تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     24-01-2024

بلاول بھٹو کا لاہوری دنگل

لاہور ہمیشہ سے سیاسی‘ سماجی اور ادبی سرگرمیوں کیلئے بہت اہم رہا ہے۔ اس لیے لاہور کی سموگ اور ترقی کے نام پر کی گئی تباہی سے پہلے تک یہ جملہ پوری دنیا میں مشہور تھا'' جس لاہور نہیں ویکھیا او جمیا ای نیں۔‘ ‘ اب عرصہ ہوا یہ جملہ سننے میں نہیں آتا‘ اس کی وجہ کچھ سالوں سے وہ سموگ اور لاہور کی بے ہنگم ٹریفک اور آبادی ہے جس نے لوگوں کا جینا دوبھر کر رکھا ہے۔ اب لاہور دنیا کے گندے اور زہریلے ترین شہروں میں ٹاپ پوزیشن پر ہے۔ دہلی اور لاہور میں ہر سال مقابلہ ہوتا ہے کہ زیادہ گندہ اور آلودہ شہر کون ہے۔ اب تو لوگوں کیلئے لاہور میں ایک دن گزارنا مشکل ہوجاتا ہے۔ اس شہر کے زوال پر رونا آتا ہے کہ کبھی یہ پھولوں اور خوشبوئوں کا شہر تھا۔ مجھے یاد ہے کچھ برس پہلے ہمارے ٹی وی پروگرام میں ماہرِ موسمیات ڈاکٹر حنیف نے کہاتھا کہ دس برس بعد لوگ لاہور‘ فیصل آباد اور گوجرانوالہ سے ہجرت کرنا شروع کر دیں گے۔ اس وقت ان کی یہ بات بڑی عجیب لگی کہ ایسا کیسے ہوسکتا ہے‘ خیر اب سموگ نے سب کا جینا حرام کر رکھا ہے۔ لاہور سے کچھ دوستوں کو جانتا ہوں جو لاہور چھوڑ چکے ہیں کیونکہ وہاں رہنا ایک جہنم سے کم نہیں۔
ایک طرف لاہور کی فضا زہریلی ہوچکی ہے اور لوگ‘ جن کا بس چلتا ہے یا افورڈ کرسکتے ہیں وہ لاہور چھوڑ رہے ہیں تو انہی دنوں الیکشن کی وجہ سے لاہور اچانک بہت اہم ہوگیا ہے۔ جب عام لوگ زہریلی فضا کی وجہ سے یہ شہر چھوڑ رہے ہیں‘ سیاسی لیڈرز لاہور پر نازل ہورہے ہیں کیونکہ الیکشن کا موسم ہے۔لاہور میں جو الیکشن ہورہے ہیں ان میں چند حلقے مزے کے ہیں۔ سب سے حیران کن اعلان بلاول بھٹو زرداری کا تھا کہ وہ لاہور کے حلقے سے الیکشن لڑیں گے۔ یقینی طور پر یہ بڑا دلیرانہ فیصلہ ہے خصوصا ًاگر یہ بات ذہن میں رکھیں کہ پیپلز پارٹی کے بارے کہا جاتا ہے کہ یہ پنجاب سے اپنے ووٹ بینک سے ہاتھ دھو بیٹھی ہے۔ زرداری صاحب کی مصلحت پسند سیاست پی پی پی اور اس کے ورکرز کے گوڈے گٹوں میں بیٹھ گئی ہے۔ وہ پارٹی جو پنجاب کے تینوں ریجنز سے سیٹیں لیتی تھی‘ مظفرگڑھ یا رحیم یار خان کی ایک دو سیٹوں تک محدود ہو کر رہ گئی۔ زرداری صاحب نے بھی اس پر توجہ نہ دی‘ یوں پارٹی دھیرے دھیرے ختم ہوتی چلی گئی۔ اب بلاول اپنے نانا ذوالفقار علی بھٹو اور والدہ بینظیر بھٹو صاحبہ کی روایت پر چلتے ہوئے لاہور سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔ بہت سے لوگوں کے لیے یہ حیران کن فیصلہ تھاکہ لاہور جسے نواز شریف کا گڑھ سمجھا جاتا تھا وہاں سے پی پی پی کیسے سیٹ نکالے گی؟ لاہور نواز شریف اور کسی حد تک عمران خان کا شہر سمجھا جاتا ہے اور ان کا ووٹ بینک موجود ہے‘ تو بلاول کو آخر کون سی ایسی بات لاہور لے آئی کہ وہ عمران خان اور نواز شریف کے شہر سے امیدوار بن گئے؟
بلاول نے صرف نواز شریف کے امیدوار کا مقابلہ نہیں کرنا‘ عمران خان کے امیدوار کا بھی کرنا ہے۔ شاید بلاول کو توقع ہو کہ عمران خان اور نواز شریف کے امیدواروں کے درمیان ان کی جگہ بن جائے۔ یہی خوش فہمی زرداری اور پی پی پی کو 2013ء میں لے ڈوبی تھی‘ اس وقت بھی پارٹی لیڈرزعمران خان سے امید لگا بیٹھے تھے کہ وہ شریفوں کے ووٹ کاٹیں گے اور پی پی پی کا امیدوار گھر بیٹھے جیت جائے گا۔ اب بھی وہی مائنڈ سیٹ ہے کہ عمران اور شریف لاہور میں ایک دوسرے کے ووٹ کاٹتے رہیں اور بلاول سیٹ لے اڑیں۔ جوں جوں دن گزرتے جارہے ہیں بلاول کا الیکشن دلچسپ صورتحال اختیار کرتا جارہا ہے۔ ہمارا خیال تھا کہ بلاول محض پنجاب میں انٹری دے رہا ہے۔ اُنہیں بھی پتہ ہے کہ وہ عمران خان یا نواز شریف کے امیدواروں سے نہیں جیت پائیں گے لیکن آصف زرداری جو ہر دفعہ اپنی روایتی مسکراہٹ سے اپنے ہیٹ سے کوئی نہ کوئی کبوتر نکالنے کا فن جانتے ہیں انہوں نے ایک اچھا کارڈ کھیلا جب اچانک ان کی ملاقات سابق گورنر چوہدری سرور سے ہوئی اور انہوں نے بلاول کو جتوانے کا ٹھیکہ لے لیا۔ اس طرح خبر سامنے آئی کہ طاہر القادری بھی اپنے حامیوں کو بلاول کیلئے ووٹ ڈالنے پر قائل کر یں گے تاکہ (ن) لیگ کا بندہ نہ جیت پائے۔
لاہور شہر میں دو بڑی برادریوں کے بڑے دھڑے ہیں جن کا ووٹ بینک بھی ہے۔ ایک آرائیں اور دوسری کشمیری برادری ۔ بھٹی راجپوت‘ جٹوں اور دیگر کا بھی ووٹ ہے۔ ان دونوں کی حمایت بعض دفعہ کسی امیدوار کے جیتنے کیلئے بہت ضروری ہوتی ہے‘ اس لیے ہر الیکشن میں کوشش کی جاتی ہے کہ ان دونوں برادریوں سے امیدوار سامنے لایا جائے۔ اگر این اے کی سیٹ پر آرائیں برادری کا بندہ لڑ رہا ہے تو نیچے ایم پی اے امیدوار کشمیری ہونے چائیں۔ خیر ان دونوں برادریوں کی آپس میں رشتے داریاں بھی ہوگئی ہیں۔ ویسے یہ ذہن میں رکھیں کہ سندھ میں بھٹو قبیلے کو بھی آرائیوں کی شاخ ہی سمجھا جاتا ہے لہٰذا چوہدری سرور او ر آصف زرداری کی ملاقات کو اس تناظر میں دیکھیں تو صورتحال مزید دلچسپ لگے گی کہ ابھی بھی نظریات سے زیادہ برادری لنک اہم ہے۔ چوہدری سرور کا تعلق آرائیں برادری سے ہے‘ وہ اپنے دھڑے کو پیپلز پارٹی کے امیدواروں کو ووٹ ڈالنے پر قائل کرلیتے ہیں تو الیکشن رزلٹ بڑا دلچسپ ہوسکتا ہے۔ اگرچہ مجھے اندازہ نہیں ہے کہ اس حلقے میں چوہدری سرور کی برادری کے کتنے ووٹ ہیں لیکن جس اعتماد سے انہوں نے ساتھ دینے کا وعدہ کیا ہے اور وہ بلاول کے ساتھ باہر نکل پڑے ہیں‘ اس سے لگتا ہے کہ میچ پھنس جائے گا۔ اور پھر ہم نے دیکھا کہ بلاول کا لاہور میں اپنے حلقے میں جلسہ قابل ذکر تھا جس نے ان کے سیاسی ناقدین کو انہیں سیریس لینے پر مجبور کر دیا۔ یہی وجہ ہے کہ جب قصور شہر سے سابق ایم این اے چوہدری منظور نے اس جلسے میں دلچسپ بات کہی کہ ایسا شخص بھی ہمارا سپورٹر ہے جو جب وہ نواز شریف کے ساتھ ملا تو انہیں وزیراعظم بنوا دیا‘ عمران خان کے ساتھ ملا تو وہ وزیراعظم بن گئے اور اب وہ بلاول کو وزیراعظم بنوائیں گے۔
چوہدری سرور اور طاہر القادری کے پاس بھی اچھا موقع ہے کہ اپنے پرانے دوست نواز شریف اور عمران خان کا ادھار اتار دیں۔ دونوں شریفوں کے نزدیکی تھے پھر وہ دوست دشمن بنے۔ مجھے آج تک سمجھ نہیں آئی کہ چوہدری سرور کے پاس ایسی کیا گیڈر سنگھی تھی کہ نواز شریف ان سے متاثر ہوئے اور انہیں گورنر پنجاب بنا دیا۔ شریفوں سے لڑائی ہوئی تو عمران خان کے پاس چلے گئے اور کچھ عرصہ بعد وہ دوبارہ گورنر پنجاب بنے بیٹھے۔ اب وہ زرداری سے ہاتھ ملا چکے ہیں۔ چوہدری سرور کو داد دیں کہ ہر دفعہ انہیں پہلے سے پتہ چل جاتا ہے کہ وہ جس کشتی پر سوار ہیں وہ ڈوبنے والی ہے۔ 2017/18 ء میں شریف خاندان کی کشتی ڈوبنے سے پہلے وہ عمران خان کی کشتی پر سوار ہوچکے تھے‘ لیکن 2022ء میں عمران خان کا جہاز ڈوبنے لگا تو انہوں نے ایک پریس کانفرنس کر کے خود کو ان سے الگ کر لیا ۔اگرچہ پچھلے دو سال میں یوں لگا جیسے چوہدری سرور کا سیاسی کیرئیر پاکستان کی حد تک ختم ہوگیا تھا کیونکہ وہ عمران خان اور نواز شریف کو بھگت چکے تھے۔ چوہدریوں کی پارٹی میں جان نہیں رہی۔ اب اچانک ان کی لاٹری نکل پڑی ہے کہ بلاول کو لاہور سے الیکشن لڑنے کا شوق چرایا۔ اب یہ نہیں پتہ کہ لاٹری بلاول کی نکلی ہے یا چوہدری سرور کی ؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved