الیکشن نتائج کے بارے میں کوئی بھی وثوق سے کچھ نہیں کہہ سکتا کہ کیا ہو گا۔ پاکستان کی تاریخ میں تین دہائیوں تک صرف دو سیاسی جماعتیں ہی منظر پر نمایاں رہتی تھیں‘ (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی پھر پی ٹی آئی منظرِ عام پر آئی۔ اسے حکومت بھی ملی لیکن یہ اپنی مدت نہ پوری کر سکی۔ نو مئی کے واقعات کے بعد تو پی ٹی آئی کے حالات بالکل ہی بدل چکے ہیں۔ گزشتہ دور میں حکومت بنانے والی یہ جماعت دھڑے بندی کا شکار ہو چکی ہے اور نو مئی کے حملوں کا خمیازہ یوں بھگت رہی ہے کہ اس کے محبوب قائد دوسروں کو جیلوں میں ڈلواتے ڈلواتے خود بھی سلاخوں کے پیچھے پہنچ چکے ہیں جبکہ ان کے قریبی ساتھی صراطِ مستقیم پر چلنے کا وعدہ کر کے راہِ فرار اختیار کر چکے ہیں اور اب دیگر جماعتوں میں جا بیٹھے ہیں۔ کئی ایک الیکشن کا بائیکاٹ کر رہے ہیں اور کچھ بلے کا نشان نہ ملنے کے بعد آزاد حیثیت سے اپنے حلقوں میں کھڑے ہیں۔ کچھ دن قبل تک تو فضا ایسی تھی کہ عوام کو یہ بھی یقین نہیں تھا کہ الیکشن ہوتے بھی ہیں یا نہیں یا پھر کسی واقعے کو بنیاد بنا کر الیکشن ویسے ہی ملتوی کر دیے جائیں گے۔ تاہم چند روز قبل بیلٹ پیپرز کی چھپائی شروع ہو گئی۔ الیکشن عملے کی ڈیوٹیاں لگ گئیں اور تعلیمی اداروں کی چار فروری سے گیارہ فروری تک چھٹیوں کا بھی اعلان ہو گیا تو یار دوستوں کو یقین آیا کہ افواہیں دم توڑ رہی ہیں اور الیکشن ہو کر رہیں گے۔ یہ ابہام یونہی پیدا نہیں ہوئے تھے کہ اس کی خاطر کئی طرح کے جتن کیے گئے‘ سینیٹ میں قراردادیں پیش کی گئیں‘ ٹی وی پر تجزیے پیش کیے گئے اور سکیورٹی وجوہات کو جواز بنا کر الیکشن ملتوی کروانے کی ایک منظم مہم چلائی گئی۔ پہلی قرارداد میں تو کورم بھی پورا نہ تھا لیکن اسے زبردستی منظور کروایا گیا۔ ایک طبقے کی جانب سے ایسا ماحول بنانے کی کوشش کی جا رہی تھی جس میں تمام سٹیک ہولڈرز کو ذہنی طور پر الیکشن کے التوا کیلئے تیار کیا جا رہا ہے۔ تاہم سپریم کورٹ کے احکامات نوشتہ دیوار تھے جن میں الیکشن کے بروقت انعقاد پر زور دیا گیا اور یوں الیکشن آٹھ فروری کو کروانے کیلئے نہ صرف نگران حکومت نے کمر کس لی بلکہ سیاسی جماعتیں اور امیدوار بھی کمر کس کر میدان میں اُتر آئے۔
موجودہ الیکشن میں کچھ چیزیں ماضی کے انتخابات سے مختلف ہو رہی ہیں جن کی وجہ سے سیاسی جماعتوں کو خود بھی یقین نہیں ہے کہ جن حلقوں میں وہ ہمیشہ جیتتے آئے ہیں‘ اس مرتبہ وہاں سے کیا نتائج سامنے آئیں گے۔ (ن) لیگ کے صدر میاں نواز شریف بھی اپنی صاحبزادی مریم نواز کے ہمراہ الیکشن مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں۔ سابق وزیراعظم شہباز شریف بھی اپنے حلقوں میں عوام کو گرمانے میں مصروف ہیں۔ ان کی کوشش ہے کہ کوئی نئی سکیم‘ کوئی نیا وعدہ ایسا کیا جائے کہ عوام انہیں ووٹ دینے کیلئے تیار ہو جائیں۔ میٹرو بس سروس منصوبہ انہی کا لگایا ہوا ہے جس پر مخالف حلقوں سے بڑی تنقید کی جاتی رہی لیکن بعدازاں تحریک انصاف نے خیبر پختونخوا میں اسی بس سروس کو دوسرے نام سے شروع کیا۔ اگلے روز قصور کے جلسے میں میاں شہباز شریف نے اعلان کیا کہ اگر وہ حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئے تو میٹرو بس سروس کو قصور تک لے جائیں گے۔ یہ وعدہ کم از کم ان وعدوں کی طرح نہیں ہے جو وفا ہو بھی جائیں تو عوام کو نظر نہیں آتے۔ میٹرو بس بنی اور آج اس پر لاکھوں شہری باعزت انداز میں سفر کر رہے ہیں۔ فی الوقت یہ شاہدرہ سے گجومتہ تک ہے۔ آگے قصور تک کوئی تیس کلومیٹر مزید فاصلہ ہے اور دونوں اطراف انتہائی گنجان آبادیاں ہیں۔ اس علاقے سے میٹرو بس گزرنے سے قصور تک تمام علاقے ایک طرح سے لاہور شہر کی آغوش اور دسترس میں آجائیں گے اور وہاں کے باسی بھی انتہائی مناسب کرایہ دے کر لاہور بلکہ لاہور سے باہر شاہدرہ تک ایک ہی ٹکٹ میں جا سکیں گے۔ ویسے یہ کام پہلے ہی ہو جانا چاہیے تھا کہ جب ٹریک بنایا جا رہا تھا تو آبادی تو اس وقت بھی فیروزپور روڈ پر قصور تک اس قدر بڑھ چکی تھی کہ اس کیلئے لاہور آنا اور جانا انتہائی دشوار ہو چکا تھا۔ یہ کام ویسے بھی کوئی برسوں نہیں مانگتا تھا اور اس کی مثال ہم نے گزشتہ ایک سال کے دوران نگران حکومت کے دور میں دیکھ ہی لی ہے کہ جس میں لاہور میں درجنوں ایسے منصوبے ریکارڈ مدت میں مکمل کیے گئے جو دس دس‘ بیس بیس سال سے التوا کا شکار تھے۔ یہ کام سیاسی حکومتوں کے کرنے کے ہوتے ہیں لیکن وہ عوام کو ایسے ترسا ترسا کر انہی کے پیسے ان پر لگاتی ہیں گویا کوئی احسانِ عظیم کر رہی ہوں۔ سندھ میں مسلسل جیتنے والی جماعت پیپلز پارٹی نے سندھ کو کیا دیا‘ یہ وہاں کے عوام بہتر جانتے ہیں لیکن پیپلز پارٹی نے بھی زیادہ وقت تنقید اور بلاوجہ کی بیان بازی میں گزارا اور دیکھا دیکھی میٹرو بس پرتنقید کی‘ کبھی اسے جنگلا بس سروس کہا‘ کبھی کچھ لیکن بالآخر جب اس منصوبے کو کامیاب ہوتے اور عوام کے سفری مسائل کو حل ہوتے دیکھا تو چارو ناچار کراچی کے شہریوں کو بھی سفر کی ایسی ہی سہولت دینے کا ارادہ کیا لیکن اس کا نام اور رنگ تبدیل کر دیا اور یوں کراچی کے لوگوں کو بھی گرین لائن بس سروس کی صورت میں کچھ نہ کچھ ریلیف حاصل ہو گیا۔
خیبر پختونخوا میں بھی یہی بس سروس چلی لیکن وہاں پر بھی کراچی کی طرح کافی تاخیر ہوئی حالانکہ پی ٹی آئی کو مسلسل دو مرتبہ وہاں حکومت ملی لیکن بقول مریم نواز ان دس برسوں میں وہ وہاں دس نہیں تو پانچ ہسپتال ہی بنا لیتے۔ یہ بات کافی حد تک درست ہے کہ پی ٹی آئی نے اپنے دورِ حکومت میں خاص طور پر خیبر پختونخوا میں دس سال ملنے کے باوجود بھی خاطرخواہ کارکردگی نہیں دکھائی۔ سابق وزیراعلیٰ پرویز خٹک ایک روایتی سیاستدان ثابت ہوئے اور ایک مرتبہ پھر پارٹی بدل کر اقتدار میں آنے کیلئے وہی روایتی سیاست ہی کر رہے ہیں۔ اس سارے منظر میں پیپلز پارٹی بھی پیچھے نہیں ہے۔ بلاول بھٹو پاکستان کے دل لاہور سے الیکشن لڑ رہے ہیں‘ شاید وہ سمجھ رہے ہیں کہ انہیں بھی نوجوانوں کے ووٹ مل جائیں گے‘ جو خام خیالی کے سوا کچھ نہیں۔ پیپلز پارٹی سندھ تک محدود ہو چکی ہے اور وہاں بھی اسے کارکردگی کی بنیاد پر ہمیشہ ووٹ نہیں ملتے بلکہ خالصتاً برادری‘ علاقائی اور تعلق داری کی بنیادوں پر اس کے امیدوار منتخب ہو جاتے ہیں۔ بہت کم ایسے ووٹر ہوں گے جو بھٹو کے نام پر پارٹی کو ووٹ دیتے ہوں گے۔ زیادہ تر وہی ہیں جنہیں معلوم ہے کہ یہ پارٹی تو پھر ان کا کچھ خیال کرتی ہے‘ کوئی دوسرا آ گیا تو جو کام ہو رہے ہیں اور جو تعلق داری بنی ہوئی ہے کہیں ان سے بھی ہاتھ نہ دھو بیٹھیں۔ لوگ اپنے حلقوں میں عام طور پر ان لوگوں کو دوبارہ نہیں دیکھتے جبکہ الیکشن میں ہر کوئی آستینیں چڑھا کر ووٹ مانگنے آ جاتا ہے۔
عوام ہر مرتبہ کنفیوز ہو جاتے ہیں کہ ووٹ دیں تو کس کو دیں۔ بدل بدل کر بھی دیکھ لیا۔ مذہبی جماعتوں کو بھی آزما لیا۔ بارہ بارہ جماعتوں کے اتحاد کی بھی آنیاں جانیاں دیکھ لیں۔ تیسری آپشن یعنی پی ٹی آئی کا بھی مزہ چکھ لیا۔ کئی جماعتوں کو چار چار بار بھی حکومت کرتے دیکھا لیکن کوئی بھی ویسی تبدیلی لے کر نہ آ سکا جس کا اظہار منشور یا الیکشن مہم میں زور و شور سے کیا جاتا ہے۔ عوام اپنی تقدیر اور اپنے حالات بدلنے کا سوچ کر انہیں ووٹ دیتے رہے لیکن عوام کی تقدیر بدلی نہ حالات بلکہ وہ تو آسمان سے زمین پر آ گئے البتہ ان سیاسی جماعتوں اور لیڈروں کی اپنی تقدیریں ضرور تبدیل ہو گئیں‘ وہ جیلوں میں رہ کربھی پھلتے پھولتے رہے اوران کے اثاثے شیطان کی آنت کی مانند بڑھتے رہے۔ ایک مرتبہ پھر یہی سیاستدان اور یہی عوام آمنے سامنے ہیں۔ ہونا وہی ہے جو پہلے ہوتا ہے۔ بدلیں گے تو صرف سیاسی اشرافیہ کے حالات اور ٹھاٹ بدلیں گے‘ عوام بے چارے بس ووٹ دیتے اور ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved