یہ مثل تو آپ نے بھی سنی ہوگی کہ مچھلی کے جائے کو تیرنا کون سکھائے۔ یہ بات کسی بھی ایسے بچے کے بارے میں کہی جاتی ہے جو اپنے خاندانی ہُنر یا بزنس میں قدم رکھنے کے بعد اپنے طور پر بہت سی مشکل منازل طے کرتا جائے۔ انسان جس ماحول میں پیدا ہوتا ہے وہ اُس کی نفسی یا فکری ساخت کا حصہ ہوتا ہے۔ اگر خاندان درزیوں کا ہو تو بچے میں بھی درزی بننے کا رجحان پیدا ہوگا۔ پڑھے لکھوں کے خاندان میں پیدا ہونے والا بچہ پڑھنے لکھنے کی طرف زیادہ مائل ہوگا۔ اِسی طور سیاسی خاندان میں پیدا ہونے والا بچہ سیاست کی طرف جھکا ہوا ملے گا۔ یہ سب کچھ فطری ہے اس لیے ایسا ہوتا دیکھ کر لوگوں کو زیادہ حیرت نہیں ہوتی۔
کیا کسی بھی انسان کے سیاست دان بننے کے لیے اتنا ہی کافی ہوتا ہے کہ وہ سیاسی گھرانے میں پیدا ہو؟ یقینا اِتنا کافی نہیں کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سے بچے اپنے گھر اور خاندان کے ماحول کے خلاف جاکر کسی اور شعبے کو اپناتے ہیں اور اُس میں اپنے آپ کو اس طورمنواتے ہیں کہ دنیا دیکھتی رہ جاتی ہے۔ بہت سے کیسز میں یہ بھی ہوتا ہے کہ بچہ کسی ایسے شعبے کو اپناتا ہے جس میں اُس گھرانے اور خاندان کے کسی بھی فرد نے قدم نہ رکھا ہو۔ فنونِ لطیفہ کی بہت سی شخصیات اِس کی بہت روشن مثال ہیں۔ مثلاً بالی وُڈ کنگ دلیپ کمار (یوسف خان) کے خاندان میں اُن سے پہلے کوئی اداکار نہ ہوا تھا۔ وہ آئے اور ایسے چھائے کہ جیسے اُن کا پورا خاندان ہی اداکار رہا ہو۔ اُن کے بھائی ناصر خان بھی اداکاری کی طرف آئے اور پھر اُن کا بیٹا ایوب بھی اداکار بنا؛ تاہم جو بات یوسف صاحب میں تھی وہ تو بس اُنہی میں تھی۔ اپنے خاندان میں اداکار تو صرف یوسف صاحب ہی ہوئے۔ محمد رفیع مرحوم برصغیر کے سب سے بڑے گلوکار تھے۔ اُن کے خاندان میں بھی اُن سے پہلے کوئی گلوکار ہوا نہ بعد میں۔ جو بھی اُنہیں سنتا تھا اُس کے ذہن کے پردے پر یہ خیال ضرور ابھرتا ہوتا کہ وہ خاندانی گویّوں میں پیدا ہوئے ہوں گے۔ محمد رفیع مرحوم نے جو کچھ بھی پایا اپنے شوق اور محنت سے پایا۔
والدین بچوں میں کسی بھی چیز کا شوق پیدا کرسکتے ہیں اور کرتے ہی ہیں۔ جب وہ متوجہ ہوتے ہیں تب بچوں میں بھی کچھ کرنے کا رجحان پروان چڑھتا ہے۔ ایسے بچے بھی آپ کے مشاہدے میں ہوں گے جن پر والدین نے ذرا بھی توجہ نہیں دی مگر پھر بھی وہ کچھ نہ کچھ بن گئے۔ ایسی مثالیں حجت کا درجہ نہیں رکھتیں۔ کسی میں کچھ کرنے کی لگن ہو تو وہ کسی نہ کسی طور کسی مقام تک پہنچ جاتا ہے۔ ہاں‘ اِس میں محنت کچھ زیادہ لگتی ہے۔ ماحول انسان کو بہت کچھ دیتا ہے۔ کسی بھی شعبے میں جانے کی تحریک اصلاً تو ماحول ہی سے ملتی ہے۔ بچے اپنے والد یا بڑے بھائی اور خاندان کے لوگوں کو جو کچھ کرتا دیکھتے ہیں وہی کام اُن کی فکری ساخت کا حصہ بنتا جاتا ہے۔ اُس کام کی باریکیاں سمجھنے میں بھی اُنہیں اچھی خاصی مدد گھر اور خاندان کے ماحول ہی سے مل جاتی ہے۔ یہ کسی بھی بچے کے لیے ایک بڑا ایڈوانٹیج ہوتا ہے کہ عملی زندگی کے لیے کام کی باتیں سیکھنے کے لیے اُسے زیادہ دور نہ جانا پڑے۔ گھر اور خاندان کا ماحول بچے کو کچھ بننے کی تحریک ضرور دے سکتا ہے اور اُس میں کام کرنے کی لگن کا دِیا بھی جلا سکتا ہے مگر اُس دِیے سے مزید دِیے جلانا اِس کے بعد کا اور دشوار تر مرحلہ ہے۔
ماحول بہت کچھ ہوتا ہے مگر سب کچھ نہیں ہوتا۔ ماحول تحریک دیتا ہے، تھوڑی بہت راہ نُمائی بھی کرتا ہے، متعلقہ شعبے کے اَسرار و رموز ایک خاص حد تک سکھاتا ہے مگر اِس کے بعد ذاتی ذوق و شوق کی دنیا شروع ہوتی ہے۔ کسی بھی شعبے میں آگے بڑھنے کے لیے، کچھ بننے کے لیے جو کچھ بھی کرنا ہوتا ہے وہ تو بہت حد تک خود ہی کرنا ہوتا ہے۔ فی زمانہ ہر شعبے میں اِس قدر تنوع اور پیچیدگی ہے کہ انسان کو مسلسل سیکھنا پڑتا ہے۔ سیکھنے کا عمل جاری رکھے بغیر اس لیے چارہ نہیں کہ تحقیق کا بازار گرم ہے اور اِس گرمیٔ بازار سے جدت کا دائرہ وسیع تر ہوتا جارہا ہے۔ اب ایک بار کا سیکھا ہوا زندگی بھر کام نہیں آتا بلکہ مسلسل سیکھنا پڑتا ہے۔
عملی زندگی میں قدم رکھنے والوں کو یہ نکتہ ذہن نشین رکھنا چاہیے کہ کل کی دنیا ختم ہوچکی ہے اور آج کی دنیا ہمارے سامنے اپنی تمام حشر سامانی کے ساتھ جلوہ گر ہے۔ آج کی دنیا صرف اور صرف تحقیق و جدت سے عبارت ہے۔ قدم قدم پر کچھ نہ کچھ نیا ہے جو زندگی کی رنگینی بڑھا رہا ہے۔ اس رنگینی کا ایک بنیادی تقاضا یہ بھی ہے کہ آپ بھی کچھ نہ کچھ ایسا کریں جو اس رنگینی میں اضافے کا ذریعہ ثابت ہو۔ اِس کے لیے آپ کو اپنا ذوق بھی بلند کرنا پڑے گا اور کام کرنے بھرپور لگن کو بھی اپنے اندر پروان چڑھاتے رہنا پڑے گا۔ یہ سب کچھ اُسی وقت ہوسکتا ہے جب آپ کا ذہن قبولیت کی منزل میں ہو یعنی آپ اپنے پورے ماحول کو اُس کی تمام خوبیوں اور خامیوں کے ساتھ قبول کر رہے ہوں۔
کسی بھی بچے کو جب عملی زندگی کے لیے تیار کرنے کی باری آتی ہے تب والدین بہت کچھ بتاتے ہیں۔ اُسے سمجھایا جاتا ہے کہ آگے بڑھنے کے لیے بہترین اور مزاج سے مطابقت رکھنے والا شعبہ منتخب کرنا چاہیے اور شعوری سطح پر ایسا ہی ہوتا ہے۔ بچے کو یہ بھی سمجھایا جاتا ہے کہ اُسے عملی سطح پر اپنے وجود کی افادیت ثابت کرنے کے لیے بہت کچھ کرتے رہنا پڑے گا۔ یہ بہت اچھی بات ہے۔ بچہ جب تک سیکھنے کا عمل جاری رکھنے کی اہمیت نہیں سمجھے گا تب تک اُس کے لیے کچھ کر دکھانے کی زیادہ گنجائش پیدا نہیں ہوگی۔ ہاں‘ اِس کے ساتھ ساتھ کچھ اور بھی سکھانا ہوتا ہے مگر والدین عملی زندگی کے اُس پہلو پر زیادہ متوجہ نہیں ہوتے۔ بچے کو یہ نکتہ ذہن نشین کرانا چاہیے کہ عملی زندگی میں پیش رفت اُسی وقت ممکن ہو پاتی ہے جب انسان اپنے ماحول کو قبول کرتا ہے۔ ماحول میں موجود لوگوں کو اُن کی خوبیوں اور خامیوں کے ساتھ قبول کرنا پڑتا ہے۔ کوئی بھی شخص اپنے ماحول کو قبول کیے بغیر ڈھنگ سے جی نہیں سکتا، ترقی کی منازل طے نہیں کرسکتا۔ آج عملی زندگی کا ہر پہلو انتہائی پیچیدہ ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ذہن کے الجھنے کی رفتار بھی بڑھتی جارہی ہے۔ ہر طرف ہو ہی کچھ ایسا رہا ہے جو ذہن پر دباؤ بڑھاتا رہتا ہے۔ اگر کسی کو متوازن ذہن کے ساتھ جینا ہے تو جو کچھ ہو رہا ہے اُسے قبول بھی کرنا پڑے گا۔
انسان کو بہت کچھ ذاتی تحریک کی بنیاد پر کرنا ہوتا ہے۔ بہت کچھ طے کرنا ہوتا ہے اور اُس پر قائم بھی رہنا پڑتا ہے۔ یہ سب کچھ عملی زندگی کا ''اٹوٹ انگ‘‘ ہے۔ ماحول سے تحریک پاکر کچھ کرنے کا سوچنے اور پھر اُس کے لیے اپنے طور پر تیاری کرنے میں بہت فرق ہے۔ اس معاملے میں اپنا وجود ہی کارگر رہتا ہے۔ ماحول میں موجود لوگ ایک خاص حد تک ہی تحریک دے سکتے ہیں۔ اِس کے بعد تو خود ہی کچھ‘ بلکہ بہت کچھ کرنا پڑتا ہے۔ اور اگر غور کیجیے تو کسی خاص شعبے میں مہارت رکھنے والے خاندان میں پیدا ہونے والے بچے بھی خود بخود بہت کچھ نہیں سیکھ جاتے۔ اُنہیں بہت محنت کرنا پڑتی ہے۔
شہنشاہِ غزل مہدی حسن خاں کو موسیقی سے شغف رکھنے والا ہر انسان جانتا ہے۔ اُن کے 9 بیٹے تھے جن میں سے 2 انتقال کرچکے ہیں۔ آصف مہدی مرحوم نے گانا سیکھا مگر آگے بڑھنے سے پہلے ہی دیگر سرگرمیوں میں گم ہوکر رہ گئے۔ عارف مہدی نے طبلہ نوازی کی اور تربیت پاکر خاصی مہارت پیدا کی مگر وہ بھی اپنے کیریئر پر زیادہ توجہ نہ دے پائے۔ کامران بھی گاتے ہیں مگر ایک خاص حد تک۔ عمران مہدی طبلہ نواز بھی ہیں اور گاتے بھی ہیں مگر اُنہوں نے بھی ایک خاص حد تک ہی جانا گوارا کیا۔ ہم بلا خوفِ تردید کہہ سکتے ہیں کہ مہدی حسن مرحوم کا کوئی بھی بیٹا اِتنا بلند نہ ہوسکا کہ باپ کی عظمت کا حق ادا کرسکے۔ اِس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ماحول ساتھ ضرور دیتا ہے مگر ایک خاص حد تک۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved