2007ء میں لندن سے کالم لکھنا شروع کیا تھا۔ ان سترہ برسوں میں مجھے لگتا ہے موضوعات تقریبا ًوہی رہے ہیں۔ وہی کردار اور ان کے کارنامے۔ اگر اپنی تحریروں کو کبھی دوبارہ پڑھوں تو اندازہ ہوتا ہے کہ اُس وقت میرے اندر کچھ امید تھی جو تحریروں میں نظر آتی تھی۔ ایک آئیڈیلزم تھا۔ دنیا کو دیکھنے کا انداز مختلف تھا۔ جوانی تھی تو شاید کچھ کر گزرنے کا جذبہ زیادہ تھا‘ لیکن آج مڑ کر دیکھوں تو اندازہ ہوتا ہے کہ وقت کے ساتھ چیزیں سدھرنے کی بجائے خراب ہوئی ہیں۔ سب سے بڑا نقصان یہ ہوا ہے کہ بڑے بڑے لوگ ایکسپوز ہوئے۔ چند ٹکوں کی مار نکلے۔ وہی کردار آج بھی نظروں کے سامنے ہیں جو سترہ سال قبل تھے۔ لندن میں اکثر نواز شریف‘ شہباز شریف اور دیگر سے ملاقات ہو جاتی تھی۔ بینظیر بھٹو بھی رحمن ملک کے فلیٹ پر ہم صحافیوں سے ملاقات کرلیتی تھیں۔ بینظیر بھٹو سے یاد آیا اُس وقت اعتزاز احسن ججوں کی بحالی کے سرخیل بنے ہوئے تھے اور ان کی نواز کیمپ میں بہت پذیرائی تھی جبکہ بینظیر بھٹو اس وقت جنرل مشرف سے دبئی میں خفیہ ملاقاتیں کررہی تھیں۔ بینظیر سے رحمن ملک کے گھر کسی نے سوال کیا اعتزاز احسن لگتا ہے آپ کی پارٹی پالیسی کے خلاف چل رہے ہیں‘وہ نواز لیگ کے زیادہ قریب ہیں‘ انہیں نواز لیگ کا ایجنڈا اچھا لگتا ہے جو اس وقت کی مقتدرہ کے خلاف ہے جبکہ آپ پرویز مشرف سے ملاقاتیں کررہی ہیں۔ بینظیر بھٹو نے جواب دیا کہ جمہوری پارٹی میں اختلافِ رائے ہونا فطری سی بات ہے۔ لوگ پارٹیوں میں آتے جاتے رہتے ہیں‘ کبھی وہ ہمارے ایجنڈاسے اتفاق کرتے ہیں‘ کبھی نہیں کرتے اور پارٹیاں چھوڑ جاتے ہیں‘ ان کی جگہ نئے لوگ آجاتے ہیں‘ سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ لیکن نہ بینظیر بھٹونے اعتزاز احسن کو پارٹی سے نکالا نہ اعتزاز نے پارٹی چھوڑ کر نواز لیگ جوائن کی ۔
اور پھر ایک دن اس آسمان نے وہ منظر بھی دیکھا جب 2013ء کے بعد اعتزاز احسن کو نواز لیگ کے سینیٹرز اور وزیروں نے سینیٹ میں آڑے ہاتھوں لیا۔ ایک وزیر نے اعتزاز احسن کو کہا کہ بڑے بڑے مافیا آپ کے کلائنٹس ہیں۔ اعتزاز نے جواب دیا‘ بالکل ٹھیک کہا میں مافیا کا وکیل ہوں اور ان میں سے ایک کلائنٹ کا نام نواز شریف ہے۔اعتزاز احسن مشرف دور میں نواز شریف کے بھی وکیل رہے جب اُن کا کوئی وکیل بننے کو تیار نہیں تھا۔ اعتزاز احسن سے رابطہ کیا گیا‘ اعتزاز نے بی بی سے اجازت لی تو انہوں نے اجازت دے دی۔ چوبیس برس قبل میں نے خود پنڈی ایئرپورٹ پر مریم نواز کو اعتزاز احسن کے ساتھ دیکھا تھا‘ وہ لاہور سے نیب عدالت میں نواز شریف کی پیشی کیلئے ٹریول کررہے تھے۔ آج اعتزاز احسن پھراپنی پارٹی پالیسی کے خلاف عمران خان کو سپورٹ کررہے ہیں‘ جیسے وہ کبھی نواز شریف کو کرتے تھے۔ اب یہ نہیں پتہ کہ عمران خان کی حکومت آئی تو وہ بھی اعتزاز کے ساتھ وہی کریں گے جو نواز شریف دور میں ہوا تھا۔خیر بات کہاں سے کہاں نکل گئی۔ ان تمام برسوں میں اپنے حکمرانوں سے مایوسی بڑھی ہے۔ نہ وہ بدلے نہ ہم نے اُن سے امیدیں جوڑنی ختم کیں‘ لیکن وہی بات کہ آخر کب تک۔
نواز شریف کی باتیں سنیں تو لگتا ہے وہ ابھی تک 28 مئی 1998ء اور 2017ء سے باہر نہیں نکلے۔ وہ ایٹمی دھماکوں کا کریڈٹ لینا نہیں بھولتے تو دوسرے 2017ء میں جب انہیں حکومت سے نکالا گیا تھا۔ لوگ پوچھتے ہیں ان کی پارٹی کا کیا منشور ہے‘ تو میں جواب دیتا ہوں کہ ان کا منشور 1998ء اور2017ء میں کہیں پھنس کر رہ گیا ہے۔دوسری طرف عمران خان ہیں جو ابھی بھی اپنی غلطی ماننے کوتیار نہیں اور جب کوئی اپنی غلطی نہیں مانتا تو وہ اُسے دہراتا ہے۔ وہ ابھی بھی توشہ خان کیس میں خود کو سچا سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک تحائف لے کر مارکیٹ میں بیچنا کون سا جرم ہے۔ پھر کہا ‘ان کا توشہ خانے کا کیس تو بڑی تیزی سے چل رہ ہے لیکن نواز شریف‘ گیلانی اور زرداری کے توشہ خانے والے مقدمے برسوں سے نہیں چل رہے۔ صرف انہی پر یہ مہربانی کیوں کہ روز کیس کی سماعت ہورہی ہے؟
دیکھا جائے تو عمران خان کی شکایت جائز ہے کہ روز ان کے توشہ خانہ کیس کی سماعت ہورہی ہے جبکہ زرداری‘ گیلانی اور نواز شریف کو کوئی نہیں پوچھتا۔ اگرچہ عمران خان اور ان کے حامی جانتے ہیں کہ ان کے ساتھ یہ سلوک کیوں ہورہا ہے لیکن ایک اہم سوال ہے جس پر خان صاحب کو غور کرنے کی ضرورت ہے‘ کہ انہوں نے یہ صورتحال پیدا ہی کیوں ہونے دی کہ ان پر ہاتھ ڈالا جاتا۔ انہوں نے کیوں وہ کمزوری دکھائی جس کی وجہ سے آج وہ توشہ خانہ ٹرائل کا سامنا کررہے ہیں؟انسان کو زندگی میں بہت مواقع پر temptations کا سامنا ہوتا ہے۔ سونا ‘ ہیرے جواہرات کی کشش کو مسترد کرنا آسان نہیں ہوتا۔ خان بھی اسی کا شکار ہوا‘ حالانکہ خان کہتا تھا کہ میرے پاس اللہ کا دیا بہت کچھ ہے۔ آپ کے پاس اگر کمی نہ تھی تو پھر آپ کو ان تحائف کی ضرورت نہ تھی۔ اگر رکھ بھی لیے تھے تو انہیں بیچ کر کروڑوں روپے کمانے کی کیا پڑی تھی؟آپ کے پاس تو اللہ کا دیا بہت کچھ تھا۔ وہی بات کہ امیر آدمی کو غریبوں سے زیادہ پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ غریب پیسے کے بغیر گزارہ کرسکتا ہے کیونکہ اُسے علم ہی نہیں کہ پیسے سے کیا کچھ خریدا جاسکتا ہے یا زندگی میں کیسے عیاشی کی جا سکتی ہے۔ امیر آدمی کو علم ہوتا ہے کہ وہ پیسے کی کرامات دیکھ چکا ہوتا ہے ‘لہٰذا پیسے کا لالچ ان لوگوں پر جلدی اثر کرتا ہے جن کے بقول ان کے پاس اللہ کا دیا بہت کچھ ہے۔ اب وہی عمران خان اڈیالہ جیل میں توشہ خانہ کے پراسیکیوشن وکیلوں سے لڑ رہے ہیں‘ بحث مباحثہ کررہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ عمران خان کی ان تکلیفوں کا ذمہ دار کون ہے؟ مان لیا کہ شہر کے لوگ بھی ظالم ہیں لیکن خود عمران کا اپنا بھی اس میں بڑا ہاتھ ہے۔ ہم انسان مانتے تو نہیں لیکن ہماری مشکلات کی وجہ ہمارے اپنے فیصلے ہی ہوتے ہیں۔ خان اگر اُس وقت سوچ لیتا کہ میں نے زرداری‘ گیلانی یا نواز شریف کی طرح توشہ خانے کے تحائف نہیں رکھنے‘ بیچنا تو دور کی بات‘ تو آج وہ اڈیالہ جیل میں اس کیس کا سامنا نہ کررہے ہوتے۔ خان کو توشہ خانہ کے تحائف کے بارے اس لیے زیادہ احتیاط کی ضرورت تھی کہ وہ اپنے جلسوں میں یوسف رضا گیلانی دور میں ترک خاتون ِاول کے ہیرے کے ہار کا بار بار ذکر کرتے تھے جو مسز گیلانی نے رکھ لیا تھا۔ انہیں زرداری کی دبئی سے توشہ خانے کے ذریعے نکلوائی گئی بی ایم ڈبلیو گاڑیوں کا بھی علم تھا۔ نواز شریف کے تحائف پر بننے والے مقدمات سے بھی وہ آگاہ تھے کیونکہ اپنے جلسوں میں اکثر ذکر کرتے تھے۔ تو پھر ایسا کیا ہوا کہ جب وہ گیلانی اور نواز شریف کی کرسی پر بیٹھے تو ان کی اپنی آنکھیں ہیرے جواہرات دیکھ کر چندھیا گئیں اور آج کل وہ اڈیالہ جیل میں پوچھتے پھرتے ہیں کہ صرف میرا ٹرائل ہی کیوں؟ وہی بات جو نواز شریف کہتے تھے کہ مجھے کیوں نکالا۔
خان صاحب آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں‘ آپ کا ٹرائل نہیں ہونا چاہئے تھا۔ ہم گیلانی‘ زرداری اور نواز شریف سے توقع رکھتے تھے کہ وہ لٹ مچائیں گے‘آپ سے بھلا کون توقع رکھتا تھا کہ آپ بھی انہی کی فہرست میں جگہ پائیں گے ‘کیونکہ بقول آپکے پاس تو اللہ کا دیا بہت کچھ تھا‘ لہٰذا آپکا توشہ خانہ والا جرم بڑا ہے۔ہم انسانوں کی حرص کی کوئی حد نہیں۔وہ جو بار بار کہتے ہیں کہ ہمارے پاس اللہ کا دیا بہت کچھ ہے وہ عالمی منڈی میں سعودی تحائف بیچ کر کروڑوں روپے کما کر بڑی معصومیت سے یہ پوچھنا بھی نہیں بھولتے‘ صرف میرا ٹرائل ہی روزانہ کیوں ہورہا ہے۔ اس بات پر وہ اپنے فین کلب سے بے تحاشا داد بھی وصول پاتے ہیں۔ ویسے کمال معصومیت ہے۔ انہیں ابھی بھی نہیں پتہ نہیں کہ ان کا ٹرائل کیوں ہورہا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved