نگران وزیراعلیٰ پنجاب کی پریس کانفرنس سنتے ہوئے یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ ایسا ہو جائے گا لیکن پھر یہ کہہ کر دل کو تسلی دی کہ ایک وزیراعلیٰ اگر براہِ راست میڈیا سے بات کرتے ہوئے یہ حکم دے رہا ہے تو اس میں سوائے سچ کے اور کیا ہو سکتا ہے۔ چند روز قبل نگران وزیراعلیٰ پنجاب نے صوبائی کابینہ کے اجلاس سے خطاب میں کہا تھا کہ تمام سیاسی جماعتوں کے اور آزاد امیدواروں کوآزادانہ انتخابی سرگرمیوں کی اجازت ہوگی۔ فری اینڈ فیئر الیکشن کا انعقاد ہر صورت یقینی بنایا جائے گا۔ الیکشن کمیشن کے ضابطہ اخلاق کی روشنی میں تمام امیدواروں کوجلسہ کرنے‘ ڈور ٹو ڈور انتخابی مہم چلانے اور بینرز و پوسٹر لگانے کی اجازت ہو گی۔ تمام جماعتوں کو لیول پلینگ فیلڈ فراہم کی جائے گی۔ فری اینڈ فیئر الیکشن میری ذمہ داری ہے جسے میں ہر صورت پر پوری کروں گا‘ تاہم ریاستی اداروں کے خلاف تقریر پرضرور کارروائی ہو گی۔ہم عام انتخابات کا پُرامن اور آزادانہ ماحول میں انعقاد یقینی بنانے کے لیے الیکشن کمیشن کے ساتھ پورا تعاون کریں گے۔ ان کا یہ بیان جو کہ حیران کن اور نا قابلِ یقین تھا‘ سن کر زبان سے یہی نکلا کہ چلو دیر آید درست آید‘ اب اگر حکومت نے فیصلہ کر لیا ہے اور واقعی اسے احساس ہو گیا ہے کہ عوام دیکھتے بھی ہیں اور سنتے بھی ہیں اس لیے عام انتخابات کے لیے اتنی شفافیت تو ضرور یقینی بنائی جانی چاہیے کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے لیے انتخابات میں حصہ لینے والوں کو گھروں سے نکلنے کی بھرپور آزادی حاصل ہو کیونکہ جب امیدوار ہی کہیں دکھائی نہیں دے گا تو الیکشن کمپین کیسے ہو گی اور ان انتخابات کو شفاف کیسے قرار دیا جا سکے گا۔ لیکن نگران وزیراعلیٰ پنجاب کے اس بیان کو ابھی چند گھنٹے ہی گزرے تھے کہ گجرات اور ملتان میں پاکستان تحریک انصاف کے امیدواروں کے گھروں پر پولیس چھاپوں کی خبریں منظر عام پر آئیں۔ اُن امیدواروں کے گھریلو سامان کی توڑ پھوڑ کی گئی اور ملازمین و حامیوں کی گرفتاری بھی عملی میں آئی۔ ایسی کارروائیاں لوگوں میں غم و غصے کے جذبات اُبھارنے کا باعث تو بنتی ہی ہیں ساتھ ہی انتخابات کے انعقاد سے قبل ہی اُن کے شفاف انعقاد پر بھی سوال اٹھاتی ہیں۔ اگر حکومت تمام امیدواروں کو‘ قطع نظر اس کے کہ اُن کا تعلق کس سیاسی جماعت سے ہے‘ لیول پلینگ فیلڈ دینے اور آزادی سے اپنی انتخابی مہم چلانے کی اجازت دے رہی ہے تو پھر ان گرفتاریوں کا کیا مقصد ہے؟ لیول پلینگ فیلڈ کی فراہمی نہ صرف امیدواروں بلکہ عوام کے حکومت اور ریاست پر اعتماد کی بحالی میں اہم کردار ادا کرے گی۔ دوسری طرف لیول پلینگ فیلڈ فراہم کرنے کے بجائے پولیس چھاپوں جیسی کارروائیاں بداعتمادی کو جنم دیتی ہیں۔ اگر انتخابات اپنے انعقاد سے قبل ہی متنازع ہو گئے تو ان کے نتیجے میں بننے والی حکومت بھی مستحکم نہیں ہو سکے گی۔ میرے خیال میں ان کارروائیوں کا مقصد شاید تحریک انصاف کے ووٹر کو دبانا ہے لیکن اب ایسا ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ اگلے روزسینئر تین سیاستدان جاوید ہاشمی بھی ایک پروگرام میں اس جانب اشارہ کر چکے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اب الیکشن یک طرفہ ہوگیا ہے‘ تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدواروں کے انتخابی نشانات ووٹرز کو یاد ہوگئے ہیں‘ اس لیے ان کا ووٹ کہیں نہیں جائے گا۔ اب‘ جبکہ انتخابات کے انعقاد میں تقریباً دس روز بچے ہیں‘ یہ کارروائیاں بند ہو جانی چاہئیں اور امیدواروں کو پوری آزادی سے اپنی انتخابی مہمات چلانے کی اجازت ہونی چاہیے۔
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان کا کہنا ہے کہ پولنگ ڈے قریب آنے کے باوجود پی ٹی آئی کے خلاف کارروائیوں میں نرمی نہیں ہوئی۔ان کا کہنا تھا کہ ایسا کبھی نہیں ہو سکتا کہ مقتدرہ اور ملک کی سب سے مقبول جماعت میں کوئی اَن بن ہو۔ اس طرح کے حالات جمہوریت و ملک کے لیے بہتر نہیں ہوسکتے۔اُن کا مزید کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے امیدواروں سے کاغذاتِ نامزدگی چھیننے‘ ان کے گھروں پر چھاپے مارے جانے کے باوجود احتجاج کی کال نہیں دی گئی اور تحمل کا مظاہرہ کیا گیا۔ جماعت کا انتخابی نشان چھن جانے سے پہلے ہی بہت نقصان ہو گیا ہے۔ یہاں تک کہ قومی و صوبائی اسمبلیوں کی 227 مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو نہیں مل سکیں گی۔ پی ٹی آئی کا ایک انتخابی نشان نہ ہونے کی بنا پر آزاد حیثیت میں جیتنے والے تمام اراکینِ اسمبلی اگر الیکشن کے بعد پی ٹی آئی میں شامل ہو بھی جائیں تو بھی مخصوص نشستیں نہ ہونے کی وجہ سے پی ٹی آئی کو وزیرِ اعظم کے انتخاب‘ صدر کے انتخاب اور سینیٹ الیکشن میں بہت بڑا نقصان ہوگا۔عام انتخابات ہونے والے ہیں تو ہمیں اختلافات کو بھلاتے ہوئے مستقبل کی طرف بڑھنا ہوگا۔دیکھا جائے تو اب تحریک انصاف کی قیادت بھی مزاحمتی سیاست کی حامی نہیں رہی‘ اس لیے حکومت کو گرفتاریوں کا سلسلہ بند کرتے ہوئے شفاف انتخابات کے انعقاد کی طرف متوجہ ہونا چاہیے تاکہ ان کے نتیجے میں قائم ہونے والی حکومت کو مستحکم بنیادیں میسر آ سکیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی‘ پاکستان مسلم لیگ (ن)‘ استحکامِ پاکستان پارٹی‘ متحدہ قومی موومنٹ‘ جمعیت علمائے اسلام(ف) اور جماعت اسلامی سمیت دیگر سبھی سیاسی جماعتوں کو پوری آزادی حاصل ہے کہ وہ جہاں چاہیں جلسے جلوس منعقد کریں‘ جیسے چاہیں اپنی انتخابی مہم چلائیں تو پھر تحریک انصاف کو اس حوالے سے مشکلات کا سامنا کیوں ہے؟ کیا وجہ ہے کہ حکومت اورالیکشن کمیشن کی لیول پلینگ فیلڈ کی فراہمی کی یقین دہانی کے باوجود یہ مسئلہ حل نہیں ہو سکا؟
اُدھر آج کل صرف پنجاب ہی نہیں‘ بلکہ ملک بھر میں سرکاری اہلکار ہاتھوں میں بانس لیے‘ جن پر کنڈیاں لگی ہوتی ہیں‘ سڑکوں‘ گلیوں اور بازروں میں ادھر ادھر بھاگتے دوڑتے دکھائی دے رہے ہیں اور ان کا کام سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ تحریک انصاف کے امیدواروں کے پوسٹر اُتاریں، تحریک انصاف کے امیدواروں کے پوسٹرز اور اشتہاروں کے ساتھ ہی دیگر سیاسی جماعتوں کے امیدواروں کے پوسٹرز بھی لگے ہوتے ہیں لیکن انہیں ہاتھ بھی نہیں لگایا جاتا۔ آخر ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ دوسری طرف سننے میں آ رہا ہے کہ سندھ میں پیپلز پارٹی اور پنجاب میں (ن) لیگ پولنگ سٹیشنوں کو کنٹرول کرنے کا لائحہ عمل ترتیب دے رہی ہے۔ یہی کچھ پیپلز پارٹی کی حکومت نے 1976-77ء میں کیا تھا جس کا نتیجہ آج سب کے سامنے ہے۔ بیورو کریسی سے الیکشن کروانے کا شاید یہی ایک مقصد تھا۔
اب تو تحریک انصاف کو صرف گلی‘ محلوں میں ہی نہیں بلکہ انٹر نیٹ پر جلسہ کرنے میں بھی مشکلات کا سامنا ہے کہ جب بھی کوئی جلسہ رکھا جاتا ہے ملک میں انٹر نیٹ کی سروس سست یا معطل ہو جاتی ہے۔ لیکن اب سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ نے تحریک انصاف کے جلسوں میں انٹرنیٹ کی بندش کے معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے سائبر کرائم‘ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی اور انفارمیشن ٹیکنالوجی حکام کو پارلیمنٹ ہاؤس طلب کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔مذکورہ کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر محسن عزیز نے کہا ہے کہ ملک بھر میں انٹرنیٹ سروس کی بندش اور تعطل کے مسئلے کو اٹھایا جانا چاہیے کیونکہ انتخابات کو قابلِ بھروسہ بنانے کے لیے فری ہینڈ دیا جانا بہت ضروری کیونکہ انتخابات کی کوریج کے لیے غیر ملکی مبصرین بھی آئیں گے جو چھوٹی چھوٹی چیزیں دیکھیں گے۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ متعلقہ حکام سے یہ پوچھا جائے گا کہ پی ٹی آئی کے جلسوں سمیت کب کب اور کن کن وجوہات کی بنیاد پر انٹرنیٹ کی بندش سامنے آئی اور کیا ایسا جان بوجھ کر کیا گیایا واقعی کوئی تکنیکی خرابی پیدا ہو گئی تھی۔دیکھتے ہیں کہ کمیٹی کو کیا جواب ملتا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved