تحریر : عمران یعقوب خان تاریخ اشاعت     25-01-2024

معیشت کا حل اور نواز شریف

موجودہ سیاسی صورتحال ایسی ہے کہ کوئی بھی پیش گوئی کرنا ممکن نہیں۔ سیاسی رُت تیزی سے بدل رہی ہے۔ بعض سیاسی پنڈتوں کے بقول میاں نواز شریف سادہ اکثریت سے انتخابات میں کامیاب ہو جائیں گے جبکہ فیصل واوڈا کہتے ہیں کہ (ن) لیگ کو قومی اسمبلی میں 80 سے بھی کم نشستیں ملیں گی۔ صرف یہی نہیں ‘ اُن کے بقول وہ ایوانِ صدر میں آصف زرداری کو دیکھ رہے ہیں۔ ممکن ہے کہ جوڑ توڑ کرکے زرداری صاحب صدرِ مملکت بن جائیں لیکن اس کیلئے انہیں (ن) لیگ کی حمایت درکار ہو گی۔ اگر فیصل واوڈا یہ دعویٰ کرتے کہ بلاول بھٹو وزیراعظم بنیں گے تو یہ بات ماننا ذرا مشکل ہوتا۔ گو کہ سیاسی تجزیہ کار تو یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ پی ٹی آئی کے آزاد حیثیت میں الیکشن جیتنے والے امیدوارپی ٹی آئی کے نہیں رہیں گے‘ وہ کسی اور جماعت میں شامل ہو جائیں گے۔ تکنیکی بنیادوں پر یہ ممکن ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ کی نظریں اُن امیدواروں پر لگی ہوئی ہیں کیونکہ یہ بات طے ہے کہ کوئی بھی سیاسی جماعت تنہا حکومت نہیں بنا سکے گی۔ استحکامِ پاکستان پارٹی بھی یہ دعویٰ کر رہی ہے کہ کھلاڑی سارا کھیل خراب کرتے ہوئے استحکامِ پاکستان پارٹی میں شامل ہو جائیں گے۔ کچھ ایسا ہی دعویٰ فیاض الحسن چوہان بھی کرتے نظر آئے۔ وہ کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی کے صرف وہی آزاد امیدوار جیتیں گے جو یہ کمٹنٹ کریں گے کہ وہ جیتنے کے بعد استحکامِ پاکستان پارٹی میں شامل ہو جائیں گے۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ عام انتخابات میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں پر 33 فیصد کے قریب آزاد امیدوار الیکشن جیتیں گے‘جن میں سے 80 فیصد بعد ازاں استحکامِ پاکستان پارٹی میں شمولیت اختیار کر لیں گے۔ دیکھا جائے تو ملکی سیاست میں کچھ بھی ممکن ہے۔ ہم پہلے بھی بانی پی ٹی آئی کے ساتھیوں کو اُن کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے موقع پر خان کا ساتھ چھوڑتا دیکھ چکے ہیں۔ نو مئی کے بعد بھی ایسی صورتحال سامنے آئی۔ پنجاب اسمبلی میں بھی پی ٹی آئی اراکین نے خان سے منہ موڑا۔ اس لیے تاریخی تناظر میں یہ کہنا بیجا نہ ہوگا کہ اس بار بھی بانی پی ٹی آئی کو اُن کے اپنے اُمیدوار سرپرائز دے سکتے ہیں۔ جن امیدواروں کے بارے میں یہ تاثر ہے کہ وہ پی ٹی آئی کے ساتھ مخلص ہیں وہ مقدمات کی زد میں ہیں اور ممکن ہے کہ کسی مقدمے میں سزا ہونے کی صورت میں اُن کو جیتی ہوئی نشست سے ہاتھ دھونا پڑ جائیں۔ یعنی تحریک انصاف کے آزاد اُمیدوار کسی سیاسی جماعت کی حکومت بنانے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اسی لیے ہر جماعت یہ آس لگائے ہوئے ہے کہ وہ امیدوار جیتنے کے بعد ان کی جماعت میں شامل ہو جائیں گے۔
اب ایک طرف یہ دوڑ لگی ہے کہ حکومت کیسے بنائی جائے اور دوسری طرف یہ خبریں گرم ہیں کہ (ن) لیگ کے اندر یہ بحث چل رہی ہے کہ وزارتِ عظمیٰ کا اُمیدوار کون ہو گا۔ اس پر میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں لیکن اِن دنوں یہ بحث اور رنگ کے ساتھ تقویت پکڑ رہی ہے کہ نواز شریف اپنے بھائی شہباز شریف کو نہیں بلکہ اپنی صاحبزادی مریم نواز کو وزیراعظم بنانا چاہتے ہیں‘ لیکن اس کیلئے مقتدر حلقے تیار نہیں۔ یہ بحث حافظ آباد جلسے کے بعد مزید تیز ہوئی ہے۔ 19جنوری کو جب نواز شریف نے حافظ آباد میں اپنے پہلے انتخابی جلسے سے خطاب کیا تو اس کا مختصر دورانیہ موضوعِ بحث بن گیا ۔ اس جلسۂ عام میں حاضرین اور عوام کی توقع کے برعکس نواز شریف نے نہ تو کوئی بڑے انتخابی دعوے یا وعدے کیے اور نہ ہی مخالفین پر تنقید کی بلکہ انہوں نے دس سے پندرہ منٹ کے دورانیے پر مشتمل اپنے جذباتی خطاب کے بعد مریم نواز کو تقریرکرنے کی دعوت دے دی‘ جس سے بعض حلقوں میں قیاس آرائیاں شروع ہو گئیں کہ میاں نواز شریف اپنی جگہ اپنی صاحبزادی کو وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر دیکھنا چاہتے ہیں‘ اسی لیے انہوں نے اپنی تقریر مختصر کرکے مریم نواز کو تقریر کا موقع دیا ۔ بعد ازاں سوشل میڈیا اور ٹی وی ٹاک شوز پر بھی یہی حوالہ زیر بحث رہا اور ابھی یہ تاثر مکمل طور پر ختم نہیں ہوا تھا کہ پیر کو مانسہرہ میں انتخابی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے ایک موقع پر نواز شریف نے حاضرین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میں آج مانسہرہ وزیراعظم بننے نہیں الیکشن لڑنے آیا ہوں۔ پھر انہوں نے یہ کہا کہ مریم یہاں الیکشن لڑنے نہیں‘ میرے ساتھ آئی ہیں۔ سابق وزیراعظم کی تقریر کے ان دو جملوں نے ایک بار پھر اس تاثر کو تقویت دی اور صرف ناقدین ہی نہیں بلکہ حامی بھی سابق وزیراعظم کے ان جملوں کے پس پردہ معنی اور مفہوم تلاش کر رہے ہیں۔
اُدھر کئی عالمی رپورٹس میں یہ بتایا جا رہا ہے کہ نواز شریف کے گزشتہ دور میں ملک کی معاشی کارکردگی بہت بہتر رہی، اب بھی وہی معیشت کو سہارا دے سکتے ہیں۔ بلوم برگ کی ایک رپورٹ میں نواز شریف کے دور میں معاشی کارکردگی کو بہترین قرار دیا گیا ۔ بلوم برگ کی جانب سے جاری تجزیاتی رپورٹ میں کسی بھی حکومت کی معاشی کارکردگی کا تجزیہ اور موازنہ مہنگائی‘ بے روزگاری اور دیگر معاشی مشکلات کو دیکھ کر کیا گیا ہے۔ بلوم برگ کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ تین دہائیوں کے دوران نواز شریف نے بہترانداز میں معیشت سنبھالی۔ انہوں نے معاشی مشکلات میں پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی سے بہتر کارکردگی دکھائی۔ رپورٹ کے مطابق بانی پی ٹی آئی عمران خان اب بھی مقبول سیاستدان ہیں لیکن جیل میں ہیں۔ نواز شریف آٹھ فروری کو اقتدار کیلئے تیار دکھائی دیتے ہیں۔ بلوم برگ اکنامکس رپورٹ میں شامل تجزیے میں کہا گیا ہے کہ عوام نواز شریف کو شک کا فائدہ دے رہے ہیں لیکن انتخابات جیتنے والی کسی جماعت کیلئے آگے کا سفر آسان نہیں ہو گا۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ مہنگائی ریکارڈ بلندی پر ہے۔ بے روزگاری بڑھ چکی ہے۔ گزشتہ برس زرمبادلہ کے ذخائر انتہائی بری حالت میں تھے۔ پاکستان اس وقت آئی ایم ایف کے بیل آؤٹ پیکیج پر انحصار کر رہا ہے۔ ایسے میں آنے والی حکومت کو عوام میں غیرمقبول پالیسیوں کو اختیار کرنا پڑ سکتا ہے۔ سبسڈیز کا خاتمہ اور ٹیکسوں میں اضافہ کرنا پڑ سکتا ہے۔ اب ایسے وقت میں جہاں ملکی معیشت پر کوئی تجربہ نہیں ہو سکتا‘ اسی لیے ملک میں اس شخص کو وزیراعظم بننا چاہیے جو معیشت کو بہتر طور پر چلا سکے۔ عالمی رپورٹس میں نواز شریف کی قابلیت کو سراہا جا رہا ہے چانچہ بہتر تو یہی ہے کہ نواز شریف جیت کر خود وزیراعظم بنیں اور ملکی معیشت کو پٹڑی پر لانے میں اپنا کردار ادا کریں کیونکہ وہ معیشت کو درست سمت پر لا سکتے ہیں۔ یہ کام وہ پہلے بھی کر چکے ہیں اور اب بھی کر سکتے ہیں۔ بعض سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق اگر نواز شریف بوجوہ وزیراعظم نہ بن سکے تو پھر وہ اپنے بھائی شہباز شریف کو موقع دیں گے کیونکہ ماضی میں بھی انہوں نے طاقتور حلقوں کے ساتھ معاملات سنبھالتے ہوئے اپنے بڑے بھائی اور قائد کیلئے مشکل حالات میں آسانیاں ڈھونڈی ہیں۔ اس کے علاوہ یورپی یونین اور دوست ممالک کو استعمال کرکے انہوں نے آئی ایم ایف سے معاہدہ بھی بحال کروایا۔ شہباز شریف بھی تجربہ کار سیاستدان ہیں لیکن اگر عالمی رپورٹس اور میڈیا کو دیکھیں تو وہ یہی کہہ رہا ہے کہ ملکی معیشت کا نقشہ بدلنا ہے تو نواز شریف کو وزیراعظم بننا چاہیے۔ کیا نواز شریف واقعی ایسا کر پائیں گے؟ یا پی ڈی ایم کی سولہ ماہ کی حکومت کی طرح عوام کو مزید مایوس کریں گے؟ یہ فیصلہ اُن کے اپنے ہاتھ میں ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved