بحیرۂ احمر کی صورتحال نے ایک دنیا کو مشکل میں ڈال رکھا ہے۔ سات اکتوبر سے اسرائیل نے غزہ پر جو قیامت ڈھا رکھی ہے‘ اس کے جواب میں یمن کے حوثیوں نے بحیرۂ احمر میں بالعموم اور خلیجِ عدن میں بالخصوص اسرائیلی بحری بیڑوں یا سرائیل کو سامان کی ترسیل کرنے والے بحری بیڑوں کو نشانہ بنانا شروع کیا۔ یہ حملے اب سنگین شکل اختیار کر چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ اور برطانیہ نے یمن میں حوثیوں کے ٹھکانوں پر درجنوں حملے کیے جن میں جانی و مالی نقصان ہوا‘ لیکن حوثیوں نے پسپا ہونے کا اشارہ تک نہیں دیا بلکہ وہ بارہا کہہ چکے ہیں کہ غزہ کی صورتحال بہتر ہونے اور اسرائیل کے حملے رُکنے تک یہ حملے جاری رکھے جائیں گے۔ دوسری طرف امریکہ اور دیگر طاقتور ممالک‘ جن کی ان حملوں کی وجہ سے سمندری راستے سے تجارت متاثر ہو رہی ہے‘ حوثیوں کو مسلسل متنبہ کر رہے ہیں کہ اگر انہوں نے یہ حملے نہ روکے تو ان کے خلاف بڑے پیمانے پر ایکشن کیا جا سکتا ہے۔
اب اس حوالے سے چین کی طرف سے شدید ردِعمل سامنے آیا ہے جس پر حوثیوں کا کہنا ہے کہ وہ بحیرۂ احمر سے گزرنے والے صرف ان بحری جہازوں کو نشانہ بنائیں گے جن کا تعلق اسرائیل سے ہو گا۔ امریکہ اور برطانیہ کے جہازوں کو بھی صرف اس لیے نشانہ بنایا جا رہا ہے کہ یہ دونوں ممالک غزہ کے نہتے شہریوں کے قتلِ عام اور بڑے پیمانے پر مالی نقصان پہنچانے والے حملوں کے حوالے سے اسرائیل کیلئے بھرپور حمایت کا اظہار کر رہے ہیں۔ چین سمیت کسی بھی دوسری بڑی طاقت کے جہازوں کو بحیرۂ احمر میں کوئی خطرہ نہیں مگر پھر بھی چینی قیادت نے غیرمعمولی تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے معاملات کی درستی کیلئے قدم بڑھایا ہے۔
جرمن نشریاتی ادارے ڈوئچے ویلے کی ایک رپورٹ کے مطابق چینی حکام نے اس ضمن میں ایرانی قیادت سے رابطہ کیا ہے۔ اس رابطے میں کہا گیا ہے کہ بحیرۂ احمر کی صورتحال عالمی تجارت کو شدید نقصان پہنچا رہی ہے۔ اگر معاملات کو درست نہ کیا گیا یا مزید بگڑنے سے نہ روکا گیا تو بہت جلد کوئی بھی ملک بحیرۂ احمر کی سنگین صورتحال کے پریشان کن اور نقصان دہ نتائج سے محفوظ نہ رہ سکے گا۔ چینی حکام نے ایرانی قیادت پر زور دیا ہے کہ وہ بحیرۂ احمر کی صورتحال کو مزید بگڑنے سے روکنے کیلئے حوثیوں پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرے۔ جرمن نشریاتی ادارے کی رپورٹ میں یہ نہیں بتایا گیا کہ ایرانی قیادت نے چین کو اس حوالے سے کوئی یقین دہانی کرائی ہے یا نہیں مگر اس سے اتنا اندازہ ضرور لگایا جا سکتا ہے کہ چین سمیت کئی ممالک اس صورتحال سے کتنے پریشان ہیں۔
چین کا مؤقف یہ ہے کہ بحیرۂ احمر میں اگر چین اور چند دوسرے ملکوں کے تجارتی جہازوں کو نشانہ نہ بھی بنایا جائے تو کشیدگی بہرحال برقرار رہے گی۔ جب تک یہ حملے مکمل طور پر نہیں رکیں گے تب تک یہ تجارتی راہداری مشکلات سے دوچار رہے گی۔ بحیرۂ احمر کی صورتحال خراب ہونے سے دنیا بھر میں تجارتی معاملات بگڑے ہیں۔ آئل ٹینکرز اور دیگر تجارتی جہازوں کو متبادل راستوں سے گزار کر منزل تک پہنچانا بہت مہنگا پڑ رہا ہے۔ ان جہازوں کو خوامخواہ ہزاروں میل کا اضافی سفر درپیش ہے۔ یہ معاملہ اگر فوری درست نہ ہوا تو عالمی تجارت کی خرابیاں بڑھنے سے منافع برائے نام رہ جائے گا اور یوں بہت سے ممالک کی معیشتوں کو غیرمعمولی دھچکا برداشت کرنا پڑے گا۔ چین کا اس حوالے سے تشویش میں مبتلا ہونا بالکل بجا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ صورتحال کو یونہی رہنے دیا گیا تو خرابیاں بڑھتی جائیں گی اور دنیا بھر کی معیشتوں پر دباؤ بڑھتا چلا جائے گا۔ چین کا تشویش میں مبتلا ہونا اس لیے بھی اہم ہے کہ دنیا بھر کی معیشتیں کورونا کی وبا کے ہاتھوں شدید نقصان سے دوچار ہونے کے بعد اب بحالی کی طرف رواں ہیں اور اس حوالے سے کیے جانے والے اقدامات کو عسکری مناقشوں کے ذریعے کمزور کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
چینی قیادت کا ایران سے رابطہ ہر اعتبار سے بروقت اور معقول اقدام ہے۔ مغربی طاقتیں مشرقِ وسطیٰ کی صورتحال کو مزید بگڑنے دے رہی ہیں۔ یورپ اس معاملے میں قدرے بے بس دکھائی دے رہا ہے۔ امریکہ اب بھی اپنی مرضی کے مطابق کام کر رہا ہے۔ وہ جس راہ پر چلنا چاہتا ہے چلتا ہے اور دوسروں کو لاحق ہونے والی مشکلات کے بارے میں بالکل نہیں سوچتا۔ ایشیائی معیشتوں کو کورونا کی وبا کے بعد بحالی کے عمل میں غیرمعمولی مشکلات درپیش ہیں۔ یورپ اور امریکہ نے مل کر اپنے لیے پہلے ہی بہتری کی راہ ہموار کر رکھی تھی۔ ڈیڑھ دو سال کے دوران امریکہ اور یورپ دونوں ہی کیلئے معاشی بحالی زیادہ پریشان کن مرحلہ نہیں رہی۔ ایشیائی طاقتوں کو زیادہ مشکلات درپیش ہیں۔ روس اور یوکرین کی جنگ کے باعث ایشیائی معیشتوں کیلئے اضافی مشکلات پیدا ہوئی ہیں۔ امریکہ اس جلتی پر تیل چھڑک رہا ہے۔ تیل چھڑکنے کا ایک اچھا طریقہ یہ بھی ہے کہ آگ بجھانے کی کوشش نہ کی جائے۔ امریکہ اور یورپ اس وقت بہت حد تک یہی کر رہے ہیں۔ عالمی مالیاتی نظام پر تصرف کا مغرب پورا فائدہ اٹھا رہا ہے۔ چین اس بات کو اچھی طرح سمجھتا ہے اور روس بھی۔ چین کا تشویش میں مبتلا ہوکر بحیرۂ احمر کے معاملات درست کرنے کی کوشش کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ جو کچھ بھی اس وقت مشرقِ وسطیٰ میں ہو رہا ہے اس کا سب سے زیادہ منفی اثر ایشیا ہی پر مرتب ہو رہا ہے۔
ایشیائی طاقتوں کو مل بیٹھ کر مشرقِ وسطیٰ کی صورتحال بہتر بنانے کی جامع کوششیں شروع کرنی چاہئیں۔ معیشتوں کی بحالی کا عمل اگر درست انداز سے مکمل نہ ہو سکا تو ایشیا اور افریقہ میں اندرونی کشمکش بہت بڑھے گی۔ افریقہ پہلے ہی خانہ جنگیوں کی لپیٹ میں ہے۔ معاشی اُلجھنیں بڑھنے سے ایشیا میں بھی بین الریاستی مناقشے بڑھیں گے۔ امریکہ اور یورپ بظاہر یہی چاہتے ہیں کہ ایشیا میں اندرونی کشمکش بڑھے تاکہ اس کیفیت سے وہ بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے معاملات کو اپنی مٹھی میں رکھیں۔ اگر چین اور بھارت کسی طور ایک ہوگئے تو؟ یہ خیال مغرب کو رہ رہ کر ستاتا ہے۔ روس بھی تیار ہے۔ اگر ایشیا کی سطح پر ہم آہنگی کی فضا پروان چڑھ گئی تو؟ بس یہی تو مغرب کو گوارا نہیں اور اس سلسلے میں وہ جو کچھ بھی کرسکتا ہے‘ کر ہی رہا ہے۔ اس مرحلے پر پاکستان کو بھی آگے بڑھ کر مشرقِ وسطیٰ میں مناقشے روکنے کا ڈول ڈالنا چاہیے۔ اس معاملے میں چین اس کے ساتھ کھڑا ہوگا۔ روس سے بھی خیر خواہی کی تھوڑی بہت توقع وابستہ کی جا سکتی ہے۔ ترکی اسلامی دنیا کا لیڈر بننا چاہتا ہے۔ ایسے میں اگر وہ آگے بڑھ کر مشرقِ وسطیٰ کی صورتحال بہتر بنانے کیلئے کچھ کرنا چاہے گا تو اسلامی دنیا اس کی طرف بنظرِ استحسان دیکھے گی۔
جو کچھ غزہ میں ہو رہا ہے ‘ اسے محض تماشائی بن کر دیکھنا کسی بھی سطح پر دانش مندی نہیں۔ وقت کا تقاضا ہے کہ مسلم دنیا میں نمایاں حیثیت کے حامل ممالک آگے بڑھیں‘ اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوئے مشرقِ وسطیٰ کی آگ بجھائیں اور تمام متعلقہ معیشتوں کو جلد از جلد مکمل بحالی کی راہ پر گامزن کریں۔ چین نے معیشتوں کو لاحق جن خطرات کی بنیاد پر ایران سے بات کی ہے‘ وہی خطرات دوسرے بہت سے ممالک کو بھی لاحق ہیں۔ مسلم دنیا بھی ان مشکلات اور خطرات سے بچی ہوئی نہیں مگر پھر بھی وہ سب کچھ نہیں کیا جارہا جو ہر صورت کیا جانا چاہیے۔ روکنے کی کوشش نہ کی گئی تو یہ آگ پھیلتے پھیلتے کئی خطوں کو لپیٹ میں لے سکتی ہے۔ اسرائیل پہلے ہی دھمکی دے چکا ہے کہ وہ ایران‘ عراق‘ لبنان‘ شام اور عراق کے خلاف بیک وقت جنگ چھیڑ سکتا ہے۔ دانش کا تقاضا یہ ہے کہ بڑی اور فیصلہ کن قوتوں کو ان کی مرضی کا کھیل نہ کھیلنے دیا جائے اور بیک وقت کئی خطوں کو خراب کرنے کی کوششوں کے آگے بند باندھا جائے۔ اس میں تاخیر کی گنجائش ہے نہ نیم دلی کی۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved