موضوعات کا قحط ہے۔ کالم اور ادب کے نام پر جو کچھ لکھا جا رہا ہے‘ اسے پڑھیے تو یہ احساس بڑھ جاتا ہے۔ یہ قحط الرجال ہے یا قحط الحریت؟
مختار مسعود نے لکھا ہے کہ قحط میں موت ارزاں ہوتی ہے اور قحط الرجال میں زندگی۔ قحط الرجال ہو تو اقبال سوال اٹھاتے ہیں: 'کیا نہیں اور غزنوی کارگہِ حیات میں‘؟۔ رجال نہ ہوں تو سماج کی رفتار تھم جاتی اور راہِ حیات مشکل ہو جاتی ہے۔ لوگ زندگی کی گاڑی کو دھکیلتے ہیں کہ یہ وقت کا جبر ہے۔ عام آدمی کے لیے صبح سے شام کرنا ایسے ہی ہوتا ہے جیسے جوئے شیر لانا۔ غالب نے اُس وقت اس حادثے کی نشاندہی کی جب ہماری قوم کا سفر تھم گیا تھا۔
قحط الرجال کی ایک دوسری صورت بھی ہے۔ بظاہر تحرک مگر ایک بے سمت سفر۔ منیرؔ نیازی کے الفاظ میں 'کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ‘۔ یہ اس بات کا اظہار ہے کہ کسی کے پاس منزل کا سراغ نہیں۔ اضطراب تو ہے مگر کسی میں یہ صلاحیت نہیں کہ وہ حرکت کو بامعنی بنا سکے۔ ایک فکری پنجرے میں لاحاصل پھڑپھڑاہٹ کے سوا کچھ نہیں۔ کہیں لوگ اس امید پہ ضربیں لگا رہے ہیں کہ روحانی درجات بلند ہو رہے ہیں۔ کہیں سوشل میڈیا پر شور برپا ہے کہ تبدیلی آ رہی ہے۔ سماج میں سب متحرک ہیں مگر سماج وہیں کھڑا ہے 'کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ‘۔
قحط الحریت یہ ہے کہ لوگوں کے پاس کہنے کو بہت کچھ ہے مگر کہنے کی آزادی نہیں۔ کبھی سماج راستے میں آکھڑا ہوتا ہے اور کبھی ریاست۔ فکری جمود ایسا ہے کہ کان نئی بات سننا نہیں چاہتے۔ لوگ ہجوم میں ڈھلتے اور اختلاف کرنے والے کے درپے ہو جاتے ہیں۔ ریاست کو یہ خوف ہے کہ اُس نے قومی مفاد کے نام پر جو سبق پڑھایا ہے‘ اس سے انحراف کیا گیا تو ریاست کی بنیادیں متزلزل ہو جائیں گی۔ مختلف بات کہنے کی اجازت سماج دیتا ہے نہ ریاست۔ قوت ان دونوں کے پاس ہے: 'جس کو ہو دین و دل عزیز‘ اس کی گلی میں جائے کیوں‘؟
ہمارے ساتھ معاملہ کیا ہے؟ یہاں قحط الرجال بھی ہے اور قحط الحریت بھی۔ یہ دونوں ایک دوسرے کے ہم زاد ہیں۔ کہنے کی آزادی نہ ہو تو لوگ سوچنا چھوڑ دیتے ہیں۔ پھر وہ وقت آتا ہے کہ سوچ کے سوتے خشک ہو جاتے ہیں۔ لوگ تقلید میں پختہ تر ہو جاتے ہیں۔ ہر نئی بات انہیں اجنبی لگتی ہے اور وہ اسے قبول نہیں کرتے۔ اسے لوگ قحط الرجال کا نام دیتے ہیں۔
اخبار کے کالم بے جان ہو چکے۔ کبھی حرفِ مطبوعہ کی حرمت تھی۔ اب نہیں رہی۔ ٹیکنالوجی کی تاخت اپنی جگہ مگر کیا کالم نگاری بند ہو گئی؟ سوال یہ ہے کہ جو لکھا جا رہا ہے‘ وہ کیا ہے؟ میں دم توڑتی روایتوں کے مرثیے لکھتا ہوں اور لوگ میرے ساتھ مل کر رو لیتے ہیں۔ کیا میرے پاس ان روایتوں کے احیاء کا کوئی منصوبہ ہے؟ کیا میں سماج کو کسی متبادل سماجی ڈھانچے کا نقشہ دے سکتا ہوں جو نئی طرزِ معاشرت کو ماضی سے جوڑ دے؟ اگر اس کا جواب نفی میں ہے تو یہی قحط الرجال ہے۔
منٹو نے کہا تھا کہ سماج جیسا ہے‘ وہ اسے ویسا ہی دکھا دیتا ہے۔ اگر وہ ننگا ہے تو وہ اسے ننگا ہی دکھائے گا۔ سماج کو کپڑے پہنانا اس کا نہیں‘ درزی کا کام ہے۔ میرا احساس ہے کہ سماج کو ویسا ہی دکھانا جیسا وہ ہے‘ بہادری کا کام ہے اور تخلیقی بھی۔ اس سے سماج میں یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ اسے لباس کی ضرورت ہے۔ اسے ایک درزی چاہیے۔ سماج کو درزی کی طلب ہوتی ہے تو پھر جگہ جگہ ٹیلرنگ ہاؤس آباد ہو جاتے ہیں۔ یہ ممکن ہے کہ لوگ مختلف طرح کے لباس پہننے لگیں مگر اس سے سماج ننگا نہیں رہتا۔ یک رنگی لباس میں ہو یا برہنگی میں‘ جمود پیدا کرتی ہے۔
کہنے کی آزادی نہ ہو تو بھی سماج کی حرکت رُک جاتی ہے۔ کوئی رجل موجود ہو تو راستے بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ ایوب خان مرحوم کے دور میں قحطِ حریت تھا۔ اُسی دور میں جسٹس ایم آر کیانی ہو گزرے ہیں۔ وہ مختلف تقریبات میں خطاب کے لیے مدعو کیے جاتے تھے۔ انہوں نے اپنے عہد پر جو فکر انگیز طنز کیا‘ وہ نہ صرف اس دور کی تصویر ہمارے سامنے رکھتا ہے بلکہ یہ بھی بتاتا ہے کہ جب براہِ راست بات کرنا مشکل ہو تو اہلِ دانش کیسے متبادل راستہ تلاش کرتے ہیں۔ ان کی یہ تقریریں ''افکارِ پریشاں‘‘ کے نام سے شائع ہو چکیں۔ خوبصورت طنز ہونے کے باعث یہ اعلیٰ ادب کا بھی ایک نمونہ ہے۔ بطور جملہ معترضہ عرض ہے کہ آج بھی ایک مزاح نگارکو فوج پر تنقید کا خبط سوار ہے۔ اُن کی تقاریر کا موازنہ اگر جسٹس ایم آر کیانی سے کیا جائے تو ادب اور پھکڑ پن کا فرق معلوم ہو جاتا ہے۔
ہمارے ہاں علامتی افسانہ بھی لکھا گیا۔ شاعری میں علامتوں کا استعمال تو ہمیشہ ہوتا رہا ہے۔ گزشتہ چند برسوں میں ہماری صحافت میں بعض علامتوں کا بہت استعمال ہوا۔ جیسے محکمۂ زراعت۔ یہ علامت مؤثر ابلاغ کا ذریعہ بن گئی۔ پاکستانی سیاست سے سرسری واقفیت رکھنے والا بھی جانتا ہے کہ اس علامت کا مفہوم کیا ہے۔ صحافت اور ادب میں اگر تخلیقی ذہن موجود ہو تو وہ علامتوں سے اپنی بات دوسروں تک پہنچا دیتا ہے۔
گزشتہ کئی برسوں میں ہمارے ہاں کوئی ایسا ناول نہیں لکھا گیا جو ''آگ کا دریا‘‘ کی طرح ایک تاریخی واقعے کے مضمرات کو بیان کرتا ہو۔ ''پسِ دیوارِ زنداں‘‘ کی طرح کوئی شعری مجموعہ سامنے نہیں آیا جس میں ایک دور کی شاعرانہ تصویر کھینچ دی گئی ہو۔ مذہبی لٹریچر میں بھی ''میزان‘‘ کے علاوہ کوئی کتاب میرے علم میں نہیں جس نے سوچ کے نئے در وا کیے ہوں۔ ایک دور تھا کہ جب مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی ڈاکٹر فضل الرحمن اور غلام احمد پرویز جیسے لوگ لکھ رہے تھے اور علم کی دنیا میں جوش و خروش تھا۔ 'چراغِ راہ‘ اور 'نصرت‘ جیسے جرائد تھے۔ آج اس کا شائبہ بھی نہیں۔ میں جانتا ہوں کہ یہ ایک مشکل کام ہے۔ قحط الرجال کا مطلب یہی ہے کہ مشکل کام کرنے والا کوئی نہ ہو یا ایک آدھ ہو۔
مجھے تو اب اس کی ایک ہی ممکن صورت دکھائی دیتی ہے۔ کوئی کہیں اور بیٹھ کر پاکستانی معاشرے کو ہدف بنائے اور یہاں فکری تبدیلی کی منظم کوشش کرے۔ ذرائع ابلاغ نے اب یہ صورت پیدا کر دی ہے کہ بات کو ہزاروں میل دور سے بھی پہنچایا جا سکتا ہے۔ گزشتہ چند برسوں میں کچھ لوگوں نے یہ کام کیا ہے مگر ان کی نظر محدود اور ایجنڈا منفی تھا‘ اِلا ماشاء اللہ۔ انہوں نے پاکستانی سماج میں ہیجان پیدا کرنا چاہا اور ایک تصادم کو جنم دیا۔ ان کا مقصد کسی کو اقتدار تک پہنچانا اور کسی کو اُتارنا تھا۔
ہمیں ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جو سنجیدہ ہوں۔ جو سماجی مسائل پر بات کریں۔ جو سماج میں سوچ کی تبدیلی کو ہدف بنائیں۔ جو تازہ فکر دیں اور مثبت تبدیلی کے لیے راستہ دکھائیں۔ جنہیں اس سے غرض نہ ہو کہ کون اقتدار پر فائز ہے اور کون نہیں۔ جن کی دلچسپی اس بات سے ہو کہ مہذب معاشروں میں اقتدار تک کس طرح پہنچا جاتا ہے۔ جو سیاسی نظام اور معاشرتی تبدیلی کی بات کریں۔
اس سے مگر قحط الرجال کی تلافی ایک حد تک ہی ممکن ہے۔ حقیقی تبدیلی اسی وقت آ سکتی ہے جب کسی سماج کے گلی کوچے فکر کے چراغوں سے روشن ہوں۔ جہاں قحط الرجال ہو یا قحط لحریت‘ وہاں صرف اندھیرے راج کرتے ہیں۔ اس موضوع پر میں پہلے بھی لکھتا رہا ہوں۔ معلوم نہیں کہ یہ مرثیہ نگاری کب تک جار ی رہتی ہے؟
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved