تبدیلی کا نعرہ سب سے پہلے سابق امریکی صدر باراک اوباما نے لگایا تھا۔ ویسے انہوں نے کوئی نئی بات نہیں کی تھی کہ سیاستدان عوام کا دل لبھانے کیلئے کچھ نہ کچھ نیا دینے کے دعوے کرتے ہیں تاہم اوباما نے لفظ تبدیلی کو کمال ہوشیاری سے استعمال کرتے ہوئے عوام کی نفسیات اور دُکھتی رگ پر یوں ہاتھ رکھا کہ یہ نعرہ آن ہی آن میں مقبول ہو گیا۔ دیگر ممالک میں بھی سیاسی جماعتوں نے اسے اپنے اپنے انداز سے استعمال کیا۔ دنیا بھر کے ممالک میں انتخابات میں جس چیز کے سب سے زیادہ وعدے کیے جاتے ہیں وہ ترقی ہے۔ ہر کوئی کہتا ہے کہ ہمیں ووٹ اس لیے دو تاکہ ہم ملک کو زیادہ سے زیادہ ترقی یافتہ بنا سکیں۔ ترقی پذیر ممالک تو ترقی یافتہ ممالک کو ویسے ہی للچائی نظروں سے دیکھتے ہیں‘ حیران کن تو یہ ہے کہ وہ بھی اپنے ووٹرز کو یہی سمجھا رہے ہوتے ہیں کہ ہم اس تباہ حال ملک کو ترقی یافتہ ملکوں کی صف میں شامل کریں گے‘ یہ اور بات ہے کہ انہیں ترقی کی ابجد بارے علم نہیں ہوتا لیکن نعرے لگانے میں کیا لگتا ہے۔ تاہم اوباما نے ایک قدم آگے کا سوچا کیونکہ اسے معلوم تھا کہ اگر وہ ترقی کی بات کرے گا تو یہ بات عوام میں بہت زیادہ قبولیت اس لیے بھی حاصل نہیں کرسکے گی کیونکہ عوام ترقی کی رَٹ پہلے بھی سن چکے تھے۔ اوباما نے اس خلا اور ان مسائل کو دیکھا جو سسٹم میں کہیں نہ کہیں موجود تھے اور جنہیں بہتر کرنے سے واقعی ترقی ممکن تھی۔ چنانچہ اس نے نہ صرف الیکشن مہم میں تواتر کے ساتھ تبدیلی کے الفاظ کو دہرانا شروع کر دیا بلکہ ترقی کو تبدیلی سے مشروط کر دیا۔ اوباما نے کہا کہ تبدیلی کے بغیر ترقی کا حصول ممکن نہیں اور جو لوگ اپنی سوچ میں تبدیلی نہیں لا سکتے وہ کچھ بھی تبدیل نہیں کر سکتے۔ ہم حالات تبدیل نہیں کر سکتے لیکن ہم خود کو ضرور بدل سکتے ہیں۔ اوباما امریکی صدر منتخب ہوئے اور آٹھ سال حکمرانی کی۔ اب سوال یہ تھا کہ کیا وہ امریکہ کو تبدیل کرنے میں کامیاب رہے کہ جس تبدیلی کا نعرہ لگانے پر انہیں اقتدار حاصل ہوا تو بہت سے امریکی تھِنک ٹینک اس کا جواب ہاں میں دیتے ہیں۔
امریکی ریاست واشنگٹن میں قائم پیو ریسرچ کو ایک غیرجانبدار ادارہ مانا جاتا ہے۔ یہ امریکی سمیت دنیا بھر کے مختلف سوشل ٹرینڈز‘ عالمی ایشوز اور دیگر اہم معاملات پر تحقیق اور سروے کرتا ہے۔ پیو ریسرچ کے مطابق باراک اوباما اپنے آٹھ سالہ دور میں امریکہ کو کافی حد تک تبدیل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ ریسرچ سنٹر کے مطابق اوباما نے کئی اہم کام کیے‘ اوباما کیئر جن میں سرفہرست ہے جس کے تحت زیادہ سے زیادہ امریکی شہریوں کو صحت کی سہولت دینے کیلئے انشورنس فراہم کی۔ 2007-08ء میں امریکہ جس معاشی کساد بازاری کا شکار ہوا‘ 2009ء میں آ کر اوباما نے امریکہ کو اس معاشی بحران سے نکالا اورروزگار کے کثیر اور نئے مواقع فراہم کیے۔ رپورٹ کے مطابق امریکہ کے عالمی ممالک سے تعلقات اس دور میں خاصے بہتر رہے۔ بِن لادن آپریشن کو بھی یہ سنٹر اوباما دور کی بڑی کامیابی قرار دیتا ہے۔ اسی طرح تعلیمی نظام میں جدید اصلاحات‘ قابلِ تجدید توانائی کے نئے ذرائع کی دریافت اور استعمال اور صارف کے مالیاتی حقوق کا تحفظ بھی اوباما کی بڑی کامیابی شمار کیا جاتا ہے۔
تبدیلی کا یہ نعرہ دیگر ممالک میں بھی کسی نہ کسی شکل میں سامنے آیا۔ بھارت میں اروِند کجریوال نے براہِ راست تبدیلی کا نعرہ تو نہ لگایا لیکن وہ تبدیلی کا عملی نشان بن کر سامنے آئے اور خود کو ایک عام آدمی کا لیڈر اور اپنی پارٹی کو عام آدمی کی پارٹی قرار دیا۔ 2012ء میں بننے والی ان کی جماعت کا نام بھی عام آدمی پارٹی تھا۔ پاکستان میں 2013ء کے انتخابات سے قبل تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے تبدیلی کا نعرہ لگایا جو اس لحاظ سے تو کامیاب رہا کہ انہیں خیبر پختونخوا میں حکومت اور وفاق میں اپوزیشن مل گئی لیکن بعدازاں 2018ء میں وفاق میں بھی حکومت بنانے میں کامیابی کے باوجود وہ تبدیلی کے نعرے کو حقیقی طور پر نافذ کرنے میں کامیاب نہ ہوئے۔ اس کی سب سے بڑی مثال تو ان کے اردگرد موجود لیڈر تھے جو انہی جماعتوں سے توڑے یا لائے گئے تھے جو سٹیٹس کو کی ذمہ دار تھیں۔ پھر اس جماعت نے نوجوانوں کے نام پر ووٹ لیا لیکن الیکشن لڑنے کیلئے نوجوانوں کو ٹکٹ نہیں دیا۔ یہ مایوسی کا آغاز تھا اور اس کا اختتام عثمان بزدار کی پنجاب میں بطور وزیراعلیٰ نامزدگی پر ہوا تھا کیونکہ ایک تو یہ بندہ کہیں سے سیاستدان تھا نہ نوجوان اور نہ ہی پارٹی وژن سے اس کا دور دور کا کوئی تعلق تھا۔ خان صاحب البتہ اسے وسیم اکرم پلس بنانے پر تُلے تھے‘ نو مئی کا واقعہ تو بہت بعد میں ہوا لیکن تبدیلی کا یہ نعرہ عثمان بزدار پر جا کر بہت پہلے تمام ہو چکا تھا۔
ایک مرتبہ پھر ملک میں الیکشن کی گہما گہمی ہے۔ اب کی بار تبدیلی کا نعرہ تو کوئی نہیں لگا رہا کیونکہ تبدیلی کا جو حشر ماضی میں ہو چکا ہے‘ وہ سب کے سامنے ہے۔ جو سیاسی جماعتیں کئی باریاں لے چکی ہیں وہ مخالفین کی غلطیاں اور برائیاں اجاگر کرکے اپنا راستہ ہموار کرنے میں لگی ہیں۔ ان کا زیادہ فوکس اسی بات پر ہے کہ اپنے ماضی کے کارناموں اور منصوبوں کا زیادہ سے زیادہ تذکرہ کیا جائے۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ایک ہی سیاسی جماعت کے مختلف لیڈر مختلف جلسوں میں مختلف اعلانات اور ٹافیاں بانٹتے دکھائی دیے۔ کسی نے اقتدار میں آ کر بجلی کے 300 یونٹس مفت دینے کا وعدہ کیا تو کسی نے اس سے پرہیز کیا۔ بلند و بانگ دعوے کوئی اس لیے بھی نہیں کر سکتا کہ ملکی حالات اور معیشت اس بات کی اجازت دیتی ہے نہ اس میں اتنی سکت باقی ہے۔ اسی سال پاکستان نے 27 ارب ڈالر کا قرض واپس کرنا ہے جبکہ سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے گزشتہ برس کہا تھا کہ پاکستان نے اگلے تین برس میں 75 ارب ڈالر لوٹانے ہیں۔ اب جو شخص بھی معاشی صورتحال پر گہری نظر رکھتا ہے وہ کبھی بھی کسی ایسے جھانسے میں نہیں آئے گا جس میں دودھ اور شہد کی نہریں بہانے کے دعوے کیے جائیں گے۔ ایک طرف بجلی اور گیس کی قیمت میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے تو دوسری جانب اس کی پیداوار اور سپلائی میں بھی کمی آ رہی ہے۔ موسمیاتی تبدیلیاں الگ ستم ڈھا رہی ہیں۔ امسال تو سردیوں میں پھر گیس کچھ وقت کیلئے آ رہی تھی‘ اگلے ایک دو برسوں میں شاید اتنی بھی میسر نہ ہو۔ ایسے میں اگر کوئی عوام کو سبز باغ دکھانے کی کوشش کرتا ہے تو یہ نہ صرف عوام کے ساتھ بلکہ ملک کے ساتھ بھی زیادتی ہو گی۔
الیکشن مہم مگر اس ملک میں اصولوں سے ماورا ہوتی ہے جس میں سیاستدان الہ دین کا چراغ لے کر سٹیج پر چڑھ جاتے ہیں‘ مکے اور انگلیاں لہراتے ہیں‘ اربوں کھربوں سے کم کی بات نہیں کرتے اور ملک کو امریکہ اور جاپان بنا کر ہی سٹیج سے نیچے اترتے ہیں۔ عوام بھی شاید ایسے ہی وعدے اور دعوے سننے کے عادی ہو چکے ہیں۔ انہیں بھی وہی لیڈر اچھا لگتا ہے جو تھانے کچہری میں ان کے کام آ سکتا ہو‘ جسے چار طاقتور آدمی اور ادارے جانتے ہوں‘ جو دیکھنے میں نوجوان لگتا ہو‘ عمر چاہے ستر اسی برس ہو‘ جو چکنی چپڑی باتوں اور موٹیویشنل تقریروں کا فن جانتا ہو لیکن اہلیت صفر ہو‘ اس سے زیادہ کی عوام کو ضرورت ہے نہ خواہش۔ جو شکل سے شریف لگتا ہو‘ تعلیم یافتہ ہو‘ بظاہر ایماندار ہو‘ جس کے پاس آٹھ سو سی سی گاڑی ہو‘ لیکن اس نے کسی عالمی یونیورسٹی‘ کسی ملکی یا عالمی ادارے میں منفرد کارکردگی دکھائی ہو‘ اعلیٰ مقام یا اعزاز حاصل کیے ہوں‘ عوام اس سے متاثر ہوتے ہیں نہ اسے ووٹ کے قابل سمجھتے ہیں چنانچہ ملک میں کچھ بدلاؤ نہیں آتا تو پھر گلہ کیسا۔ اسی لیے تو کہا گیا ہے کہ جیسے عوام ویسے حکمران۔ یہ انہیں ہی ووٹ دیں گے جو انتخابی مہم میں دودھ اور شہد کی نہریں بہائیں گے‘ بعد میں چاہے ملک کے ڈیم‘ دریا اور تالاب ہی کیوں نہ خشک کر دیں!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved