سیاسی جماعتوں کا وجود جمہوری معاشرے کی بنیاد ہوتا ہے‘یہ جماعتیں مختلف نظریات اور عقائد کی نمائندگی کرتی ہیں‘ عوام کے مسائل اٹھاتی ہیں اور حکومت بنانے کے لیے مقابلہ کرتی ہیں۔الیکشن کمیشن نے 166 سیاسی جماعتوں کی فائنل لسٹ جاری کی ہے جس میں تحریک انصاف بھی شامل ہے‘ اگر ڈی لسٹ کی گئی 13 سیاسی جماعتوں کو بھی شامل کر لیں تو یہ تعداد 179 بنتی ہے۔ سیاسی جماعتوں کی اس بڑی تعداد میں چند جماعتیں برسوں سے اقتدار میں ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ (ن)‘ پاکستان پیپلزپارٹی اور پاکستان تحریک انصاف کا نام سرفہرست ہے۔ اگر ہم گزشتہ تین جمہوری ادوار کا جائزہ لیں تو پیپلزپارٹی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ صوبائی سطح پر لگاتار سب سے زیادہ اقتدار میں رہی‘ یہ عرصہ پندرہ سال پر مشتمل ہے۔ مسلم لیگ (ن) پنجاب میں 2008ء سے 2018ء تک اقتدار میں رہی ہے‘ تحریک انصاف 2013 ء سے 2023ء تک خیبرپختونخوا میں اقتدار میں رہی ہے ۔ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) اور سندھ میں پیپلزپارٹی کے مقبول ہونے کا تاثر اب بھی موجود ہے لیکن پختونخوا کی صورتحال یکسر مختلف ہے‘ یہاں کسی ایک سیاسی جماعت کو صوبے کی مقبول جماعت قرار دینا مشکل ہے۔ دس سے پندرہ سال تک صوبائی حکومت میں رہنے کے باوجود اگر عوام بنیادی ضروریات سے محروم ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ بڑی سیاسی جماعتیں عوامی مسائل کو حل کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ حیران کن امر یہ ہے کہ اب یہی سیاسی جماعتیں عام انتخابات میں عوام کی منظورِ نظر ہیں۔ پنجاب میں شہباز شریف نے بطور وزیر اعلیٰ جو ترقیاتی کام کرائے لوگ اس کے معترف ہیں‘ اسی طرح پیپلزپارٹی سندھ میں عوامی فلاحی کاموں کی دعویدار ہے‘ اس کے برعکس پختونخوا میں گزشتہ دس برس میں کسی بڑے پراجیکٹ پر کام نہیں ہوا۔ پختونخوا کے لوگ صحت کارڈ کو پی ٹی آئی حکومت کا اہم کارنامہ قرار دیتے ہیں حالانکہ شہریوں کو علاج کی سہولیات کی فراہمی حکومت کے اولین فرائض میں شامل ہے۔ اگر سیاسی جماعتوں کو خدمت کی بنیاد پر پذیرائی اور ووٹ نہیں مل رہا تو یہ سیاسی جماعتوں کیلئے لمحۂ فکریہ ہونا چاہئے۔ عوام کی خدمت ہی سیاسی جماعتوں کی اصل پہچان اور اثاثہ ہوتا ہے‘ یہ خدمت الفاظ کے جادو سے نہیں ہوتی‘ عوام کی آنکھوں میں جھلکتے سوالات اور ان کی تکلیفوں کو سمجھنے سے ہوتی ہے۔ یہ خدمت ان سوالوں کے جوابات کو عملی منصوبوں کا رنگ دینا ہے‘ ان تکلیفوں کو دور کرنے کیلئے شبانہ روز کوشش کرنا ہے۔ یہ خدمت معیشت کے میدان میں بیروزگاری کی بنجر زمین کو آباد کر کے روزگار کے پھولوں سے سجانا ہے‘ صحت اور تعلیم کی شاہراہوں پر مفت اور معیاری سہولیات فراہم کرنا ہے‘ انصاف کے چشمے سے ہر فرد کو سیراب کرنا ہے اور ماحولیات کی حفاظت کے بیج بونا ہے تاکہ آنیوالی نسلوں کیلئے پھلدار پودے تیار ہوں۔ یہ خدمت حکومتی محلات میں بیٹھ کر ممکن نہیں‘ اس کیلئے عوام کے در پر جانا‘ ان کی آواز سننا‘ ان کے مسائل کو اپنے مسائل سمجھنا ضروری ہے۔
سیاسی جماعتوں کو یہ ادراک کرنے کی ضرورت ہے کہ اقتدار کا حصول ہی کامیابی نہیں بلکہ خدمت انہیں ہمیشہ کیلئے مقبول بناتی ہے۔ جب عوام یہ محسوس کرتے ہیں کہ یہ جماعت اُن کی آواز بن گئی ہے‘ اُن کی بھلائی کیلئے کام کر رہی ہے تو وہ اس جماعت کو اپنا دل دے دیتے ہیں۔ یہ قبولیت انتخابی جلسوں میں ہتھکنڈوں سے حاصل نہیں ہوتی بلکہ عوام کی زندگیوں میں حقیقی تبدیلیوں سے آتی ہے۔ عوام کی نظروں میں قبولیت کا سفر آسان نہیں‘ قبولیت حاصل کرنے کیلئے سیاسی جماعت کو شفافیت اور جوابدہی کو اوڑھنا بچھونا بنانا ضروری ہے۔ عوام کو اپنے فیصلوں اور کاموں میں شریک کرنا‘ ان کے سوالوں کا جواب دینا اور ان کے مشوروں کو اہمیت دینا ہی اعتماد کی بنیاد ہے۔ قبولیت کا راستہ تنہا نہیں‘ اس پر ہر طبقے اور گروہ کے قدموں کے نشان چاہئیں۔ ہر جماعت کو مختلف طبقات کے مفادات اور ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے پالیسیاں بنانی چاہئیں‘ تاکہ ہر فرد کو یہ احساس ہو کہ یہ جماعت اس کا بھی خیال رکھتی ہے‘ اسکی بھی آواز بننے کی کوشش کر رہی ہے۔
ساری ذمہ داری سیاسی جماعتوں پر نہیں ڈالی جا سکتی‘ جب ہم جمہوری معاشروں کی بات کرتے ہیں تو وہاں عوام بھی برابر کے شریک ہوتے ہیں۔ عوام کی پہلی اور اہم ترین ذمہ داری آگاہی اور شعور ہے‘ جسے ایک مضبوط اور صحت مند جمہوریت کا بنیادی ستون کہا جا سکتا ہے۔ یہ آگاہی ووٹ ڈالنے کے طریقے سے آگے بڑھ کر آئین‘ سیاسی نظام‘ اور منتخب نمائندوں کے کردار کو سمجھنے تک پہنچتی ہے۔ عوام کو حقائق اور اعداد و شمار کے چشموں سے دیکھنا چاہیے نہ کہ پروپیگنڈے کی دھند میں گم ہونا چاہیے۔ یہ آگاہی عوام کو ذمہ دار ووٹنگ کی روشنی عطا کرتی ہے۔ ووٹ کو کسی جذباتی نعرے یا پرانے تعلق کی بنیاد پر نہیں بلکہ پالیسیوں‘ اہلیت‘ اور کردار کے میزان پر تولنا چاہیے۔ ہر امیدوار سے سوالات پوچھنا‘ ان کے منشور کا جائزہ لینا اور حقیقت تلاش کرنا عوام کی ذمہ داری ہے۔ عوامی شعور کا مطلب ہے کہ عوام اپنے حقوق اور ذمہ داریوں کو سمجھیں۔ شعور کا تعلق صرف ووٹ تک محدود نہیں ہے۔ عوام کو چاہیے کہ وہ اپنے منتخب نمائندوں کی کارکردگی پر نظر رکھیں‘ اُن سے سوال کریں‘ اُن کی پالیسیوں پر بحث کریں اور جب ضرورت ہو اُن کی اصلاح کا مطالبہ کریں۔ یہی وہ احتساب ہے جو جمہوریت کے سفر کو غلط راستوں سے بچاتا ہے اور اسے عوام کی خواہشات کی منزل تک پہنچاتا ہے۔ یہ سچ ہے کہ امیدیں جمہوریت کے سفر کا ایندھن ہیں‘ وہ عوام کو آگے بڑھنے کا حوصلہ دیتی ہیں اور ان کی جدوجہد کو راستہ دکھاتی ہیں لیکن شعوری چراغ کے بغیر یہ امیدیں اندھیرے میں بھٹک سکتی ہیں‘ غلط راستوں پر چل سکتی ہیں۔ جمہوریت کا سفر صرف امیدوں کے سہارے طے نہیں ہو سکتا‘ اسے شعور کا چراغ بھی ساتھ رکھنا ضروری ہے۔ جمہوری اعتبار سے مضبوط ممالک میں عوام محض وعدوں پر ووٹ نہیں دیتے ‘ وہ پارٹی منشور کو دیکھتے ہیں‘ عوامی نمائندے کے خاندان کو نہیں بلکہ اس کی اہلیت کو پرکھتے ہیں۔ جمہوری معاشروں کی بنیاد عوام کی ذمہ داری اور شعور پر ہوتی ہے جب عوام آگاہی اور شعور کا چراغ جلاتے ہیں اور اس کی روشنی میں مثبت اقدامات لیتے ہیں‘ تب ہی ترقی اور خوشحالی کا سفر طے ہوتا ہے۔2000ء کی دہائی میں بھارت میں ایک تبدیلی دیکھنے کو ملی‘ عوام کی ایک بڑی تعداد نے انفارمیشن ٹیکنالوجی کی اہمیت سمجھی اور اس شعبے میں تعلیم‘ مہارت اور کاروباری مواقع ڈھونڈنے لگے۔ حکومت نے اس شعور کو بروئے کار لاتے ہوئے انفرا سٹرکچر‘ پالیسیوں اور تعلیمی پروگراموں میں سرمایہ لگایا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ آج بھارت عالمی آئی ٹی پاور ہاؤس بن چکا ہے اور لاکھوں نوجوانوں کیلئے روزگار کے نئے راستے کھل چکے ہیں۔ اسی طرح 1980ء کی دہائی میں پولینڈ کی فضا آلودگی سے بھری ہوئی تھی اور صنعتی فضلہ سے قدرتی ماحول تباہی کے دہانے پر تھا‘ لیکن عوام نے ماحولیاتی مسائل سے نمٹنے کا عزم کر لیا۔ مختلف سماجی تحریکوں نے آگاہی پھیلائی‘ حکومت سے مطالبے کیے اور خود ماحولیاتی بہتری کیلئے اقدامات کیے۔ حکومت نے بھی عوامی شعور کو سراہا اور ماحولیاتی قوانین بنانے‘حفاظتی اقدامات اور پائیدار ترقی کی پالیسیوں پر عمل کیا۔ آج پولینڈ صاف فضا‘ خوبصورت قدرتی مناظر اور پائیدار ترقی کا نمونہ بن چکا ہے۔ نسلی امتیاز کے خلاف جنوبی افریقہ کے عوام کی آگاہی اور طویل جدوجہد دنیا کیلئے مشعلِ راہ ہے۔ یہ درست ہے کہ سیاسی خاندانوں کی آج دوسری اور تیسری نسل عملی طور پر سیاست کا حصہ بن چکی ہے‘ ظاہر ہے جب عوام اپنے مسائل سے لاعلم رہیں گے تو سیاسی جماعتیں اس سادہ لوحی کا فائہ اٹھائیں گی۔ ہم جمہوری نظام کو کوستے رہتے ہیں لیکن کتنے لوگ ہیں جنہوں نے سیاسی جماعتوں اور نمائندوں سے پارٹی منشور اور علاقے کی ترقی کے پلان بارے استفسار کیا ؟ عوامی شعور جب بیدار ہوتا ہے تو قوموں کی تقدیر بدل جاتی ہے جب تک ہم اس شعور سے دور رہیں گے معاشی و سماجی ترقی سے دور رہیں گے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved