بلوچستان کے علاقے ژوب میں افغان سرحد کے قریب سیکورٹی فورسز کی کاروائیوں میں سات دہشت گرد ہلاک اور بھاری اسلحہ بارود برآمد ہونے کے بعد اسلام آباد میں ہائی الرٹ جاری کر دیا گیا۔ سکیورٹی خدشات کے ساتھ ساتھ خوف کے سائے بھی پھیلتے چلے جا رہے ہیں۔ امن کے دشمن اس حد تک تجاوز کر چکے ہیں کہ اسلام آباد کی یونیورسٹیاں بند اور امتحانات منسوخ کرنا پڑے ہیں۔ تھریٹ الرٹ کے بعد سرچ آپریشن جاری ہے۔اس وقت جب الیکشن میں عملاً چند دن باقی ہیں‘ معمولاتِ زندگی جاری رکھنا محال دکھائی دے رہا ہے۔ اگر شہرِ اقتدار ہائی رسک زون بنتا چلا جا رہا ہے تو بلوچستان سمیت ملک کے دیگر مخصوص علاقے تو بدستور میدانِ جنگ بنے ہوئے ہیں۔ سکیورٹی فورسز اور امن کے دشمنوں کے درمیان جاری معرکہ دہائیوں پر محیط ہے لیکن فتنے کا بیج ہے کہ مارا ہی نہیں جارہا‘ جبکہ اس بیج سے پیدا ہونے والی فصل کاٹتے کاٹتے ہاتھ لہولہان اور نجانے کتنی نسلیں رزقِ خاک ہو چکی ہیں۔ سکیورٹی فورسز کے جوانوں اور افسران سمیت کتنے ہی عالی دماغ اس اندرونی محاذ کی بھینٹ چڑھ گئے ہیں۔ آئے روز آنے والی شہادتوں کی خبریں اور سبز ہلالی پرچم میں لپٹے شہیدوں کے لاشے وطن کی مٹی کو گواہ بنائے چلے جا رہے ہیں۔ خون اور بارود کی بُو مٹی میں اس طرح رچ بس گئی ہے کہ دہشت اور وحشت کے ڈیرے وسیع ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ پُرخطر اور دشوار گزار علاقوں سے نکل کر یہ بُو کئی بار شہروں اور ہستی بستی بستیوں کو بدبو دار کر چکی ہے۔
وفاقی دارالحکومت سے لے کر صوبائی دارالحکومتوں اور دیگر اہم شہروں میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے علاوہ ملکی سلامتی کے ضامن اہم تنصیبات اور حساس دفاتر سے لے کر جیتی جاگتی آبادیوں میں خون کی ہولی اس طرح کھیلی جاتی رہی ہے کہ فضاؤں میں آج بھی چیخوں اور ناحق بہائے جانے والے خون کی بُو محسوس کی جا سکتی ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں میں ''Do More‘ ‘ کے مطالبے کی تعمیل حکمرانوں کا وہ نصب العین بنتی چلی گئی کہ جیتے جاگتے شہریوں کو پارسل بنا کر غیر ملکی ایجنسیوں کے اس طرح حوالے کیا گیا جیسے وہ انسان نہیں کوئی بے جان چیز ہیں۔ اپنی سرزمین کی حرمت سے لے کر سلامتی اور حدود کی پاسداری کو بھی بے معنی بنا کر رکھ دیا گیا۔ رات کے اندھیرے اور دن کے اجالوں میں ڈرون حملے ہستی بستی آبادیوں کو کس سفاکی اور بے دردی سے بے گور و کفن لاشوں کا قبرستان بناتے رہے ہیں۔ ماضی کے فیصلوں کی قیمت چکاتے چکاتے ہمارا حال بے حال اور نڈھال ہو چکا ہے‘ لیکن قیمت ہے کہ چکانے میں ہی نہیں آرہی ۔ نتیجتاً پورا ملک ہی انگار وادی بنتے بنتے آسان ہدف بنتا چلا گیا۔ حساس اور اہم تنصیبات سے لے کر اداروں سمیت شہر‘ بازار اور گلی محلے اس طرح غیر محفوظ ہوتے چلے گئے کہ دلخراش خود کش حملوں کی بے رحم کارروائیاں معمول بنتی چلی جا رہی تھیں۔ فتنے اور فساد پر بند باندھنے کے لیے ردالفساد نے جانوں کے بے دریغ نذرانے دے کر راہ چلتے شہریوں اور جیتی جاگتی بستیوں سے خوف اور دہشت کے سائے اس طرح ختم کیے کہ زندگیاں معمول پر اور امن دیکھا اور محسوس کیا جا سکتا ہے۔ البتہ جزوی طور پر جن علاقوں میں شرپسندی کا بیج بویا گیا تھا وہاں کہیں مہلک جھاڑیاں تو کہیں فصل اَب بھی باقی ہے جسے تلف کرنے کے لیے ہماری فورسز دن رات ایک کیے ہوئے ہیں۔ سکیورٹی فورسز کا گھیرا تنگ ہونے پر یہ شرپسند اہم شہروں سمیت ملک کے مختلف حصوں میں محفوظ ٹھکانے تلاش کر لیتے ہیں اور وہیں سے بیٹھ کر خونریزی اور امن کو تہہ و بالا کرنے کی پلاننگ اور کارروائیاں کرتے ہیں۔
شہرِ اقتدار میں ہائی الرٹ نے جہاں سہم کا سماں پیدا کر دیا ہے وہاں پہلے سے ٹھنڈا انتخابی ماحول برف خانے میں جا لگا ہے۔ خود کو مقبول ترین اور عوامی لیڈر ثابت کرنے کی سرکاری و غیر سرکاری کوششوں میں مگن سماج سیوک نیتا بھی انتخابی مہم سے گریزاں اور عوامی اجتماعات میں کھلے عام جانے سے گھبرائے ہوئے ہیں۔ مہرے‘ پیادے اور بی‘ سی ٹیمیں انتخابی مہم میں ٹھنڈ جھیلتی پھر رہی ہیں۔ نواز شریف کا تازہ ترین فرمان ہے کہ وزیراعظم بننے نہیں الیکشن لڑنے آیا ہوں‘ گویا انہیں بھی وقت کے بدلتے تیور اور ڈرامائی تبدیلیوں کا ادراک ہو چلا ہے کہ وزارتِ عظمیٰ کا معرکہ اس قدر آسان اور تر نوالہ نہیں جتنا کہ سمجھ بیٹھے تھے۔ جہاں مقبولیت کے لالے پڑے ہوئے تھے وہاں قبولیت کے امکانات بھی کھٹائی میں پڑتے نظر آرہے ہیں۔ یہ کھٹائی مزید دانت کھٹے کرنے کے علاوہ بہت کچھ کھٹائی میں ڈالنے کا باعث بن سکتی ہے۔
جہاں شہباز شریف کی خاموشی اور طمانیت بھی معنی خیز اور پراسرار ہے‘ وہاں وہ بڑے بھائی کو خوش فہمیوں سے باہر نکالنے کا قبل از وقت رسک لینے کے بجائے انہیں اسی گمان میں مبتلا رکھنا چاہتے ہیں کہ بس ادھر الیکشن ہوئے اور اُدھر وزارتِ عظمیٰ کی بھاری ذمہ داری ان کے توانا کاندھوں پر چوتھی مرتبہ خود بخود آن بیٹھے گی۔ انتخابی عمل مکمل ہونے تک زمین حقائق سے نظریں ملانے کے بجائے آنکھیں چُرائے رکھنا ہی بہتر حکمتِ عملی ہے۔ دوسری مرتبہ وزیراعظم بننے کی خواہش دل میں بسائے چھوٹے بھائی کس مہارت سے بڑے بھائی کو چوتھی مرتبہ وزیراعظم بننے سے روکنے کے اسباب اور عوامل کو تقویت دیتے ہیں اس کا عقدہ انتخابات کے بعد ہی کھلے گا۔ نواز شریف کا ٹریک ریکارڈ ہی ان کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ اور وجہ بن سکتی ہے جبکہ چھوٹے بھائی ہمہ وقت تعاون پر آمادہ اور فدویانہ مزاج رکھنے کے باعث مقبولیت کے بغیر قبولیت کے کافی مدارج پہلے ہی طے کر چکے ہیں۔ ان کا ٹریک ریکارڈ بڑے بھائی کا نعم البدل بننے میں معاون اور سازگار بھی ہو سکتا ہے۔
دور کی کوڑی لانے والے بلال بھٹو کو بھی وزارتِ عظمیٰ کی دوڑ میں ہم پلہ قرار دے رہے ہیں۔ راج نیتی کے کھیل میں سرپرائز کا پتہ بازی پلٹنے کا باعث رہا ہے جبکہ بلاول انتخابی سرگرمیاں اور عوامی اجتماعات بے خوف و خطر جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اپنی تقریروں میں اُس وزیراعظم پر بھی کھل کر کڑی تنقید کر رہے ہیں جس کی کابینہ میں وزیر خارجہ کے طور پر شوقِ حکمرانی کے علاوہ منصب کے متقاضی بیرونی ممالک کے طوفانی دورے کرتے رہے۔ شریک اقتدار تھے تو تحریک انصاف بالخصوص عمران خان کو آڑے ہاتھوں لیا کرتے تھے‘ آج انہی کے بارے میں ان کے خیالات اور نظریات بدلتے اور ہمدردانہ نظر آتے ہیں۔ راج نیتی میں کل کے دشمن آج کے دوست اور آج کے دشمن کل کے دوست بنتے کہاں دیر لگتی ہے۔ جس طرح استحکام پارٹی مسلم لیگ(ن) کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کر کے تختِ پنجاب پر نظر یں جمائے ہوئے ہے اسی طرح پیپلز پارٹی بھی وفاق میں حکومت سازی کے لیے اُن آزاد ارکان کے ساتھ پینگیں بڑھا سکتی ہے جن سے بَلّے کا نشان تو چھین لیا گیا لیکن وہ تحریک انصاف کا حمایتی ووٹ حاصل کر کے اسمبلیوں تک پہنچ سکتے ہیں۔ آنے والے دنوں میں سیاسی سرکس میں مزید ڈرامائی آئٹمز اور نئے کرتب بھی نظر آئیں گے جبکہ سیاسی پنڈت سکیورٹی خدشات کے پیش نظر انتخابات ملتوی ہونے کا اشارہ بھی برابر دے رہے ہیں‘ بظاہر تو انتخابات کا شبھ مہورت 8فروری ہی نظر آتا ہے کیونکہ جن جان جوکھوں اور جتنوں سے پلینگ فیلڈ کو مطلوبہ نتائج کے لیے لیول کیا گیا ہے شاید 8فروری کے بعد یہ لیول برقرار رکھنا ممکن نہ رہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved