نئی دہلی کے سرکاری سکولوں اور دفاتر میں آدھے دن کی چھٹی کا اعلان کرتے ہوئے 'مودی بھگتوں‘ نے ایک ہی رٹ لگا رکھی تھی کہ حکومت نے رام مندر کی افتتاحی تقریب براہِ راست دکھانے کیلئے دہلی کے عوام کو اجا زت دے دی ہے کہ وہ گھروں کو چلے جائیں تاکہ سب رام مندر کے افتتاح کے مناظر ٹی وی کی سکرینوں پر براہِ راست دیکھ سکیں۔ ایودھیا‘ جہاں تاریخی بابری مسجد مسمار کرنے کے بعد وہاں رام مندر بنایا جا رہا ہے‘ لکھنؤ کے مشرق میں لگ بھگ 140 کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے۔ یہ دریائے گھاگھرا کے کنارے بسا ہوا ایک چھوٹا سا شہر ہے جسے 1528ء میں مغل بادشاہ بابر کے کمانڈر میر باقی نے مٹی کے ایک اونچے ٹیلے پر آباد کیا تھا۔ بابری مسجد اس شہر کی سب سے بڑی مسجد تھی جس کے تین بڑے بڑے گنبد تھے۔ 1885ء میں انگریز دور میں ایودھیا کے ایک سادھو رگھو برداس نے فیض آباد کی عدالت میں درخواست پیش کی کہ اسے بابری مسجد کے باہر ایک چھتری تعمیر کرنے کی اجا زت دی جائے مگر انگریز سرکار نے اس درخواست کو مسترد کر دیا تھاکیونکہ تب تک بابری مسجد کی جگہ رام مندر تو دور کی بات‘ ہندو دھرم سے متعلق ایک چھوٹا سا نشان تک نہیں تھا لیکن بیسویں صدی میں چونکہ بھارت میں انتہا پسند تنظیمیں کھمبیوں کی طرح وجود میں آنا شروع ہوئیں تو ''ہندوتوا‘‘ اور ہندو بھگتی جگانے کے لیے شاطر ذہنوں نے رام مندر اور بابری مسجد کی جنگ چھیڑ دی۔
یہ کوئی خفیہ ایجنڈا نہیں تھا کہ آج اس پر حیران ہوا جائے کہ مودی ٹولے نے اچانک یہ کیا کر دیا، کیونکہ دیکھنے والوں کیلئے تو یہ سب ایک ایسے ڈرامے یا ایسے سکرپٹ کی مانند ہے جو سامنے دیوار پر لکھا ہوا ہے۔ مودی ٹولے کے بارے میں یقین کی حد تک یہ بات کی جا رہی تھی کہ بھارت میں عام انتخابات سے پہلے یا تو پاکستان کے ساتھ سرحدوں پر کوئی چھیڑ چھاڑ کی جائے گی یا پھر اپنے ہی ملک کے اندر کوئی ہولناک قسم کی دہشت گردی کرائی جائے گی تاکہ اس کی آڑ میں ایک دفعہ پھر انتہا پسند ہندو ووٹرز کو پاکستان اور اسلام دشمنی کا ٹیکا لگا آگ کا گولا بنا دیا جائے اور وہ الیکشن ڈے سے پہلے ہر جگہ پر ہندوتوا کی آگ بھڑکا کر صرف اور صرف ہندو راشٹریہ‘ نریندر مودی‘ امیت شاہ اور یوگی آدتیہ ناتھ کے گیت گاتا رہے۔ اس قسم کے منصوبوں کو سمجھنے کے لیے آئن سٹائن جتنے دماغ کی نہیں بلکہ ماضی قریب کے واقعات کی جانکاری ضروری ہے۔ 2019ء کے پلوامہ واقعے کو کون بھول سکتا ہے کہ جس کے بعد ''سرجیکل سٹرائیک‘‘ کا ڈرامہ رچایا گیا۔ بعد ازاں ابھینندن کی صورت میں عالمی ہزیمت کے باوجود نریندر مودی پلوامہ کی رٹ لگا کر دوسری بار وزیراعظم بننے میں کامیاب ہو گئے۔
6 دسمبر 1992ء کو شہید کی جانے والی بابری مسجد کی شہادت کو آج 32 برس ہو گئے ہیں اور ان تین دہائیوں میں رام مندر کے نام پر بھارت میں جس قدر مسلم خون بہایا گیا‘ وہ مذہبی رواداری اور انسانی حقوق کے پرچارکوں سمیت پوری عالمی برادری کے منہ پر بھارت کا وہ تھپڑ ہے جسے انڈین سپریم کورٹ کے بابری مسجد پر سنائے جانے والے ''تاریخی فیصلے‘‘ نے ایک مکروہ اور گھنائونے داغ میں تبدیل کر دیا ہے۔ بابری مسجد کو شہید کرنے میں اس وقت کی بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنما ایل کے ایڈوانی، مرلی منوہرجوشی، کلیان سنگھ، امیت شاہ، یوگی آدتیہ ناتھ اور ان کی ہمنوا شدت پسند تنظیمیں وشوا ہندو پریشد، بجرنگ دَل، راشٹریہ جن سنگھ وغیرہ پیش پیش تھیں، لیکن سچ یہ ہے کہ بابری مسجد کے خلاف مذہبی نفرت کی آگ بھڑکانے کی ابتدا کانگریس نے یہ جانتے ہوئے کی تھی کہ 1528ء سے 1949ء تک بابری مسجد میں باقاعدہ نمازِ پنجگانہ ادا ہوتی رہی۔ پاکستان بننے کے لگ بھگ ڈیڑھ سال بعد یعنی 22 اور 23 دسمبر 1949ء کی شب مقامی کانگریس کے زیر نگرانی شر پسندوں نے مسجد کے اندر عین منبر کی جگہ پر بھگوان رام کی مورتی رکھ کر بابری مسجد شہید کرنے کی بنیاد رکھ دی تھی۔ اس وقت بھارتیہ جنتا پارٹی کا دور دور تک کوئی وجود نہیں تھا۔ یہ کانگریس ہی تھی جس نے 1949ء میں انتہا پسندی کا زہر بھارت بھر کے ہندوئوں میں گھولتے ہوئے انہیں ''بچہ بچہ رام کا... جنم بھومی کے کام کا‘‘ کا نعرہ دیا۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بابری مسجد کو باقاعدہ شہید کرنے سے پہلے وہاں پر ''رام پوجا‘‘ کا اہتمام کیا گیا اور 6 دسمبر 1992ء کو نئی دہلی سے روانہ ہونے سے پہلے ہندوئوں کے سب سے بڑے مہنت وید ناگو کی قیادت میں سادھوئوں کے ایک گروپ نے کانگریسی وزیراعظم نرسیما رائو سے باقاعدہ ملاقات کی تھی اور ان سے اشیرباد لینے کے بعد ہی بھارت بھر میں بابری مسجد شہید کرنے کی کال دی گئی تھی۔ اس مقصد کے لیے سب سے پہلے بھارت بھر سے دو لاکھ کے قریب ''متبرک اینٹیں‘‘ جمع کی گئیں اور بھارت کے کونے کونے سے لاکھوں کی تعداد میں جنونی اور انتہا پسند ہندوئوں کو سرکاری سرپرستی میں ایودھیا کے قریب اکٹھا کیا گیا۔ نومبر‘ دسمبر 1992ء کے وہ بھیانک واقعات کون فراموش کر سکتا ہے کہ جب یہ انتہاپسند جتھے بابری مسجد شہید کرنے اور مسلمانوں کا نام و نشان مٹانے کا عزم لیے جموں سے کنہیاکماری تک‘ بھارت کے کونے کونے سے ایودھیا کی جانب عازمِ سفر تھے تو راستے میں آنے والی بے شمار مسلم آبادیوں اور عبادت گاہوں کو نذرِ آتش کیا گیا تھا۔ اس وقت بھی دنیا بھر سے سوال اٹھایا گیا کہ یہ سب تیاریاں کسی بھی صوبائی یا مرکزی حکومت یا بھارت کی فوجی اور سول ایجنسیوں کی نظروں سے اوجھل رہ سکتی تھیں؟ جب بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کا اعلان کیا گیا اور اس کے لیے بھارت کے 24 بڑے بڑے مہنتوں، سادھوئوں اور پجاریوں نے سات‘ سات فٹ گہری بنیادیں کھودنے کا آغازکیا تو کیا اس وقت بھارتی سرکار کو علم نہیں ہو سکا تھا؟ ایودھیا میں بابری مسجد شہید کرنے اور وہاں رام مندر کی بنیادوں کو بھرنے کیلئے ہفتہ وار تعطیل کا دن منتخب کیا گیا مگر کوئی حکومتی رٹ نظر نہیں آئی۔ جہاں تک بابری مسجد اور رام مندر کے قضیے کا تعلق ہے تو مشہور ہندو مذہبی شاعر والمیکی نے مہاراجہ رام چندر جی کی ''رام کتھا‘‘ کو ''رامائن‘‘ کے نام سے قلمبند کیا ہے‘ تلسی داس نے اسے ہندی کا روپ پہنایا اور اس طرح رام چندر ہندوئوں کے نزدیک ایک بھگوان مانے گئے۔ رامائن کے مطابق رام جی کی پیدائش ''اودھ‘‘ میں ہوئی نہ کہ سوا سو کلومیٹر دور ایودھیا میں۔ یہ نظریہ 18ویں صدی عیسوی میں راما نندی فرقے نے مشہور کرنا شروع کیا کہ رام چندر جی ایودھیا میں پیدا ہوئے تھے ۔
22 دسمبر 1949ء کی شب جب بھارت پر نہرو کی حکومت تھی‘ ہندو فرقہ پرستوں نے بابری مسجد کے اندر کچھ بت رکھ دیے اور شور مچا دیا کہ وشنو کے اوتار رام چندر جی نے خود کو اپنی جنم بھومی میں ظاہر کر کے ثابت کر دیا ہے کہ یہی ان کی جنم بھومی ہے اور اسی شب مسجد میں مورتی گھر بنا کر بتوں کی پوجا شروع کر دی گئی جس سے ہندوئوں اور مسلمانوں میں کشیدگی انتہا کو پہنچ گئی۔ مسلمانوں نے عدالتوں کا رخ کیا تو عدالت نے محدود تعداد میں ہندوئوں کو بتوں کی پوجا کی اجازت دے دی۔ نہرو کے نواسے راجیو گاندھی جب بھارت کے وزیراعظم بنے تو بابری مسجد میں ہندوئوں کو کھلے عام پوجا کی اجا زت دے دی گئی۔ بھارتیہ جنتا پارٹی اس خونیں کھیل کی آڑ میں چھوٹی ریاستوں کے ساتھ ساتھ پہلی دفعہ بھارت کے سب سے بڑے صوبے اتر پردیش کی حکمران بن گئی اور پھر 7 اکتوبر1991ء کو یو پی حکومت کی جانب سے ایک نوٹیفکیشن جاری کیا گیا کہ ریاستی حکومت بابری مسجد کی 12 ایکڑ اراضی حاصل کرے گی۔ یہ نوٹیفکیشن 14 اگست1991ء کے الہ آباد ہائیکورٹ کے حکم کے منافی تھا جس میں کہا گیا تھا کہ فریقین اس جگہ میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں کر سکتے اور جون 1991ء سے زیر بحث اس جائیداد کی نوعیت تبدیل نہیں کی جائے گی لیکن اتر پردیش کی حکومت نے عدالتی فیصلوں کے وقار کو پائوں تلے روندتے ہوئے متنازع زمین کے اردگرد لگائی جانے والی با ڑ کو ہٹا دیا۔ بابری مسجد کی شہادت کے سترہ سال بعد‘ 2009 میں اس پر قائم کئے گئے لیبر ہان کمیشن نے جی جے پی کے لیڈران جوشی، ایڈوانی اور کلیان سنگھ کو اس کا ذمہ دار قرار دینے کی رپورٹ دی تو کلیان سنگھ نے سرعام اقرار کرتے ہوئے کہا کہ اسے بابری مسجد کی شہادت پر ذرہ برابر بھی افسوس نہیں‘ اسے دکھ صرف یہ ہے کہ ابھی تک رام مندر کی تعمیر مکمل کیوں نہیں ہو سکی؟
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved