اللہ تعالیٰ کی با برکت ذات‘ اس کائنات میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے‘ سب دیکھ رہی ہے‘ سب سن رہی ہے۔ یہاں پیش آنے والا ایک ایک واقعہ وہاں ایک منظر کی صورت ریکارڈ ہو رہا ہے۔ وہاں ریکارڈ شدہ کوئی منظر نہ تو ڈیلیٹ کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس میں کوئی اپنی مرضی سے کسی بھی قسم کی تحریف کر سکتا ہے کیونکہ وہاں تک رب ذوالجلال کے علاوہ کسی کی رسائی نہیں ہے‘وہ کل کائنات کا مالک و مختار ہے۔ انسان اپنی کسی کوشش سے‘ اپنے کسی بُرے ارادے یا بدی کو انجام دینے سے کبھی کبھار مشکلات کا شکار ہو جاتا ہے‘ لیکن اگر کسی عمل میں بدی کا کوئی امر پوشیدہ نہ ہو اور وہ خالصتاً نیک نیتی پر مبنی ہو‘ اس میں اُس کا کوئی دنیاوی مفاد نہ ہو تو اس اچھائی یا بھلائی کے نتیجے میں بھی اگر وہ مشکلات‘ تکالیف اور پریشانیوں کا شکار ہو جائے تو اس میں بھی رب کریم کی کوئی نہ کوئی بہتری ہی ہوتی ہے۔
اب آتے ہیں اللہ تبارک و تعالیٰ کی بابرکت ذات سے کی جا رہی اس درد بھری فریاد کی طرف جو میرے اس کالم کا حصہ ہے۔ کسی کروڑہا پتی باپ کی چار بیٹیاں‘ دو بہوئیں‘ دو پوتے‘ ایک نواسی اور ایک نواسہ‘ اس کی بوڑھی بہن اور بہنوئی اور ایک بھانجی خدا کی اس زمین پر گزشتہ ڈیڑھ برس سے ایک بندے کی پناہ میں ہیں۔ ان کا اس دنیا میں نہ تو کوئی گھر ہے اور نہ ہی کوئی کمانے والا۔ دو سال سے ایک خدا ترس تیرہ افراد پر مشتمل اس کنبے کی مقدور بھر دیکھ بھال کر رہا ہے اور انہیں لاہور کے مضافات میں تین مرلے کا ایک گھر 35ہزار روپے ماہانہ کرایہ پر لے کر دیا ہوا ہے۔ ان کا علاج‘ کھانا‘ کپڑا یہ سب اللہ کی وساطت سے حسبِ توفیق پورا کیا جا رہا ہے لیکن اب صورتحال کچھ یوں ہے کہ وہ شخص جو دو سال سے ان سب کی دیکھ بھال کرتا چلا آ رہا ہے‘ اُس کی مالی حالت اس قدر پتلی ہو چکی ہے بلکہ سچ پوچھیے تو وہ ان کی دیکھ بھال کرتے کرتے بے تحاشا مقروض بھی ہو گیا ہے اور اسے سمجھ نہیں آ رہی کہ اتنے لوگوں کی کفالت‘ بچوں بڑوں کی بیماریاں‘ گھر کا کرایہ‘ بجلی‘ گیس اور پانی کے بِل اب کیسے اور کہاں سے ادا کر سکے گا؟ وہ جو سب کو پالنے والا ہے‘ وہ جو سب کا رازق ہے‘ وہ جس کے قبضے میں سب کی جان ہے‘ وہ اس حقیقت اور سچائی کے ایک ایک لفظ کا شاہد بھی ہے۔ کوئی ایسا مخیر شخص جو کسی بھی طریقے سے اس سچائی اور حقیقت کو اپنی آنکھوں اور کانوں سے سننا چاہے‘ خود ان کے پاس جا کر رازداری کی شرط کے ساتھ باقاعدہ تصدیق کر سکتا ہے۔
قدرت کا کمال دیکھیے‘ جس گھر میں یہ پیدا ہوئے‘ پلے بڑھے‘ جسے ان کے باپ نے اب فروخت کر دیا ہے‘ وہ پچیس مرلے کا گھر تھا جو کہ دیکھنے والوں کو حیران کر دیتا تھا کیونکہ اُس میں دنیا کی ہر سہولت موجود تھی۔ بس اتنا جان لیجئے کہ اس گھر کا باورچی خانہ ڈھائی مرلے پر مشتمل تھا اور آج اس گھر کے مالک کے بیٹے‘ بیٹیاں ایک طرح سے کھلے آسمان تلے اس تین مرلے کے گھر‘ جسے دارِ پناہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا‘ میں رہنے پر مجبور ہیں۔ یہ سب رب تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے‘ شاید اسے ہی لکھ پتی سے ککھ پتی ہونا کہا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے‘ اس سے پناہ مانگتے ہوئے کیونکہ وہ رحیم بھی ہے اور کریم بھی ہے‘ اس سے گزارش کر رہا ہوں کہ خدایا تُو سب جانتا ہے‘ جو کچھ دلوں میں ہے وہ بھی تیرے علم میں ہے‘ تیرا وہ بندہ اب کس حالت میں ہے تیری نگاہ میں ہے‘ اب اس کے پاس کچھ بھی نہیں رہا اور وہ ان تیرہ لوگوں کی کفالت‘ بیماریوں کا علاج‘ ان کے آپریشنز کرواتے کرواتے اس قابل نہیں رہا کہ کل کیلئے ان کا کچھ کر سکے۔ میرے رب یہ تیری کیا حکمت ہے‘ کیا راز ہے یہ تُو ہی جانتا ہے لیکن اس مہینے کے بعد اس خاندان کو تیرے سپرد کیا جا رہا ہے کیونکہ تُو جانتا ہے کہ اب اُس شخص میں اِس گھر کا کرایہ ادا کرنے کی بھی سکت نہیں رہی۔ نئی شادی رچا کر جوان بیٹیوں کو سڑک پر لاوارث چھوڑنے والے باپ کی اولاد اس کے ہوتے سوتے صدقہ و خیرات پر پل رہی ہے اور حیران کن طور پر ابھی تک اسے دنیا میں یہ سزا ملی ہے کہ دو بیٹے ٹریفک حادثات میں شدید زخمی ہونے کی وجہ سے معذور ہو چکے ہیں اور اس کی سب سے چھوٹی بیٹی کا شوہر کار حادثے میں ہلاک ہو گیا ہے اور اس کی بیٹی بیوہ ہو چکی ہے۔ بے شک یہ باپ انتہائی امیر کبیر اور مال و دولت والا ہے‘ چار پانچ لاکھ روپے اس کیلئے ایسے ہیں جیسے کوئی دس بیس ہزار خرچ کر رہا ہو‘ اس کے یہی دو بیٹے جنہیں اس نے مڈل سے آگے یہ کہہ کر تعلیم ہی نہ دلائی کہ انہوں نے کون سی نوکری کرنی ہے۔ بی اے‘ ایم اے پاس تو ان کے ماتحت کام کریں گے‘ باپ کی ڈھیروں دولت اور کروڑوں کا بزنس ہے‘ ان کو کس چیز کی کمی ہے۔ لیکن مارچ 2021ء میں اس خاندان پر اس کے اسی سربراہ کی جانب سے‘ جس نے نہ تو اپنے بچوں کو تعلیم دلائی اور نہ ہی کاروبار میں اپنے پاس رکھا‘ دوسری شادی کی صورت میں ایک دن اچانک مصیبتوں کا پہاڑ گرا دیا گیا۔
اسلام میں چار شادیوں کی اجازت ہے اور اس میں کوئی گناہ نہیں لیکن یہ مدِ نظر رہنا چاہیے کہ قرآن پاک نے مسلمانوں کو حکم دے رکھا ہے کہ ایک سے زیادہ شادیاں صرف اس صورت میں کرو جب تم دیکھو کہ سب سے انصاف کر سکو گے۔ لیکن یہاں پر تو سب اُلٹ ہوا اور نئی نویلی دلہن نے شرط رکھ دی کہ وہ اس کی مرضی کے بغیر اپنی سابقہ بیوی اور اس کے بچوں سمیت کسی سے بھی کسی قسم کا کوئی واسطہ نہیں رکھے گا۔ وہ تو بعد میں پتہ چلا کہ اُس شخص کی اس خاتون سے پرانی شناسائی تھی‘ یہی وجہ ہے کہ اپنے بیٹوں اور فیملی کو اپنے بزنس میں شامل ہی نہیں کرتا تھا جس سے اس کی پہلی بیوی کو شک ہی نہیں‘ یقین ہو چلا تھا کہ اس نے دوسری شادی کر رکھی ہے۔ جب اس نے بچوں کا خرچہ بند کر دیا تو اس کے داماد نے‘ جو اس کا سگا بھانجا بھی تھا‘ اپنی بیوی‘ چار سالہ بیٹی اور چند ماہ کے بیٹے کے ساتھ اپنے سسر کے پاؤں میں سررکھ کر منتیں کیں کہ اپنی نئی بیوی کے ساتھ رہو‘ بے شک اپنے بچوں اور ہم سے کبھی نہ ملو لیکن اپنے بیٹے بیٹیوں کو اتنا تو دے دیا کرو کہ وہ دو وقت کی عزت کی روٹی کھا سکیں۔ اگر یہ بھی نہیں کر سکتے تو اپنے بیٹوں کو کوئی کاروبار ہی کرا دو لیکن اس نے اپنی نئی دلہن کے کہنے پر داماد اور اپنی بیٹی کی ایک نہ مانتے ہوئے انہیں بے عزت کر کے گھر سے نکال دیا بلکہ اپنی پہلی بیوی کو ان کے سامنے طلاق بھی بھجوا دی۔
اس لمحے کے بعد سے وہ کہانی شروع ہو جاتی ہے جس میں داماد اُس شخص کی بیٹی یعنی اپنی بیوی کو اس کے سامنے طلاق دے کر چلا جاتا ہے جس کی اس نے اپنی بچی اور بچے سمیت سسر کے پاؤں پڑتے ہوئے دھمکی بھی دی تھی کہ اگر میری بات نہ مانی تو میں تمہاری بیٹی کو طلاق دے دوں گا۔ اس لڑکے نے جب اپنی ساس کی طلاق کا سنا تو اس کے سامنے ہی اس کی بیٹی کو طلاق دیتے ہوئے کہا کہ اب تم بھی مزہ چکھو کہ کسی کی بیٹی کو بے گناہ کیسے طلاق دی جاتی ہے۔ جب اس داماد کی ماں‘ جو اس کی بیوی کی سگی پھوپھی تھی‘نے پوتے پوتی سمیت اپنی طلاق یافتہ بہو کو اپنے گھر میں رکھ لیا تو اس بدبخت بیٹے نے غصے اور انتقام سے اپنے بوڑھے ماں باپ کو بھی گھر سے نکال کر اُن کا خرچہ تک بند کر دیا۔ کمزور‘ ناتواں اور بوڑھے ماں باپ کو دو دنوں کا فاقہ ہوا تو سرگودھا سے گرتے پڑتے لاہور اپنی بیٹی اور بہو کے ساتھ اس تین مرلے کے گھر آ پہنچے۔ خود ہی بتائیے کہ ان کوکیسے انکار کیا جاتا۔ کوئی بھی مخیر شخص اگر رابطہ کرنا چاہے تو ان حقائق کی خود تصدیق کر سکتا ہے۔ کل تک آسائشوں میں پلنے والے‘ آج اپنے سگے باپ کی وجہ سے اس حالت میں پہنچ گئے ہیں کہ ان کے پاس سفر کیلئے کرایہ بھی نہیں ہوتا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved