اُس کا دل ایک ہزار تین سو پائونڈ سے زیادہ وزن کا ہے۔ چھوٹی کار کے سائز جتنے اس دل کی دھڑکن 3.2کلو میٹر دور سے سُنی جا سکتی ہے۔ اس کے جسم کی نالیاں یعنی شریا نیں اتنی بڑی ہوتی ہیں‘ جن کے اندر ایک بالغ آدمی آسانی سے تیر سکتا ہے۔ اس کا ''بچہ‘‘ پیدائش والے دن تقریباً 25 فٹ لمبا ہوتا ہے‘ جو صرف ایک دن میں تقریباً 568 لٹر دودھ پیتا ہے۔ اس کے وزن میں ہر روز تقریباً 200 پونڈ کا اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ اس کے شباب کے کیا کہنے۔ جب اس کا قد 110 فٹ لمبا ئی تک پہنچتا ہے تو تب وزن 180 ٹن تک جا پہنچتا ہے۔ یہ ہے بلیو وہیل مچھلی کی کہانی۔ جو سیاسی کاروباری حکمرانوں کی طرح صرف کھانے پینے کے گرد گھومتی چلی جاتی ہے۔ ہم سب جانتے ہیں مالکِ ارض و سما نے انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ دے رکھا ہے جبکہ دنیاکی آخری الہامی کتاب کے ذریعے ہم چار مخلوقات کو خوب جانتے ہیں۔ یعنی جنات‘ انسان‘ فرشتے اور دوسرے جاندار۔ ان دوسری جاندار مخلوقات کا لائف سائیکل کرۂ ارض پر بالکل انسانوں جیسا ہے۔چاہے کوئی ہوا میں اُڑتا ہو‘ یا زیرِ زمین رہتا ہو‘ پانی میں تیرنے والا ہو یا آسمان کا باسی‘ ایسے ہر جاندار کے جسم میں پانی اور سانس میں آکسیجن اُس کی زندگی کا بنیادی عنصر ہے۔
دوسری جانب اشرف المخلوقات ہونے کے باوجود‘ انسان دو بڑی کیٹیگری میں شمار ہوتے ہیں۔ ایک وہ ہیں جنہیں دنیا میں صرف کھانے پینے کا شعور آتا ہے۔ جبکہ دوسری کیٹیگری کے لوگ اپنی تخلیق کے شرف کے ساتھ آزاد اور خودار زندگی کا چنائو کرتے ہیں۔ تاریخ ان دونوں طرح کے انسانوں کی کہانیوں سے بھری پڑی ہے۔ آج سے نہیں بلکہ ابتدائے آفرینش سے۔ آئیے پانچویں صدی قبل از مسیح کے سب سے بڑے فلسفی اور جلیل المرتبہ معلم کی تاریخ دیکھیں۔ جو عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کی پیدائش سے 470 سال پہلے یونان کے مشہور شہر ایتھنز کے ایک مجسمہ ساز کے گھر پیدا ہوا۔ نو عمری میں اُس نے حب الوطنی کے نام پر یونانی جنگوں میں حصّہ لیا اور دادِ شجاعت پائی۔ اخلاقی اور روحانی بزرگ جیسی اعلیٰ صفات رکھنے والے حق پرست اور انصاف پسند سقراط نے دنیاوی خدائوں کے حقیقی وجود سے انکار کر دیا۔ اُس وقت وہ باغی کہلایا‘ زہر کا پیالا پیا۔ مگر سقرا ط وقت کا دھارا پلٹ گیا۔ مزاحمت کے جدید استعارے کے طور پہ غزہ کے بے گناہ غیرت مند آزادی پسند فلسطینیوں کے قتلِ عام سے شورش کاشمیری کا شاہکار یاد آتا ہے۔ جس کا عنوان شورش نے رکھا: مسلمان‘ دولت کے بھکاری‘ طاقت کے پجاری۔ مطلع یوں ہے:
سوچتا ہوں کہ اُسی قوم کے وارث ہم ہیں
جس نے اولادِ پیمبر کا تماشا دیکھا
اس وقت عالمِ اسلام کے شاہ‘ بادشاہ‘ صدر‘ امیر‘ وزیراعظم‘ سربراہ‘ سب امریکہ اور مغرب کے جبروت کے سامنے سرزمینِ انبیا پر حماس اور غزہ کی چارہ گری کرنے سے معذور نظر آتے ہیں۔ لیکن انہی سرزمینوں پر مسلم طاقتوروں کی بے حسی کی پروا کیے بغیر‘ حزب اللہ‘ حشد الشعبی‘ حوثی انصار اللہ‘ آلِ رسول اللہ‘ مجاہدین‘ جدید تاریخ کی مزاحمت کا بڑا عالمی استعارہ بن چکے ہیں۔ ایسا استعارہ جو مغرب کے زمینی خدائوں کے دل میں کانٹے کی طرح کھٹک رہا ہے۔ برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی ورلڈ سروس کے دو تحقیقاتی نامہ نگاروں‘ سیلنٹ گیریٹ اور کیٹ فوربز نے 27 جنوری کو ہوش رُبا تفصیلات رپورٹ کی ہیں۔ ان کے مطابق: غزہ کے مجاہدین کی حمایت میں نومبر 2023ء سے اب تک‘ بحیرہ احمر میں حوثیوں نے بین الاقواقی اور تجارتی جہازوں پر 30 سے زیادہ حملے کیے ہیں۔ ان دونوں کا کہنا ہے‘ ان حملوں کے ختم ہونے کے آثار دور تک نظر نہیں آتے۔ حوثیوں کے ان حملوں سے دو نتائج فوری طور پر سامنے آئے ہیں جن کے بارے میں 23 جنوری کے روز اعلیٰ امریکی دفاعی اہلکاروں نے ایک بریفنگ میں اس حقیقت کو تسلیم کیا کہ ان حملوں سے عالمی تشویش میں اضافہ ہوا ہے۔ آئیے! بے بس فلسطینیوں کے حق میں کھڑی ہونے والی اس مزاحمت کے عالمی نتائج دیکھیں۔
فلسطینیوں کے حق میں حوثی مزاحمت کا پہلا نتیجہ: عالمی سطح پر حماس اور غزہ پر اسرائیل کے جاری جارحانہ حملوں کے باعث مشرقِ وسطیٰ غیر مستحکم نظر آتا ہے۔ مغربی عسکری ماہرین کا ماننا ہے کہ کیا امریکہ‘برطانیہ اور مغربی ملکوں کی فوجی ٹاسک فورس‘ حوثی لڑاکوں کے خلاف فتح حاصل کرنے کے قابل بھی ہیں؟ جن کے خلاف حوثیوں کی قیادت میں تقریباً ایک عشرے سے لڑائی چل رہی ہے۔ لیکن مڈل ایسٹ کی ریاستوں کا اکٹھ فتح حاصل نہیں کر سکا۔
ساتھ ہی ان دنوں مصر کی بندرگاہ اسماعیلیہ میں یونان کے بہت بڑے ایک بلک کیریئر سمندری جہاز (جس کا نام زوگرافیہ ہے) کی تصویریں سامنے آئی ہیں۔ تصویروں میں حوثی میزائلوں کے حملے سے ہونے والے نقصان کی مرمت ہوتی نظر آ رہی ہے۔
فلسطینیوں کے حق میں حوثی مزاحمت کا دوسرا نتیجہ: مغربی دنیامیں یہ تاثر عام ہو چکا ہے کہ امریکہ نے حوثیوں کے خلاف اپنے آپ کو ایک ایسی جنگ میں دھکیل دیا ہے جو وہ اور اُس کے اتحادی جیت نہیں سکتے۔ اس سوچ کا ایک بڑا حوالہ یہ ہے کہ سعودی عرب نے بحیرہ احمر میں ہونے والی ان جنگی کارروائیوں پر مسلسل خاموشی اپنا لی ہے۔ جس کی وجہ سعودی لیڈر شپ کے حوثی لیڈروں کے ساتھ جاری امن مذاکرات ہیں۔ ایک Think Tank اٹلانٹک کونسل کے مسٹر ویلیم ویچسلر کا یہ انکشاف سامنے آیا ہے کہ مغرب کے لیے بین الااقوامی سمندری تجار ت میں کُل آٹھ اہم چوکیاں ہیں‘ جن میں سے آدھی یعنی چار چوکیاں مشرقِ وسطیٰ میں آتی ہیں۔ حوثی مجاہدین نے ان چار سمندری چوکیوں میں سے ایک آبنائے باب المندب کو براہِ راست نشانے پر لے لیا ہے جو جدید تاریخ کا انتہائی غیر معمولی واقعہ ہے۔ اس وجہ سے پٹرولیم اور توانائی کے شعبے خطرے میں آ گئے ہیں۔ حوثی جنگجو پہلے ہی سعودی اتحادی ملکوں کے ساتھ 10 سالہ جنگ میں ایک اہلیت ثابت کر چکے ہیں۔ یہی کہ وہ ایک خودمختار ریاست کی فوج کا سامنا کرنے کا دم رکھتے ہیں۔ کونسل آف فارن ریلیشنز کے مطابق: عرب یہ سمجھتے ہیں‘ حوثیوں کے ساتھ چھیڑ خانی اُنہیں حملوں سے نہیں روک سکتی۔
اپنے ہاں بدترین مسلسل ڈیڑھ سالہ کریک ڈائون کے باوجود بھی آئینی سیاست کا جدید استعارہ سامنے آ گیا۔ اتوار کے روز اڈیالہ کے قیدی نمبر 804 کی کال پر پورے ملک اور چاروں صوبوں میں ووٹروں نے خوف کے بت توڑے۔ بول کہ لب آزاد ہیں تیرے کا پیدائشی حق استعمال کیا۔ گرفتاریوں سے ڈرنے سے انکار کر دکھایا۔ عفت مآب خواتین سرِ فہرست رہیں۔ مزاحمت کے اِس جدید استعارے کو دیکھ کر انتخابات سبوتاژ کرنے کی سعی یا سازش خارج از امکان نہیں۔
کوئی سمجھائے یہ طرفہ تماشہ اور کب تک ہے؟
بلا کی دھوپ ہے لیکن نظارے برف جیسے ہیں
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved