بات کچھ پرانی ہے‘ لیکن ایک تو اہم تھی دوسرے ہماری ترجمانی بھی تھی اس لیے یاد رہی۔ نومبر 2019ء میں برطانیہ کے نامور بیرسٹر جیفرے رابرٹسن (Geoffrey Robertson)نے ایک کتاب شائع کی جس کا نام ہے'' تاریخ کا مالک کون؟ ایلجن کی لوٹ مار اور مسروقہ خزانے کی واپسی کا مقدمہ‘‘(Who Owns History? Elgin's Loot and the Case for Returning Plundered Treasure)۔جیفرے رابرٹسن بیرسٹر ہونے کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کے وکیل بھی ہیں۔ انہوں نے واشگاف الفاظ میں برٹش میوزیم لندن سے متعلق کیا کہا ہے‘ چند اقتباسات دیکھیے ''برٹش میوزیم دنیا بھر میں مسروقہ قیمتی جائیدادوں کا سب سے بڑا آخری ٹھکانہ ہے۔اس ادارے کو شرم آنی چاہیے کہ وہ نو آبادیاتی آقائیت کے دور میں محکوم لوگوں سے زبردستی چھینے گئے عجائبات شوکیسوں میں سجاتا ہے‘‘۔ جیفرے رابرٹسن کی اس کتاب کے ساتھ دو خبریں اور جوڑ لیں‘ اکتوبر 2018ء میں مصری میوزیم نے برٹش میوزیم سے روزیٹا سٹون (Rosetta Stone) واپس کرنے کا مطالبہ کیا۔ روزیٹا سٹون کے بارے میں آگے چل کر بات کرتا ہوں۔ دوسری خبر جون 2020ء کی ہے۔ یونان کے نئے اکروپولیس (Acropolis) میوزیم نے لارڈ ایجن کے لندن بھجوائے ہوئے پارتھی نون( Parthenon )مجسمے اس بنیاد پر واپس بھجوانے کا مطالبہ کیا کہ وہ یونان سے چوری کی ہوئی قیمتی جائیدادیں ہیں۔
میں نے جب پہلی بار برٹش میوزیم دیکھا تو یہ علم تھا کہ بے شمار ملکوں سے لوٹی ہوئی اس دولت پر بے شمار ملکوں کا دعویٰ ہے‘ لیکن ایجن کے سنگ مرمر کے مجسموں اور اس پر یونانی دعوے کے متعلق نہیں جانتا تھا۔ تاریخ سے گہری دلچسپی رکھنے والے نایاب عالم اور شاعر جناب ڈاکٹر خورشید رضوی نے ان کے بارے میں تفصیل بعد میں بتائی۔ اس وقت اس گیلری میں جو دیکھا تھا اس میں مجھے تو بس یہ یاد ہے کہ اس گیلری میں یہ یونانی مجسمے جابجا قدم روکتے تھے۔ سنگ مرمر جیسے مجسمہ سازوں کے ہاتھوں کا موم تھا۔ جیسے چاہے ڈھال لیں۔ لباس ، چادریں ، ان کی سلوٹیں ، سب اس طرح واضح کہ چاہو تو اوڑھنے والوں اور پہنے والوں کے جسم سے الگ کر لو۔ ایک نسوانی مجسمہ شاید برٹش میوزیم ہی میں دیکھا تھا۔ ذہن سے نکلتا ہی نہیں۔ بھیگی چادر اپنے منہ پر ڈالنے والی کے خدو خال چادر کی بھیکی تہوں میں عیاں تھے۔ پتھر میں یہ سب کیفیات نمایاں کردینا کمال نہیں تو اور کیا ہے۔ برٹش میوزیم میں گزارا ہوا ایک دن کتنے دنوں کے بعد یاد آ گیا۔ وہ دن جب وقت کی کمی اورعجائبات کی فراوانی نے دو دھاری تلوار چلا رکھی تھی۔ کیا عجیب دن تھا وہ بھی اور کیا عجیب چیز ہے چشم تصور بھی‘ کسی بھی نادیدہ چیز کو حقیقت سے بڑا یا چھوٹا بنا دیتی ہے۔ اکتوبر کے ایک سرد دن جب خزاں زرد پتے اڑا رہی تھی میں برٹش میوزیم لندن کی عمارت کے سامنے کھڑا اُسے کھلی آنکھوں دیکھ رہا تھا اور یہ نظارہ چشم تصور سے کافی الگ تھا۔ لندن بلکہ یو کے کی عام عمارتیں بھی باہر سے بہت عظیم الشان اور ٹیپ ٹاپ والی نہیں ہوتیں۔ ایک سادہ لیکن مضبوط رو کا رہی ان کا چہرہ ہوتا ہے۔ برٹش میوزیم مگر ان عمومی چہروں میں ذرا الگ ہے۔ 44 بلند ستونوں پر استوار یہ ایک پرشکوہ عمارت ہے جسے اس کے مکین مزید پرشکوہ بناتے ہیں‘ اور ان مکینوں کی تعداد لگ بھگ اسی لاکھ ہے۔ صرف وادیٔ نیل یعنی مصر اور سوڈان کے نوادرات لگ بھگ ایک لاکھ ہیں جو قاہرہ میوزیم سے باہر دنیا میں کسی بھی میوزیم میں اس قدیم تہذیب کے نوادرات کی سب سے بڑی تعداد ہے۔ یہ دنیا کے قیمتی ترین عجائبات رکھتا ہے اور ممکن ہے کہ مجموعی قدرو قیمت کے اعتبار سے ہر عجائب گھر پر فوقیت رکھتا ہو۔ رکیے ذرا۔ کیا آپ بھی وہی سوچ رہے ہیں جو میں سوچ رہا ہوں ؟ میں تو یہی سوچ رہا ہوں کہ کیا یہ سب چوری یا لوٹ کھسوٹ کا مال ہے جس سے برٹش میوزیم کی گیلریاں اور کمرے بجے ہوئے ہیں؟ اگر آپ ان اسی لاکھ میں سے وہ چیزیں گنتی کریں جو برطانیہ کے اپنے ملک اور اپنی زمین سے تعلق رکھتی ہیں تو وہ شاید دس فیصد سے زیادہ نہیں ہوں گی‘ لیکن ہندو پاک ، ایران، مصر، سوڈان ، شام ، یونان، فلسطین عراق اور نا معلوم کتنے ممالک کے دل کے ٹکڑے یہاں شوکیسوں میں سجے ہوئے ہیں۔ میں نے سر کو جھٹکا اور عمارت کے اندر داخل ہو گیا۔ سعود میاں ! تم یہاں تاریخ کا پہیہ الٹا چلانے اور نا انصافیوں کا ازالہ کرنے نہیں آئے ہو۔ سیدھے سید ھے وہ گیلریاں منتخب کرو جو تم اس محدود وقت میں دیکھ سکو۔ اگر بغیر سوچے سمجھے سب کمروں میں کھس گئے تو بہت اہم چیزیں رہ جائیں گی‘ اور پورا میوزیم دیکھنے کے لیے کم سے کم ایک ماہ چاہیے۔ اور وہ جو تم انڈیا آفس لائبریری دیکھنے کی خواہش رکھتے ہو وہ تو اس سفر میں پوری ہونے والی نہیں۔ بہت وقت چاہیے ان سب کے لیے۔ بہتر یہی ہے کہ انڈیا آفس لائبریری بھی ان تشنہ خواہشات میں شامل کر لو جو برطانیہ کے ساتھ منسلک ہیں۔ تاریخی عمارتوں خاص طور پر عجائب گھروں کے ساتھ یہ بڑا مسئلہ ہے۔ اتنا وقت نکل ہی نہیں سکتا کہ ان کے ساتھ انصاف کیا جاسکے اور ہر وہ چیز دیکھی جاسکے جس کا ایک زمانے سے شوق تھا۔ جب اسی لاکھ عجائبات کسی عمارت میں موجود ہوں اور آپ کو فیصلہ کرنا پڑے کہ ان میں دو ڈھائی سو دیکھنے کے لیے منتخب کرنے ہیں اور وہ بھی تیزی میں تو آپ سمجھ سکتے ہیں کہ یہ کیسا مشکل کام ہے۔ بیرونی ممالک کے عجائب گھر تو چھوڑ یں لا ہور کا میوزیم بھی مکمل دیکھنے کی خواہش پوری نہیں ہوتی۔ ہمیشہ چیدہ چیدہ چیزیں ہی دیکھنے کا موقع ملتا ہے میں نعل نما زینہ چڑھ کر گریٹ کورٹ میں داخل ہوا تو فوراً ہی میری توجہ لابی میں رکھے اس بڑے شیر کے مجسمے نے مبذول کرالی جو لائن آف نائیڈوز(Lion of Knidos) کے نام سے مشہور ہے۔ 1858ء میں یہ سنگ مرمر کا مجسمہ ترکی میں نائیڈوز نامی شہر کے پاس سے دریافت کیا گیا تھا۔ اس پرُ ہیبت شیر کی آنکھوں کی جگہ خلا ہیں۔ بظا ہر دوسری صدی قبل مسیح میں جب یہ اپنے اصل مقام یعنی ایک مقبرے کی چھت پر رکھوالی اور ملاحوں کی رہنمائی کے لیے مامور تھا تو ان آنکھوں میں شیشے دمکتے تھے۔ میں گیلریوں کی طرف لپکا۔ ذہن میں کچھ گیلریاں اور کمرے منتخب کر لیے تھے کہ انہیں سب سے پہلے دیکھنا ہے پھر وقت بچا تو کچھ اور۔ اور مصر کی گیلری سب سے پہلے نمبر پرتھی۔ نیل کنارے اس سحر انگیز تہذیب نے صدیوں سے دنیا کو مسحور کر رکھا ہے۔ ابھی گیلری میں داخل نہیں ہوا تھا کہ ایک سنگی مجسمے نے راستہ روک لیا۔ یہ مجسمہ مصر گیلری سے باہر رکھے اٹھارہویں شاہی خانوادے کے فرعون آمن ہو تیپ سوم کا ہے جس کی تاریخ بذات خود بڑی دلچسپ ہے۔ مصر سے متعلق عجائبات میں بہت کچھ ہے دیکھنے کو۔ غزا کا مشہور اور سب سے بڑا خوفو کا ہرم جو دنیا کے سات عجائبات میں سے ہے، اس کے کچھ سر پوش پتھر (Casing stones ) بھی یہاں رکھے ہیں۔ مصر گیلری تو ایک عبرت کدہ ہے۔ فرعونوں کی ممیاں‘ان کے منقش تابوت‘ ان کے ساتھ دفنائے گئے شہ پارے۔ صرف فرعون نہیں بلکہ بڑے سرداروں، درباریوں، پروہتوں اور سپہ سالاروں کی ممیاں۔ اُس زمانے میں بھی جتنا بڑا نام اور منصب، اتنا بڑا مقبرہ۔ اتنی ہی شان و شوکت۔ سعود عثمانی ! یہ چلن آج تک بدلا نہیں۔ اور یہیں مصر گیلری میں مشہور و معروف روزیٹا سٹون بھی تو ہے۔ وہ مشہور ومعروف پتھر جسے دیکھنے کی خواہش مجھے دور سے کھینچ لائی تھی۔ وہ پتھر جس نے قدیم مصر کے راز محققین پر ہویدا کیے۔ ایک کشادہ ، روشن راہداری میں شفاف شیشے کے شوکیس میں پتھر کی یہ سل اس طرح رکھی گئی ہے کہ اسے چاروں طرف سے گھوم پھر کر دیکھا جا سکے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved