئی ادوار سے لے کر دورِ حاضر تک کس کس کا نام لوں‘ سبھی منصفی کے اعلیٰ منصب پر بیٹھ کر وطنِ عزیز کی بنیادوں میں لگی دیمک سے لے کر حال اور مستقبل کو درپیش خطرات کے لمبے اور گہرے سایوں کی نشاندہی کے ساتھ ساتھ فکرمندی کا اظہار بھی کرتے رہے ہیں۔ افراتفری سے لے کر مار دھاڑ اور لوٹ مار کی وارداتوں سمیت طرزِ حکمرانی اور سرکاری بابوؤں کی سہولت کاریوں سے بھرے کیسز پر کیسی کیسی تنبیہ اور درد مندی سے بھرے عدالتی ریمارکس ریکارڈ اور تاریخ کا حصہ ہیں۔ گویا سبھی اپنا اپنا حصہ ڈال کر اپنی موجودگی کا احساس دلاتے رہے ہیں کہ شاید ہنرمندانِ ریاست ہوش میں آنے کی زحمت گوارا کر لیں۔
خرابی اور بیماری کی نشاندہی کے باوجود اصلاح اور علاج سے گریز پوائنٹ آف نو ریٹرن کو چھونے کی وہ ضد ہے جو ہوش مندی اور عقل کو کھاتی چلی جاتی ہے۔ مفادات اور مصلحتوں کی بیڑیوں میں جکڑے حکمران ہوں یا ان کے رنگ میں برابر ہاتھ رنگنے والے انتظامی افسران‘ سبھی عدالتی ریمارکس اور تحفظات کو ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکالنے کی مہارت کے ساتھ ساتھ اپنی دھن میں مگن رہنے کا ہنر خوب جانتے ہیں۔ عدم توجہی اور غیرسنجیدگی کا عذر کچھ یوں بیان کرتے ہیں کہ ابھی تو عدالتی ریمارکس آئے ہیں‘ جب تحریری فیصلہ آئے تو دیکھیں گے۔ اس حساس اور اہم موضوع پر قلم آرائی یقینا احتیاط کے علاوہ ان سبھی آداب اور تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھنے کی بھی متقاضی ہے جو ذرا سی بے احتیاطی کی صورت میں عدالتی آداب کے منافی ہو سکتے ہیں‘ تاہم انتہائی ادب اور درد مندی کے ساتھ عرض گزار ہوں کہ خدا کرے کہ وہ دن بھی نصیب ہو کہ یہ سبھی ریمارکس اور مشاہدات فیصلوں کی صورت میں سبھی بدعتوں پر بند باندھتے بھی نظر آئیں۔
پچھلے دنوں چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے فیض آباد دھرنے کے ماسٹر مائنڈ پر سوال اٹھاتے ہوئے فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی رپورٹ کو مسترد کر دیا تھا جو یقینا ٹھہرے ہوئے پانی میں وہ پتھر تھا جو نہ صرف ارتعاش کا باعث بنا بلکہ بوجوہ طاری سکوت کے بھی ٹوٹنے کا سبب تھا۔ گویا کوئی تو ہے جو موجودہ ماحول میں بھی کھل کر خیالات کا اظہار کر سکتا ہے۔ دھرنا کیس میں طلبیاں اور بیان قلمبند کروانا بلاشبہ بڑا کریڈٹ ہے۔ تاریخ کے پیچ و خم اور اسرار و رموز سے جڑے اس اہم اور حساس کیس پر چیف جسٹس آف پاکستان کا مؤقف اور ریمارکس بھی بہت دبنگ تھے‘ جس پر ''اَن دیکھے دھرنے‘‘ کے عنوان سے اپنے ہی ایک کالم کی چند سطروں کا پیوند زیر نظر کالم میں بوجوہ لگانے جا رہا ہوں۔ ''فیض آباد دھرنا کیس میں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس فائز عیسیٰ نے وہ سبھی سوالات اٹھا ڈالے ہیں جو نجانے کب سے گم سم اور سرجھکائے ہوئے تھے۔ ایک وقت وہ بھی تھا کہ فیض آباد دھرنے پر سوال اٹھانا تو درکنار سرگوشی بھی ممنوع تھی۔ آج ذمہ داران کے بارے میں بات کرنے سے لے کر فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کو مسترد اور آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف قرار دے ڈالا گیا ہے۔ یہ اعجاز بھی وقت کے اسی پہیے کا ہے جو برابر چلتا ہی چلا جا رہا ہے۔ حمود الرحمن کمیشن رپورٹ سے لے کر فیض آباد دھرنے سمیت نجانے کیسے کیسے بھید اور راز تاریخ کے اوراق میں دفن ہیں۔ یہ مدفون ایک ایسے شہر خموشاں کا منظر پیش کرتے ہیں جہاں واقعات‘ سانحات اور صدمات کی روحیں آج بھی بے چین اور پریشان پھرا کرتی ہیں‘‘۔
وطنِ عزیز کے دولخت ہونے کا سانحہ ہو یا ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دینے کا المناک اقدام‘ جسٹس اطہر من اللہ کی طرف سے دونوں تاریخی حوالے دیے جانے کے علاوہ چیف جسٹس آف پاکستان نے خود احتسابی پر زور دیتے ہوئے یہ بھی کہا ہے کہ ہم نے خود کو احتساب کے لیے پیش کر دیا ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ کے دونوں حوالوں کا تعلق براہِ راست اظہارِ رائے اور رائے عامہ کو دبانے سے لے کر سچ کا گلا گھوٹنے اور عوامی مینڈیٹ کے عدم احترام سے تھا۔ ماضی کی غلطیوں سے سیکھنے کے بجائے دہرانا مرگِ نو سے ہرگز کم نہیں‘ ایسی صورت میں اکثر طوفانوں کی اَن دیکھی ہوائیں بڑی بڑی فصیلوں اور مقفل صدر دروازوں کی پروا کیے بغیر اس طرح داخل ہوتی ہیں کہ پھر ہوا ہی بدل جاتی ہے۔ فصیلیں بھی چھوٹی پڑ جاتی ہیں اور دروازے بھی خود بخود کھلتے چلے جاتے ہیں۔ رہی بات خود احتسابی کی تو یہ انسان کے اندر اگر کسی کونے میں کہیں موجود ہو تو کبھی نہ کبھی انگڑائی لے ہی لیتی ہے اور انگڑائی کے دوران اس کے جاگنے کا امکان بھی بہرحال موجود رہتا ہے البتہ اندر پڑے پڑے مر جائے تو انگڑائی یا کروٹ لینے کا امکان بھی مر جاتا ہے اور زندہ ہونے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ایسے میں چیئرمین نیب نے سرکاری افسران کو ملکی ترقی میں کھل کر کردار ادا کرنے کا کھلا اشارہ دے کر یہ یقین بھی دلایا ہے کہ احتسابی ادارہ آپ کو ہرگز تنگ نہیں کرے گا۔ لیکن سہولت کاری اور اپنی ترقی کی علّت کا شکار افسران بھی اس سہولت سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی تمام کوششیں بروئے کار لائیں گے۔ ہاتھ کی صفائی کو نصب العین بناکر ملکی وسائل اورخزانے پر ہاتھ صاف کرنے کی لت میں مبتلا سبھی سرکاری بابوؤں کے ہاں جشن کا سماں ہے۔ تازہ دَم ہو کر ڈنڈ بیٹھکیں نکالنے کے علاوہ سبھی حربوں اور ہتھکنڈوں کے ساتھ دوبارہ میدانِ عمل میں کود پڑے ہیں۔ اس بار پرانے خسارے پورے کرنے کے ساتھ ساتھ مستقبل اور نسلیں سنوارنے کے لیے کچھ افسران تو پیشگی اور اس خوش گمانی میں ہاتھ صاف کر رہے ہیں کہ وہ متوقع حکمرانوں کے قریبی اور سر چڑھے ہیں۔ اسی لیے اکثر کی مار دھاڑ اور لوٹ مار کا جادو بھی سرچڑھ کر نہ صرف بول رہا ہے بلکہ کہیں چیختا تو کہیں چنگھاڑتا بھی نظر آرہا ہے۔
پنجاب کے چند مخصوص بابوؤں کا تو اضافی جھاکا بھی اُتر چکا ہے اور بچا کھچا جھاکا بھی برابر اُتر رہا ہے۔ چیئرمین نیب کو ایسے بابوؤں کے لیے کوئی علیحدہ سے یا اضافی اعلامیہ ضرور جاری کرنا چاہیے تاکہ یہ نیب کی طرف سے فری ہینڈ کو ہاتھ کی صفائی سے منسوب نہ کر ڈالیں۔ ان سبھی کو تو بس مطلب کی بات سمجھ آتی ہے‘ سابقوں اور لاحقوں کی جمع تفریق حسبِ ضرورت یہ خود ہی کر لیتے ہیں۔ چیئرمین نیب کے منہ سے نکلا بس یہی فقرہ ان کے لیے کافی اور نعمت ہے کہ ''ادارہ آپ کو تنگ نہیں کرے گا‘‘۔ نیب قوانین میں تبدیلی سے پہلے ان سبھی نے کون سا اُدھم نہیں مچایا‘ اب نیب کی طرف سے کھلی چھٹی ملنے کے بعد کہیں پہلے سے اُدھم جاری ہے تو کہیں دھمال کی تیاری ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved