کورونا وائرس (کووِڈ 19) کا نام آج بھی ایک دنیا کے لیے دہشت کی علامت بنا ہوا ہے۔ دنیا ابھی تک اس عالمی وبا کے نقصانات بھگت رہی ہے۔ ایک وقت تو ایسا بھی آیا تھا کہ کورونا کے خوف کی وجہ سے لوگ اپنے جسم کو چھوتے ہوئے بھی خوف محسوس کرتے تھے اور کسی بھی شے کو چھونے سے پہلے اور بعد میں ہاتھوں کو صابن سے دھونا ضروری سمجھا جاتا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کووڈ 19نے دنیا بھر میں بڑی تباہی پھیلائی، نہ صرف قیمتی انسانی جانیں ضائع ہوئیں بلکہ معاشی لحاظ سے ہونے والے نقصانات نے انسانی زندگی کو مزید کٹھن بنا دیا۔ سماجی طور پر بھی دنیا ایک دوسرے سے کٹ کر رہ گئی تھی، تعلیمی ادارے طویل عرصہ تک بند رہے، صحت کا نظام بری طرح متاثر ہوا، حتیٰ کہ کھیلوں کے میدان بھی بند کر دیے گئے تھے، نوجوان نسل کے لیے کسی بھی قسم کی مثبت سرگرمیاں نہ ہونے کی وجہ سے منفی سرگرمیوں کو فروغ ملا، سٹریٹ کرائمز اور جنسی تشدد سمیت جرائم کی شرح میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا؛ تاہم جب کورونا وائرس کی شدت میں کمی واقع ہوئی اور لوگوں میں اس مرض کے حوالے سے آگہی بڑھنے لگی، تعلیمی ادارے اور کھیلوں کے میدان آباد ہوئے تو خود بخود منفی سرگرمیاں بھی محدود ہونے لگیں۔ اگر کورونا کے نقصانات کا تفصیلی جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اس وقت اس بیماری سے زیادہ نقصان ہوا جب لوگ اس عالمی وبا کی احتیاطی تدابیر اور بچائو کے حوالے سے آگاہ نہیں تھے۔
عالمی ادارۂ صحت کے مطابق کسی بھی بیماری کو عالمی وبا قرار دیے جانے کا کوئی مخصوص طریقہ کار نہیں؛ تاہم کسی بیماری کو اس وقت عالمی وبا قرار دیا جا سکتا ہے جب مذکورہ بیماری ایک سے دوسرے ملک اور دوسرے خطے میں سفر کرکے بہت سارے اور ہر عمر کے افراد کو متاثر کرے۔ کسی مرض کو عالمی وبا قرار دینے سے قبل اسے ابتدائی طور پر خطرناک اور وبا قرار دیا جاتا ہے؛ تاہم ایسا بھی ممکن ہے کہ کسی بیماری یا وائرس کو براہِ راست عالمی وبا قرار دے دیا جائے۔
کورونا کی وبا 2019ء کے اختتام پر وارد ہوئی اور 2020ء میں دنیا نے لاک ڈائون کا مزہ چکھا جبکہ کئی ممالک میں اس کے بعد بھی لاک ڈائون کا سلسلہ چلتا رہا۔ اب خدا خدا کر کے کورونا کی تباہ کاریوں سے تو جان چھوٹ گئی ہے لیکن عالمی ادارۂ صحت نے اب دنیا میں ''ڈیزیز ایکس‘‘ نامی ایک وبا کے پھیلنے کے خدشات کا اظہار کر کے خطرے کی ایک گھنٹی بجا دی ہے۔ یہ بیماری کورونا سے 20 گنا زیادہ خطرناک بتائی جا رہی ہے۔ ورلڈ اکنامک فورم کے ایک حالیہ سیشن میں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے عہدیداران اور سائنسدان ڈیزیز ایکس کے ممکنہ پھیلائو سے ہونے والے تباہ کن خطرے پر بات کرنے کے لیے جمع ہوئے۔ یہاں قارئین کو بتاتے چلیں کہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی طرف سے 2018ء میں وضع کی گئی اصطلاح ''ڈیزیز ایکس‘‘ کوئی مخصوص وائرس نہیں ہے بلکہ یہ مستقبل میں غیر متوقع طور پر آنے والے صحت کے بحرانوں کے ممکنہ خدشات کو مدِنظر رکھتے ہوئے ان سے نمٹنے کیلئے اپنائی گئی حکمت عملی کا نام ہے۔ اس سیشن کے دوران ڈیزیز ایکس کی تیاری کے عنوان سے ایک پینل نے غلط معلومات اور سازشی نظریات کا مقابلہ کرنے کیلئے بہتر مواصلاتی حکمت عملی کی فوری ضرورت پر زور دیا۔ ماہرین نے اس بات پر بھی روشنی ڈالی کہ ڈیزیز ایکس ممکنہ طور پر ایک ایسے وائرس کے طور پر ظاہر ہو سکتی ہے جو سانس کی بیماریوں کا باعث بنے اور ممکنہ طور پر یہ جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہونے والا وائرس بھی ہو سکتا ہے۔ مناسب تیاری کے بغیر ڈیزیز ایکس کورونا وبا کی وجہ سے ہونے والی تباہی‘ جس نے اب تک دنیا بھر میں 70 لاکھ سے زیادہ جانیں لی ہیں‘ کو بھی پیچھے چھوڑ سکتی ہے۔ ڈیزیز ایکس کے پھیلائو پر قابو پانے کے لیے اقوامِ عالم کے درمیان مؤثر رابطے کی ضرورت ہے۔
عالمی ادارۂ صحت نے اس وبا سے متعلق غلط معلومات کے پھیلائو کے خدشات کو مدنظر رکھتے ہوئے عوامی آگاہی کی ضرورت پر بھی زور دیا اور کہا کہ غلط معلومات ایک وائرس کی طرح متعدی ہو سکتی ہے‘ اس لیے ہمیں بیماری کے بارے میں لوگوں میں کسی قسم کا خوف یا سازش کے پھیلائو کو روکنے کے لیے لوگوں کو درست معلومات سے آگاہ کرنا بہت ضروری ہے۔ صحت کے عالمی ماہرین کی یہ بات بڑی اہمیت رکھتی ہے کیونکہ کووڈ 19 کے پھیلائو کے ابتدائی مہینوں میں غلط معلومات اور ضرورت سے زیادہ خوف نے مرض سے کہیں زیادہ نقصان پہنچایا۔ عالمی ادارۂ صحت نے حالیہ دور میں دنیا کو جن وبائی امراض سے نمٹنے کے لیے الرٹ رہنے کا انتباہ دیا ان میں کورونا، کانگو، نیپاہ وائرس، ایبولا اور ڈیزیز ایکس سمیت دیگر بیماریاں اور وبائیں شامل ہیں۔ اگرچہ باقی وبائوں کا دنیا میں کسی نہ کسی صورت وجود ہے اور وہ کہیں نہ کہیں پھیل بھی رہی ہیں یا انتباہ کے وقت پھیل رہی تھیں لیکن ڈیزیز ایکس تاحال نہ تو وجود رکھتی ہے اور نہ ہی اس سے متعلق کسی کو کچھ معلوم ہے۔ ڈبلیو ایچ او نے یہ بات بھی تسلیم کی کہ دنیا کو پہلے ہی سے ڈیزیز ایکس کے لیے تیار رہنے کی ہدایات دینے سے کچھ لوگ پریشان ہو سکتے ہیں اور اس سے نئی پریشانی جنم لے سکتی ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ آنے والے دور میں دنیا کو اَن دیکھی وبائوں کا کثرت سے سامنا کرنا پڑے گا۔
اس میں کوئی شبہ نہیں پاکستانی ڈاکٹر دنیا بھر میں اپنی اہلیت و قابلیت کے حوالے سے مانے اور جانے جاتے ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ہم ابھی تک پولیو سے بھی مکمل طور پر چھٹکارا نہیں پا سکے جبکہ نمونیا جیسی عام بیماریاں بھی ہمارے نظام صحت کے لیے ایک چیلنج ثابت ہو رہی ہیں۔ اگر صرف گزشتہ چوبیس گھنٹوں کی بات کی جائے تو دوران صرف پنجاب میں مزید 1077 بچے نمونیا میں مبتلا ہو چکے ہیں جبکہ اس دورانیے میں مزید 12 بچے نمونیا کے باعث انتقال کر گئے۔ پنجاب میں 24 دن میں11 ہزار 597 بچے نمونیا میں مبتلا ہو چکے ہیں جبکہ 24 دن میں نمونیا سے 220 اموات ہو چکی ہیں۔ ڈائریکٹر حفاظتی ٹیکا جات کے مطابق پنجاب میں ان دنوں نمونیا ایک وبا کی طرح پھیلا ہوا ہے، بچے کو پیدائش سے لے کر ڈیڑھ ماہ تک نمونیا ویکسین ایک خاص نمونیا سے بچاتی ہے، ان دنوں پھیلے ہوئے وائرل نمونیا میں نمونیا ویکسین مؤثر نہیں رہتی۔ حفاظتی ٹیکا جات کے تحت لگنے والی نمونیا ویکسین وافر مقدار میں موجود ہے، بچوں اور بڑوں کے لیے نمونیا کی ایک ہی ویکسین ہوتی ہے مگر اس وقت عام مارکیٹ میں نمونیا ویکسین دستیاب نہیں۔ حکومتی اجازت کے بغیر کوئی فارمیسی نمونیا ویکسین بیرونِ ملک سے نہیں منگوا سکتی، حکومت بیرونِ ملک سے صرف حفاظتی ٹیکا جات کے تحت بچوں کو لگنے والی ویکسین ہی منگواتی ہے۔
یہاں یہ بات صائب معلوم ہوتی ہے کہ انسانی جان بچانے والی ادویات کے معیار، عام آدمی تک رسائی اور قیمت پر حکومتی نگرانی از حد ضروری ہے تاکہ مفاد پرست عناصر اپنے ناجائز منافع کی خاطر کسی بھی دوائی کی ذخیرہ اندوزی یا بلیک مارکیٹنگ نہ کر سکیں۔ ضروری ہے کہ جان بچانے والی ادویات کی قیمتیں مناسب ہوں، مارکیٹ میں جعلی ادویات کی روک تھام بھی ضروری ہے؛ تاہم ملک میں صحت کی سہولتیں عام کرنے کے لیے نجی شعبے کو بھی مراعات دینا ہوں گی تاکہ وطن عزیز میں کوئی قیمتی انسانی جان محض دوائی نہ ملنے کی وجہ سے ضائع نہ ہو۔ اس کے علاوہ ہماری حکومت خصوصاً محکمہ صحت کے اربابِ اختیار کو نئی ممکنہ عالمی وبا‘ ڈیزیز ایکس کے حوالے سے ملک گیر سطح پر خصوصی آگاہی مہم ابھی سے شروع کر دینی چاہئے تاکہ اگر خدانخواستہ کبھی ایسی وبا کا حملہ ہو تو لوگ خوف میں مبتلا ہونے کے بجائے درست حفاظتی تدابیر اپنا کر اپنی اور اپنے پیاروں کی جان بچا سکیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved