عام انتخابات میں عوام کو دلچسپی کیوں نہیں ہے؟ سیاسی جماعتوں کیلئے یہ سوچنے کا مقام ہونا چاہیے لیکن کیا سیاسی جماعتیں اس حقیقت کا سامنا کرنے کیلئے تیار ہیں؟ سیاسی حریف کے ساتھ صرف مقابلہ ہوتا ہے لیکن عوامی نمائندوں کو عوام چنتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کو اس بات کا ادراک کرنے کی ضرورت ہے کہ جمہوریت میں سب کی آواز سنی جاتی ہے اور اختلافِ رائے کو برداشت کیا جاتا ہے۔ ایک مضبوط جمہوریت کیلئے صرف قوانین اور آئین کافی نہیں ہوتے بلکہ اسے عوام کی شرکت‘ انصاف اور جمہوری اقدار کی مضبوطی کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک ایسے خاموش کمرے کا تصور کریں جہاں ہر چیز ایک ہی رنگ کی ہے‘ جہاں باہر سے کوئی آواز نہیں آتی اور ہر چیز ایک جیسی لگتی ہے۔ یہی کیفیت اس معاشرے کی ہوتی ہے جہاں اختلافِ رائے کی گنجائش نہیں ہوتی۔ ایسے معاشرے میں تنوع کی رنگینی بُجھ جاتی ہے‘ تخلیقی سوچ کا چراغ گل ہو جاتا ہے اور ترقی کا سفر رُک سا جاتا ہے لیکن جب ہم اس کمرے سے باہر قدم رکھتے ہیں اور باہر کی متنوع اور گہماگہمی سے بھرپور دنیا میں آتے ہیں تو اختلافِ رائے کی خوبصورتی ہمیں اپنی جانب کھینچتی ہے۔ یہاں ہر آواز الگ رنگ بھرتی ہے‘ ہر نقطۂ نظر نئے زاویے کھولتا ہے اور بحث و مباحثے سے سچ کی تلاش کا سفر شروع ہوتا ہے۔ یہ اختلاف ہی ہے جو ہمیں تنقیدی سوچ کی روشنی عطا کرتا ہے جس سے ہم ہر مسئلے کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لے کر بہتر اور جامع فیصلے کر سکتے ہیں۔ جب ایک ہی سوچ کی لہر ساری فضا کو اپنے قبضے میں لے لیتی ہے تو فیصلے پہلے سے طے شدہ لگتے ہیں۔ تخلیقی صلاحیتیں دبا دی جاتی ہیں اور نئے خیالات کو جنم لینے کا موقع نہیں ملتا۔ ایسے معاشرے ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ جاتے ہیں کیونکہ جمود اور استحکام ان کا مقدر بن جاتا ہے۔
اختلافِ رائے سے نہ صرف بہتر فیصلے سامنے آتے ہیں بلکہ یہ سچ کی تلاش میں ایک دوسرے کی مدد کا ذریعہ بھی بنتا ہے۔ جب ہم مختلف نقطۂ نظر سے مسائل کا تجزیہ کرتے ہیں تو یہ امکانات بڑھتے ہیں کہ اصل حقیقت تک ہم پہنچ سکیں۔ یہاں ہر فرد اپنے خیالات سے جکڑا نہیں ہوتا بلکہ ایک دوسرے کے نظریات سے سیکھ کر سچ کی تلاش میں آگے بڑھتا ہے لیکن اختلاف اس وقت نقصان دہ ثابت ہوتا ہے جب اسے نفرت اور دشمنی کا آلہ بنا لیا جائے۔ اگر ہم صرف اپنے نظریے کو درست سمجھیں اور مخالف آراء کو دشمن قرار دیں تو یہ معاشرے میں انتشار اور کشمکش کا باعث بنتا ہے۔ اس لیے اختلافِ رائے کا احترام رکھنا‘ ان سے سیکھنا اور مصالحت کے ذریعے مسائل حل کرنا ہی وہ راستہ ہے جو ہمیں ایک مضبوط‘ ترقی یافتہ اور جمہوری معاشرے کی جانب لے جا سکتا ہے۔ جس طرح باغ میں متنوع رنگوں‘ خوشبوؤں اور شکلوں کا امتزاج ہی اس کی سحر انگیزی کو بڑھاتا ہے۔ اسی طرح ایک جمہوری معاشرے کی خوبصورتی بھی اختلافِ رائے کی قبولیت اور اس سے سیکھنے کے عمل میں مضمر ہے۔
ایک زمانے میں سوویت یونین میں حکومتی نظریے ''کمیونزم‘‘ کو مسلط کر دیا گیا۔ کسی بھی مخالف آواز کو سختی سے خاموش کیا جاتا تھا۔ اس اختلاف کی عدم برداشت نے تنقیدی سوچ کو دبا دیا‘ نئے خیالات کے جنم لینے کا راستہ بند کر دیا اور سائنسی و تکنیکی ترقی کو سست کر دیا۔ نتیجے کے طور پر سوویت یونین مغرب سے علمی مقابلے میں پیچھے رہ گیا اور 1991ء میں اس کا زوال واقع ہوا۔ اسی طرح شمالی کوریا ایک ایسا ملک ہے جہاں حکومتی خاندان کی شخصیت پرستی کی جاتی ہے اور کسی بھی اختلاف یا تنقید کو برداشت نہیں کیا جاتا ہے۔ یہاں واحد نظریے اور محدود معلومات تک رسائی نے ایک منجمد معاشرہ تشکیل دیا ہے۔ شمالی کوریا کے بارے عام تاثر یہ ہے کہ عالمی برادری سے الگ تھلگ‘ اقتصادی پسماندگی اور انسانی حقوق کی پامالی میں مبتلا ہے۔ ان مثالوں سے سمجھا جا سکتا ہے کہ کس طرح اختلاف کی آواز کو دبانے کی کوشش نے ایک پوری قوم کو ترقی اور خوشحالی کے راستے سے بھٹکا دیا۔
جمہوریت کی شاداب وادی میں جب سیاسی لڑائیوں کے طوفان چلتے ہیں تو ترقی کے پھول کم کم ہی کھل پاتے ہیں۔ یہ طوفان نہ صرف معاشرے کو غیرمستحکم کرتے ہیں بلکہ ترقی کی راہ میں خار بن کر کھڑے ہو جاتے ہیں کیونکہ جب سیاست ایک میدانِ جنگ بن جاتی ہے تو ترقیاتی منصوبے پس منظر میں دھندلے پڑ جاتے ہیں۔ حکومتی خزانے جو کہ تعلیم‘ صحت اور بنیادی ڈھانچے کی تعمیر پر خرچ ہونے چاہیے تھے‘ پروپیگنڈا اور سیاسی چالوں کی نذر ہونے لگتے ہیں۔ نتیجتاً تعلیم کے چراغ مدھم پڑ جاتے ہیں‘ صحت کی سہولیات کمزور پڑنے لگتی ہیں جیسے ایک تابناک باغ کو پانی کے بجائے نفرت کے زہر سے سیراب کیا جا رہا ہو۔ سیاسی جھگڑوں کے بادل جب معاشرے پر چھاتے ہیں تو عدم استحکام اور عدم یقینی کا گھٹا ٹوپ اندھیرا پھیل جاتا ہے۔ سرمایہ دار جو کہ ترقی کے باغبان ہونے چاہیے تھے‘ ایسی صورتحال میں خوفزدہ ہو کر اپنے قدم پیچھے کھینچ لیتے ہیں اور معاشی ترقی کی کلیاں کھلنے سے پہلے ہی مرجھا جاتی ہیں۔ غیرملکی سرمایہ کار بھی اس عدم استحکام کے کانٹوں سے ڈر کر دور ہی رہنے میں عافیت محسوس کرتے ہیں۔ اکثر سیاسی لڑائیوں میں عوامی بھلائی ذاتی مفادات کی بھینٹ چڑھ جاتی ہے۔ حکومتی اہلکار اپنے گروہوں کو نوازنے میں مصروف ہو جاتے ہیں جس سے سماجی تفریق اور ناانصافی کے گھنے جنگل اُگ آتے ہیں۔ یہ جنگل نفرت اور تشدد کے زہریلے پودوں سے بھرا ہوتے ہیں‘ جو ترقی کے پھولوں کے لیے زہرِ قاتل ثابت ہوتے ہیں۔
سیاسی عدم استحکام کی گرم ہوائیں تعلیم اور صحت کے نازک پودوں کو بھی جھلسا دیتی ہیں۔ تعلیمی اداروں میں ہڑتالوں اور بندشوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے جس سے علم کے چراغ بُجھنے لگتے ہیں۔ صحت کے مراکز میں بجٹ کی کمی اور وسائل کی تقسیم میں ناانصافی مریضوں کو معیاری علاج سے محروم کر دیتی ہے۔ یہ صورتحال نہ صرف انسانی تکالیف میں اضافہ کرتی ہے بلکہ انسانی ترقی اور پیداواری صلاحیتوں کو بھی بری طرح متاثر کرتی ہے۔ دنیا کے پسماندہ ممالک میں جاری انتشار نے ہی انہیں ترقی کی دوڑ میں پچھلی صفوں میں کھڑا کیا ہے۔ پسماندگی میں صومایہ کی مثالیں کیوں دی جاتی ہیں‘ اس لیے کہ صومالیہ گزشتہ چند عشروں سے خانہ جنگی کے زہر سے تڑپ رہا ہے۔ جہاں بنیادی سہولیات تک رسائی مشکل ہو گئی ہے اور تعلیم و صحت کا نظام تباہ حال ہے۔ غیر ملکی امداد بھی اس طوفان میں ڈوب جاتی ہے اور ترقی کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات عمل میں نہیں آتے۔ صومالیہ کی صورتحال بتاتی ہے کہ سیاسی عدم استحکام نہ صرف انسانوں کا خون بہاتا ہے بلکہ ترقی کے امکانات کو بھی تباہی و بربادی کے حوالے کر دیتا ہے۔
سیاست کو باغبانی کا فن ہونا چاہیے‘ جس میں ترقی کے پھول کھلیں اور عوام کی زندگیاں خوشبو سے بھر جائیں۔ لیکن جب یہ فن جنگی حکمت عملیوں میں بدل جاتا ہے تو ترقی کا گلشن خزاں کی ٹھنڈک میں لرزنے لگتا ہے۔ ایک خوشحال اور ترقی یافتہ معاشرے کے لیے ضروری ہے کہ وہ سیاسی اختلافات کو تعمیری مکالمے کے ذریعے حل کرے اور ترقی کے راستے پر متحد ہو کر آگے بڑے۔ ترقی کی راہ کے ''خار‘‘ بننے کے بجائے سیاسی جماعتیں‘ عوام اور حکومتی ادارے مل کر ایک ایسا ماحول تشکیل دیں جہاں اختلافِ رائے کو تعمیری تنقید کا زینہ بنا کر ترقی کی منازل طے کی جا سکیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved