تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     16-10-2013

تقابل

دانش ور نے حیران کردیا۔حیران تو وہ اکثر کرتے ہیں لیکن اُس روز حیرت کے جلو میں پریشانی بھی چلی آئی تھی۔ یونیورسٹی کے طلبا کا اجتماع تھا۔ایک طالب علم نے سوال کیا: اخلاقی طور پر کیسا پامال سماج ہے جس کا ہم حصہ ہیں۔پانچ اور سات سال کی کم سن معصوم بچیاں ظلم کا ہدف بنتی ہیں۔اخلاقیات اور انسانیت کے تمام ضوابط ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔دنیا میں ہماری ساکھ آخرکیا رہ گئی ہے؟ارشاد ہوا: میں اِس سوال کے انتظار میں تھا۔ ہم سے یہ سوال وہ کرتے ہیں جن کی اپنی کوئی اخلاقیات نہیں۔امریکا میں ہر منٹ میں دس عورتوں کی عصمت دری ہوتی ہے۔فلاں جگہ یہ ہوتا ہے۔فلاں جگہ یہ۔یہ لوگ کس منہ سے ہم سے سوال کرتے ہیں۔ہم اخلاقی طور پر اہلِ مغرب کے مقابلے میں کہیں بہتر جگہ پہ کھڑے ہیں۔ہماری روایات ہیں۔ انہیں کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ سوال کریں؟وہ انسانیت کے قاتل…اخلاق کے قاتل… تالیاں۔!! میں اس جواب پر حیران تھااور پریشان بھی۔سوال کرنے والا امریکا کا شہری تھا نہ برطانیہ کا۔وہ تو ایک سیدھا سادہ طالب علم تھا اور اُس سماج کا ایک رکن ، جس کا ہم سب حصہ ہیں۔اپنی اخلاقی حالت پر اداس اور اصلاح کا متمنی۔میں سوچ رہا تھا کہ اس کے سوال کا یہی جواب تھا؟سوچا تو خیال ہوا کہ یہ ایک اندازِ نظر ہے جس میں دانش ور تنہا نہیں۔اکثر اس نوعیت کے سوالات کے یہی جواب سنائی دیتے ہیں۔بے معنی تقابل اور اپنی اخلاقی حالت سے صرف ِنظر۔آج جب مغرب میںملالہ کی پذیرائی ہوئی تو میں ایک بارپھر اسی استدلال کی صدائے بازگشت سن رہا ہوں۔خود ترحمی پر اصرار اور خود احتسابی سے گریز ۔ قرآن مجید کا درس بالکل دوسرا ہے۔اس سے برعکس۔خود ترحمی سے گریز اور خود احتسابی پر اصرار۔رسالت مآب ﷺ کو زندگی میں بہت سے معرکے درپیش ہوئے۔کامیابی ہوئی اور ناکامی بھی۔بدر کا واقعہ پیش آیا اور احد کا معرکہ بھی۔قرآن مجید نے ہر واقعے پر تبصرہ کیا۔ہر بارمسلمانوں کی کمزوریوں کی نشان دہی کی۔ ناکامی ہوئی تو اس کے داخلی اسباب بتائے اور آئندہ کے لیے ہدایات دیں۔طعنہ قرآن مجید کا اسلوب ہے نہ اندازِ استدلال۔سورہ انفال پڑھیے جہاں بدر کے واقعہ پر تبصرہ ہے۔غزوہ احد کا تجزیہ اتنا حقیقت پسندانہ ہے کہ حیرت ہوتی ہے۔ اللہ نے صحابہ جیسی جماعت کا اتنی سختی سے احتساب کیا کہ خوف آتاہے ۔صحابہ کون ہیں؟وہ کہ جس سے بہتر گروہ آسمان کی آنکھ نے نہیں دیکھا۔خود رسولوں کے باب میں اللہ کی سنت کیاہے۔کوئی جاننا چاہے تو سیدنا یونسؑ کا قصہ پڑھ لے۔قرآن مجید نے کبھی دوسروں کی کمزوریوں کو مسلمانوں کی کمزوریوں اور کوتاہیوں کے لیے بطور استدلال قبول نہیں کیا۔مخالفین کے نقطہ نظر کو غلط کہا ، مسلمانوں کی عزیمت اور خوبیوں کی تعریف‘ لیکن کمزوریوں کا کبھی اس بنیاد پر دفاع نہیں کیا کہ دوسرے بھی تو ایسا ہی کرتے ہیں۔ جنگ کے دوران بھی مسلمانوں کو ان کی اخلاقیات کی طرف متوجہ کیا گیا اور انہیں سمجھایا گیا کہ اگر دوسرے اخلاقیات کا خیال نہیں رکھتے تو تمہیں اس کا حق نہیں کہ کسی اخلاقی پامالی کے لیے ان کے رویے کو جوازبنا لو۔ واقعہ یہ ہے مسلمان کا اصل امتیاز اس کا اخلاق ہی ہے۔ اگر یہ نہیں تو پھر عبداللہ اور پیٹر یا رام داس میں کوئی فرق نہیں۔ دینی پہلو سے صرفِ نظر کیجیے تو معاملات کو دیکھنے کا یہ اندازعقلی اعتبار سے بھی محلِ نظر ہے۔ یہ خود شکستگی کا مظہر ہے۔دنیا میں کامیابی کا صرف ایک طریقہ ہے۔اپنی قوت میں اضافہ اور اپنی کمزوریوں کا تدارک۔اگر پاکستانی سماج میں کوئی خرابی ہے تو اسے محض اس وجہ سے گوارا نہیں کیا جاسکتا کہ دوسرے بھی اس میں مبتلا ہیں۔یہ مناظرانہ اسلوب ہے، جس سے ممکن ہے کہ آپ دوسروں کا منہ بند کردیں لیکن اس سے حالات میں کوئی فرق نہیں آتا۔پھر یہ کہ دوسروں کے ساتھ گفتگو میں ممکن ہے کہ یہ اسلوب کسی حد تک معاون ہو، اپنوں کے ساتھ مکالمے میں اس کا جواز کیاہے؟ملالہ کی مذمت کیا اس وجہ سے کی جائے گی کہ کسی مغربی قوت نے اس کی پذیرائی کی؟ہمیں تو یہ دیکھنا ہے کہ اس کا کردار کیا ہے؟اس کا موقف کیا ہے؟اگر اس میں کوئی سقم ہے تو اس کی نشاندہی کی جائے اور اسے توجہ دلائی جائے جیسے ہم اپنے بچوں کو سمجھاتے ہیں۔اس میں تقابل کہاں سے آگیا؟ پھر یہ تقابل بھی بہت دلچسپ ہے۔ہم اپنے آئیڈیلز کا تقابل دوسروں کے حقائق سے کرتے ہیں۔صحیح تقابل یہ ہے کہ حقائق کا تقابل حقائق اور آئیڈیلز کا تقابل آئیڈیلز سے کیا جائے۔اس سے اندازہ ہو گاکہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔جن اخلاقی اقدار پر ایک سماج قائم رہتا ہے،ان کے بارے میں ہمارے اور ان کے رویے میں کیا فرق ہے؟مثال کے طور پر ایک سماج کی زندگی کا انحصار اس پر ہے کہ اس کے شہری قانون کا کس حد تک احترام کرتے ہیں؟یا یہ کہ سچ اور جھوٹ میں کتنی تمیز کی جاتی ہے۔تقابل اگر مثبت ہو تو ہماری نظر دوسروں کی خوبیوں پر رہتی ہے۔ اگر منفی ہوتو ہم دوسروں کی کمزوریاں تلاش کرتے اور اپنی اخلاقی پستی کے لیے جواز ڈھونڈ لیتے ہیں۔ وقت بہت بے رحم ہے۔اعمالِ صالح کے سوا نجات کا کوئی راستہ نہیں۔ زندگی کا صحیح چلن یہی ہے کہ اپنی خوبیوں میں اضافہ کیا جائے۔ دوسروں کا جائزہ اس پہلو سے لیا جائے کہ ان کی کامیابیوں کا سبب کیا ہے اور ناکامیوں کاکیا۔اسی میں سلامتی ہے ۔دوسرے اگر برے ثابت ہو جائیں، تو بھی ہماری کمزوریوں کی قیمت ہمیں ادا کر نا پڑے گی۔یہی اللہ کی سنت ہے اور یہی تاریخ کا فیصلہ۔دنیا میں کامیابی کا فیصلہ اسی بنیاد پر ہونا ہے اور آخرت میں بھی۔ مغرب ہمارا آئیڈیل نہیں، معاصر ہے۔ہم اپنی اخلاقی اقدار کو اس الہام سے کشید کرتے ہیں جو اللہ کے آخری رسول محمدﷺ کے قلب ِاطہرپر نازل ہوا۔ جو قرآن مجید کی صورت میں مو جود ہے اور جسے رسالت مآب ﷺاور آپ کے صحابہؓ نے سطحِ زمین پر مشہود کر دیا۔ہمارا آئیڈیل یہی ہے۔معاصرین سے سیکھا جاتا ہے۔ان کی اچھی باتوں کو قبول کیا جاتا ہے اور خراب باتوں کو رد کر دیا جاتا ہے۔یونانی فکر کے ساتھ مسلمانوں نے یہی کیا۔عقلی استدلال کا منہج اور علوم میں ان کی پیش رفت کو قبول کیا لیکن دیومالائی داستانوں (Mythology) کو رد کر دیا۔طعنے کا مزاج اس مثبت اندازِ نظر سے کوئی مناسبت نہیں رکھتاجو ہمارا مذہب ہمیں سکھاتا ہے اور انسانی تجربہ جس کی تصدیق کرتاہے۔سامراجیت کی ہر صورت کو تاریخ نے مسترد کیا ہے۔امریکی سامراجیت کا انجام بھی یہی ہونا ہے۔ہمارا عروج و زوال بھی اِسی قانونِ قدرت کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔خود احتسابی اور دوسروں کی خوبیوں سے استفادہ ۔ مغرب کے باب میںہم انتہا پسند ہیں۔ ایک طرف نقال ہیں جو مغرب کو معیار مانتے اوراس کی ہر قدر اور رویے کوباعثِ تقلید سمجھتے ہیں‘ دوسری طرف ردِعمل کا شکارہیں جو مغرب کی ہر بات کو مسترد کرتے ہیں۔راہِ اعتدال ہی میں خیر ہے۔تقابل بھی اسی اعتدال کا مطالبہ کرتاہے۔اور پھر یہ کہ تقابل اور خود احتسابی کا محل ایک نہیں ہے۔عرب ظلم کی یہی تعریف کرتے ہیں:’’کسی چیز کو ایسی جگہ رکھنا جو اس کا محل نہ ہو‘‘۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved