موسم کی انگڑائی نے تو سماں ہی بدل ڈالا ہے۔ کئی ہفتوں سے روپوش سورج برآمد ہوتے ہی دھند کا راج ختم ہونے کے علاوہ لہو جما دینے والی سردی اور یخ بستہ ہوائیں رُخ بدل گئی ہیں۔ ایسے موسم کو میں وہ تڑکا کہتا ہوں جو ہم سبھی کے پانچویں موسم کو انتہائی درجے پر لے جانے کا باعث بنتا ہے۔ یعنی اندر کا موسم اگر اچھا اور خوشگوار ہوگا تو ایسا موسم تکلیف کے بجائے Enjoyment کا باعث بن جاتا ہے۔ لوگ سردی انجوائے کرتے ہیں‘ اکثریت برف باری کا مزہ لینے کے لیے پہاڑوں پہ جا پہنچتے ہیں۔ گویا بیرونی سردی ان کی اندرونی گرمجوشی کو مزید ابھارنے کا باعث بنتی ہے۔ اسی طرح اگر اندر کا موسم افسردہ اور پریشان کن ہے تو سردی کی شدید لہر اور دھند ڈپریشن کا تڑکا بھی لگا دیتی ہے۔ اسی طرح لُو کے تھپیڑوں اور بے حال اور نڈھال کر دینے والی گرمی میں بھی پانچواں موسم اگر اچھا اور من موج میں ہو تو جھلسا دینے والی شدید ترین گرمی کی پروا کون کرتا ہے۔ گھنگھور گھٹاؤں اور ٹھنڈی ہواؤں میں برسات کی بارش ماحول کو بھلے جتنا بھی مسحور کن بنا ڈالے اگر پانچواں موسم پریشان حالی کے اثر میں اور دل مغموم ہو تو مست اور رومانوی موسم بھی زہر لگتا ہے۔ گویا آتے جاتے قدرتی موسم بس اس تڑکے کا کام کرتے ہیں جو اندرونی یعنی پانچویں موسم کی شدت و حدّت کو نقطۂ عروج پر پہنچا ڈالتے ہیں۔ ادھر قدرتی موسم کا مطلع صاف ہوتا چلا جا رہا ہے تو دوسری طرف انتخابی مطلع پر چھائے ہوئے شکوک و شبہات کے بادلوں سمیت عذر اور توجیہات کی سموگ اور دھند بھی اس طرح چھٹ چکی ہے کہ تادمِ تحریر تو 8فروری ہی الیکشن کا دن صاف نظر آرہا ہے۔ خدا کرے کہ 8فروری کا سورج ایک سال سے جاری من مانی اور اَن دیکھے جبرِ حکمرانی کے خاتمے کا سنگِ میل بن کر طلوع ہو اور غروب ہوتے وقت یہ پیغام دے کر جائے کہ ماورائے آئینِ حکمرانی کے دن بس ختم ہونے کو ہیں۔ جھوٹی سچی‘ اندھی بہری‘ لولی لنگڑی‘ بھلے کیسی بھی ہو‘ آنے والی حکومت کے پاس حکمرانی کا کوئی جواز اور مینڈیٹ تو ہوگا۔ گویا‘بہار آئے نہ آئے خزاں بدل جائے۔
دور کی کوڑی لانے والوں کو پہلے تو انتخابی شیڈول کے مطابق انتخابات دکھائی نہیں دے رہے تھے‘ اب انہیں انتقالِ اقتدار آسان مرحلہ نظر نہیں آرہا۔ انتخابی نتائج کے تنازع اور شورش کے امکانات ایک طرف لیکن میری تھیوری یہ ہے کہ انتخابی نتائج بھلے کیسے بھی آئیں‘ کسی کے حق میں زیادہ اور کسی کے حق میں کم کم بھی آئیں‘ یہ سبھی ضرورتوں کے مارے بھلے انتخابی جلسوں میں یہ ایک دوسرے کو جتنا چاہے لتاڑ لیں لیکن راج نیتی کے لیے بالآخر اکٹھے ہو جائیں گے۔ یہ اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ اگر انہوں نے نتائج کو متنازع بنا کر انتخابی عمل کو سبوتاژ کیا تو اقتدار کی منزل غیر معینہ مدّت کے لیے نہ صرف دور ہو جائے گی بلکہ ماورائے آئین اور من مانی کی حکمرانی کو عمرِ خضر ملنے کا اندیشہ بھی برابر لاحق ہے۔ تاہم یہ سبھی مائنس پلس اور جوڑ توڑ کی سیاست کے پرانے اور منجھے ہوئے کھلاڑی ہیں‘ ایک دوسرے کی بدترین مخالفت ہو یا تحفظات اور خدشات‘ اقتدار اور وسائل کے بٹوارے کے لیے یہ سبھی کو سلا دیتے ہیں۔ میثاقِ جمہوریت سے لے کر موجودہ انتخابی سرگرمیوں تک ان کے پیار کی پینگوں سے لے کر نفرت اور حقارت سے بھری شعلہ بیانیاں اور بڑھکیں ان کے کردار اور اخلاق کا وہ آئینہ ہیں جسے دیکھ کر بھی یہ شرمندگی اور ندامت محسوس نہیں کرتے۔
انتخابی جلسوں میں ان کے بیانیے اور بڑھکیں دیکھ کر فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ ان پر قہقہے لگائے جائیں یا بال نوچے اور سر پیٹا جائے‘ تضادات اور منافقت کے لبادوں اور روپ بہروپ سمیت ان کے تو نیت اور ارادے بھی کئی بار کھل چکے ہیں۔ آفرین ہے ان کی ڈھٹائی اور ہمت پر۔ کس طرح یہ پینترے اور رنگ بدلتے ہیں۔ اقتدار اور وسائل کا بٹوارہ ہدف ہو تو الحاق اور اتحاد کے کیسے کیسے ڈھونگ اور توجیہات گھڑ لیتے ہیں او رمطلب نکلتے ہی ان کی زبان و بیان سے لے کر ترجیحات اور اہداف بھی بدل جاتے ہیں۔ بلاول بھٹو نے اپنے سابقہ اتحادی نواز شریف کو مباحثے کا چیلنج تو دے ڈالا ہے‘ لیکن کوئی انہیں بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا‘ بطور وزیرخارجہ اپنے وزیراعظم کی قائدانہ صلاحیتوں اور ویژن کے قلابے ملایا کرتے تھے‘ آج کل صبح دوپہر شام ان کے خلاف کیسے کیسے بلیٹن جاری کر رہے ہیں۔
دوسری طرف نواز شریف کا تازہ فرمان ہے کہ موقع ملا تو ہمارے کام تاریخ یاد رکھے گی۔ خدا جانے نواز شریف صاحب کون سے موقع کی بات کر رہے ہیں‘ مملکتِ خداداد پر حکمرانی کے جتنے موقعے قدرت نے انہیں دیے ہیں اس کی مثال نہیں ملتی۔ ان کی جماعت کو پانچ بار وزارتِ عظمیٰ اور آٹھ مرتبہ ملک کے سب سے بڑے صوبے کی وزارتِ اعلیٰ عطا ہوئی ہے‘ لیکن رب کی اس عطا کو ہر بار اپنی ادا کا چمتکار تصور کرتے ہوئے اس نعمتِ خداوندی سے کفرانِ نعمت کی روایت کو جاری اور برقرار رکھا۔ جو اُن تاریخ ساز مواقع اور ادوار میں اگر کچھ نہیں کر پائے تو زیادہ سے زیادہ اب کیا کر پائیں گے؟ رہی بات کہ عوام ان کے کام یاد رکھیں گے تو اس بارے احتیاط اور اختصار کے ساتھ یہی کہا جا سکتا ہے کہ اصل قصوروار تو عوام ہی ہیں‘ اگر عوام کچھ یاد رکھنے کی صلاحیت رکھتے تو آپ تواتر سے حکمرانی کے اتنے بڑے ریکارڈز کیونکر بناتے؟ نہ عوام نے کچھ یاد رکھا اور نہ آپ نے کچھ کر دکھایا۔ جوں جوں اقتدار کی لت منہ کو لگتی چلی گئی توں توں عوام بھی دھوکوں‘ جھانسوں اور کبھی نہ پورے ہونے والے دلفریب وعدوں کی لت میں لت پت ہوتے چلے گئے۔ تعجب ہے! آج بھی دعوؤں اور وعدوں کے ساتھ گا‘ گے‘ گی کا راپ الاپاجا رہا ہے۔ اسی طرح سندھ میں پانچ سالہ حکمرانی کے مسلسل تین ادوار میں بلاول صاحب نے جہاں بھٹو کو زندہ رکھا وہاں عوام کو کہیں ادھ موا تو کہیں زندہ درگور ہی کر ڈالا۔
ان سبھی سماج سیوک نیتاؤں کے انتخابی دعوؤں اور نعروں پر ریسرچ کی جائے تو لطائف کی ایک ضخیم کتاب مرتب کی جاسکتی ہے جس میں ان کی تصویروں کے علاوہ تضاد بیانیوں اور جھانسوں کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے جو کئی دہائیوں سے جاری اور جوں کے توں ہیں۔ وزارتِ تعلیم بھی اس کتاب کو نصابی کتب میں شامل کر کے نیا مضمون متعارف کروا سکتی ہے۔ جس کے امتحانی سوالات کچھ یوں ہو سکتے ہیں فلاں سیاستدان کے پانچ تضادات قلمبند کریں یا حکمرانوں کے بیانات پر مبنی دو لطائف تحریر کریں۔ اقتدار کی کئی کئی باریاں لینے کے باوجود نہ مصالحے بدلے نہ چورن‘مزید وضاحت کے لیے عرض کرتا چلوں کہ یہ سبھی ایسے باورچی ہیں کہ جو بھی ہانڈی تیار کرتے ہیں ذائقہ بتاؤں (بینگن) کا ہی آتا ہے۔ کئی دہائیوں سے ایک ہی منشور کو اُلٹ پلٹ کر کے انتخابات میں پیش تو کر دیا جاتا ہے لیکن مجال ہے برسرِ اقتدار آنے کے بعد کسی نے پلٹ کر بھی منشور کو دیکھا ہو۔ منشور کو نظر انداز کرنے کی وجہ تو بخوبی سمجھ آتی ہے کہ جہاں حلف سے انحراف حکمرانی کا خاصہ بن جائے وہاں منشور جیسی دستاویز کی کیا حیثیت ہے۔ راج نیتی میں آکر حلف‘ قانون‘ ضابطے‘ منشور سمیت اخلاقی و سماجی قدروں کے علاوہ دعوے‘ وعدے اور ایجنڈے فراموش کرنا ہی حکمرانوں کی شان ہے۔ اسی لیے ان کے سبھی اقدامات اور فیصلے شایانِ شان ہوتے ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved