تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     16-10-2013

ہم سر پکڑنے کو تیار ہیں!

میرے سامنے بلیو پاسپورٹ بنانے کا قانون پڑا ہے کہ یہ کس کو مل سکتا ہے اور کس کو نہیں مل سکتا ۔اس طرح کا کام گرین پاسپورٹ کے ساتھ کیا گیا تھا جب جنرل ضیاء کے دور میں افغانیوں اور برما کے شہریوں کو یہ ہزاروں کی تعداد میں تھما دیے گئے تھے۔ اب ہر روز کسی نہ کسی عرب ملک میں ان افغان ’’پاکستانیوں‘‘ کا سر کاٹا جارہا ہوتا ہے تووہ دراصل وہی لوگ ہیں جنہیں یہ مال مفت بانٹا گیا تھا لیکن بدنام ہم سب ہورہے ہیں۔ اب وہی کام بلیو پاسپورٹ کے ساتھ ہوا ہے اور کرنے والے ہم سب خود ہیں جنہیں اس پاسپورٹ کی عزت قائم رکھنی چاہیے تھی۔ حیران ہوں کہ کون بچ گیا ہے جو اقتدار میں ہے یا باہر ہے، سروس میں ہے یا ریٹائرڈ ہے جسے نہیں مل سکتا ۔ چلیں جو اقتدار میں ہیں یا سرکاری افسران ہیں انہیں بیرون ملک جانے کے لیے ملنا چاہیے لیکن ان کے 28 برس تک کی عمر کے بچوں اور بوڑھے والدین تک کو بلیو پاسپورٹ جاری کرنے کی کیا تک ہے؟ پہلے یہ سن لیں کہ دنیا کے ستر سے زائد ممالک کے ساتھ پاکستان کا معاہدہ ہے کہ جن مسافروں کے پاس سفارتی اور بلیو پاسپورٹس ہوں گے انہیں ائرپورٹ پر ہی ویزہ مل جائے گا۔ اس نوعیت کے پاسپورٹ رکھنے والوں سے ایئرپورٹس پر پوچھ گچھ نہیں ہوتی اور وہ مزے سے گزر جاتے ہیں‘ جب کہ گرین پاسپورٹس والوں کو ایک الگ قطار میں کھڑا کر کے تلاشیاں تک لی جاتی ہیں۔ یوں بلیو پاسپورٹ حاصل کرنے کا رجحان بڑھ گیا۔ ہر کوئی بلیو پاسپورٹ کے حصول کی کوشش میں لگ گیا۔ بلیو پاسپورٹ کا مقصد تھا کہ جب پاکستان سے کوئی پارلیمانی وفد باہر جائے یا پھر سرکاری افسران کسی کام سے دوسرے ملکوں میں جائیں تو انہیں سرکاری طور پر یہ پاسپورٹ دیا جائے تاکہ انہیں دوسرے ملک میں تعاون اور پروٹوکول مل سکے۔پہلے ایم این ایز اور سینیٹرز اور صوبائی اسمبلی کے ممبران نے اپنا نام اس فہرست میں ڈلوایا اور پھر سابق ارکان اسمبلی کو بھی یہ حق دے دیا گیا کہ وہ بھی کیا یاد کریں گے؛ تاہم دھیرے دھیرے اس سہولت کا بھی غلط استعمال شروع ہوا اور یوں پچھلے چند برسوں میں بلیو پاسپورٹ حاصل کرنے کا نیا کاروبار شروع ہوا۔ بات اگر سیاستدانوں اور بابوئوں کے بیوی بچوں اور والدین تک محدود رہتی تو بھی شاید ٹھیک تھا لیکن اب پتہ چلا ہے کہ دو ہزار سے زائد کاروباری لوگوں کو بھی بلیو پاسپورٹس جاری ہوچکے ہیں‘ پھر یہ بھی معلوم نہیں کہ وہ ان پاسپورٹس پر سمگلنگ کر رہے ہیں یا کسی اور دھندے کے لیے استعمال کرتے ہیں اور غیرملکی ایئرپورٹس پر پاکستان کے سرکاری افسران بننے کی اداکاری کر کے گزر جاتے ہیں۔ پچھلے چھ برسوں میں سرکاری پاسپورٹ مینویل میں درجنوں کے حساب سے اپنی مرضی کی تبدیلیاں کر کے بیوروکریسی اور سیاستدانوں نے مل کر حیران کن انداز میں نہ صرف اپنے رشتہ داروں، بیویوں، بیٹوں اور ریٹائرڈ افسران کو سرکاری پاسپورٹ دلائے بلکہ اپنے 28 برس کے بچوں تک کو سرکاری پاسپورٹ کا زبردستی اہل قرار دلا کر دنیا بھر میں گرین پاسپورٹ کے ساتھ ساتھ بلیو پاسپورٹ کی عزت بھی دائو پر لگا دی۔ بلیو پاسپورٹس کے ساتھ جو حشر کیا گیا ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک سابق وزیرداخلہ کے سگے بھائی کو‘ جو اسلام آباد اور لندن میں کاروبار کرتے ہیں‘ دس برس کے لیے بلیو پاسپورٹس جاری کیے گئے ہیں۔ وزیر کی بھابھی، بھتیجوں تک کو بھی بلیو پاسپورٹ دیے گئے ہیں حالانکہ قانون کے تحت کسی کو بھی دس برس کے لیے سرکاری پاسپورٹ نہیں مل سکتا۔ اس کاروبار کا آغاز اُس وقت ہوا جب شوکت عزیز کے سابق وزیراعظم ہونے میں ایک ماہ رہ گیا تھا ۔ ان کے وزراء نے ایک فرمائش اس وقت کے وزیرداخلہ آفتاب شیر پائو‘ سے کی کہ جناب مہربانی فرمائیں ۔ شیرپائو‘ شیر جیسا دل رکھتے ہیں؛ چنانچہ انہوں نے 12ستمبر 2007ء کو ایک حکم نکالا کہ آج کے بعد جتنے بھی سابق وفاقی وزیر اور وزیر مملکت ہوں گے ان سب کو بلیو پاسپورٹ ملیں گے۔ ایک وزیر نے فرمایا کہ حضور ہماری بیگمات کا کیا قصور ہے۔ بیگمات کا نام بھی اس فہرست میں فوراً شامل کر دیا گیا جنہیں سرکاری یا بلیو پاسپورٹ ملیں گے چاہے وہ وزیر رہیں یا نہ رہیں۔ ریٹائرڈ سرکاری افسران کو پتہ چلا تو انہوںنے شور مچایا‘ جس پر شوکت عزیز حکومت ختم ہونے سے 16دن قبل 19اکتوبر 2007ء کو ایک اور حکم جاری ہوا جس کے تحت تمام ریٹائرڈ افسران اور ان کی بیگمات کو بھی بلیوپاسپورٹ کا مستحق بنا دیا گیا۔ سفارت کاروں کو پتہ چلا کہ وزیر اور بابو تو اپنے اور اپنے خاندان کے لیے بلیو پاسپورٹ بنوا رہے ہیں تو انہوں نے فوراً اپنی ٹانگ اڑائی؛ چنانچہ ان کا منہ بھی بند کرنا پڑا اور یوں ریٹائرڈ سفارت کاروں کو بھی سہولت مل گئی کہ وہ بھی بلیو پاسپورٹ رکھ سکتے ہیں۔ سفارت کاروں نے احتجاج کیا کہ جناب باقی سب کی بیگمات کو بلیو پاسپورٹ مل رہے ہیں، تو ہماری کیوں نہیں؟ ان کا مطالبہ بھی فوراً پورا کر دیا گیا۔ وزارت داخلہ کے ایک ڈپٹی سیکرٹری‘ جو سب کے لیے یہ لیٹرز جاری کر رہے تھے‘ لالچ پر قابو نہ رکھ سکے اور انہوں نے خود ہی اپنی طرف سے اپنا نام اس فہرست میں ڈال دیا کہ انہیں بھی بلیو پاسپورٹ ملے گا؛ خواہ وہ سرکاری کام سے ملک سے باہر جائیں یا نہ جائیں۔ سرکاری افسران اس پر بھی راضی نہ ہوئے کہ ان کے 28 برس کے تمام بچوں کو بلیو پاسپورٹ کی سہولت حاصل تھی تو انہوں نے کہا کہ اب ان کے جو ماں باپ ان کے ساتھ رہتے ہیں انہیں بھی بلیو پاسپورٹ دیے جائیں ۔ یہ شرط فوراً مان لی گئی اور اب بزرگوں اور بوڑھوں کو بھی بلیو پاسپورٹ تھما دیے گئے کہ کیا یاد کریں گے۔ ایک اعلیٰ افسر نے اپنی برطانوی بہو تک کو بلیو پاسپورٹ لے دیا۔ سابق صوبائی گورنرز کو پتہ چلا کہ اسلام آباد میں بلیو پاسپورٹ کی منڈی لگ گئی ہے تو انہوں نے بھی حصے کا مطالبہ کردیا؛ چنانچہ انہیں بھی مایوس نہ ہونے دیا گیا۔ دین کی خدمت پر مامور اسلامی نظریاتی کونسل کے ممبران نے کہا کہ بھلا یہ کیا بات ہوئی کہ انہیں نظرانداز کیا جا رہا ہے۔ ان سب کا نام بھی شامل کر دیا گیا۔ رحمن ملک کو خیال آیا کہ انہیں عمر بھر تو وزیر نہیں رہنا؛ لہٰذا گنگا بہہ رہی ہے ہاتھ دھولو؛ چنانچہ موصوف نے 15 دسمبر 2011ء کو ایک آفس آرڈر جاری کیا کہ وفاقی وزیر داخلہ، ان کی بیگم، ان کے 28 برس کی عمر تک کے بچوں کو تاحیات بلیو پاسپورٹ ملے گا‘ علاوہ ازیں اگر وہ کسی کو بلیو پاسپورٹ جاری کرنے کا حکم دیں گے تو وہ بھی جاری ہوگا۔ وفاقی سیکرٹری داخلہ بھی پیچھے نہ رہے۔ انہوں نے اس حکم میں یہ اضافہ کرالیا کہ وزیر داخلہ کی طرح سیکرٹری داخلہ بھی بیگم بچوں سمیت تاحیات بلیو پاسپورٹ کے مستحق ہوں گے اور ان کے 28 برس کی عمر تک کے بچوں کو بلیو پاسپورٹ ملتے رہیں گے۔ وزیرمملکت برائے داخلہ امور کو پتہ چلا تو وہ بھی اپنے ’’استحقاق‘‘ کے لیے بول پڑے‘ انہیں چپ کرانے کے لیے اُن کا مطالبہ بھی تسلیم کر لیا گیا۔ ریٹائرڈ ججوں کو پتہ چلا کہ بیگمات کو بھی بلیو پاسپورٹس مل رہے ہیں تو انہوں نے بھی اپنا نام اس فہرست میں شامل کرالیا۔ فوجی افسران نے کہا کہ انہیں بھی ریٹائرمنٹ کے بعد یہ بلیو پاسپورٹ ملتا رہے اور ان کی بیوی بچوں کو بھی یہ سہولت حاصل رہے۔ بھلا کون انکار کرتا۔ وفاقی سیکرٹریوں نے مطالبہ کیا تو 9 ستمبر 2008ء کو وزارت داخلہ نے ایک اور حکم جاری کیا کہ آج کے بعد وفاقی سیکرٹریوں کے بچے بھی بلیو پاسپورٹ لے سکیں گے‘ جن کی عمر 28 برس تک ہوگی۔ یوں پورا خاندان بلیو پاسپورٹ لے گیا۔ اس دوران کچھ پارٹیوں کو پتہ چلا کہ وزارت داخلہ میں بلیو پاسپورٹس کی لوٹ سیل لگی ہوئی ہے تو 75 سے زیادہ پرائیویٹ لوگوں نے دس دس برس کے لیے بلیو پاسپورٹس لے لیے اور اس خدمت کا ’’نذرانہ‘‘ بھی وزارت کے بڑوں کی خدمت میں پیش کیا۔ ان کاروباریوں کے لیے یہ گھاٹے کا سودا نہیں تھا کہ وہ دنیا کے ستر ممالک میں اب بغیر ویزے کے جاسکتے تھے اور جو مال چاہیں اپنے ساتھ لے جائیں۔ اب چوہدری نثار علی خان فرماتے ہیںکہ اگر وہ ان دو ہزار لوگوں کے نام بتادیں جنہیں یہ بلیو پاسپورٹس جاری ہوئے ہیں تو لوگ سر پکڑ کر بیٹھ جائیں گے۔ چوہدری صاحب! آپ کے بیوی بچے تو ویسے ہی امریکی شہری ہیں، امریکی پاسپورٹ کے آگے بلیو پاسپورٹ کی کیا حیثیت ہے اور انہیں بلیو پاسپورٹوں کی بھلا کیا ضرورت؟ لہٰذا ہمت کریں۔ ہم سب سر تھام کر بیٹھنے کو تیار ہیں، مہربانی کر کے ان دو ہزار لوگوں کی فہرست جاری کردیں جنہوں نے رحمن ملک کے دور میں گرین پاسپورٹ کے بعد اب بلیو پاسپورٹ کی عزت بھی بیچ چوراہے نیلام کر دی ہے!!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved