تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     30-01-2024

سرخیاں‘ متن اور ہزارہ سے رستم نامی

خود پر ظلم برداشت کر سکتا ہوں‘
عوام پر نہیں: نواز شریف
سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ''میں خود پر ظلم برداشت کر سکتا ہوں مگر عوام پر نہیں‘‘ کیونکہ اب تک عوام پر جو ظلم کیا گیا ہے‘ وہی کافی ہے اور کسی نے روکا بھی نہیں تھا کیونکہ دوسروں کو بھی اس کا علم اور احساس بہت بعد میں ہوا تھا جبکہ ترقی و خوشحالی اور جو سرمایہ ملک سے باہر گیا‘ وہ لوگوں کا نہیں تھا کیونکہ اگر وہ کسی کا ذاتی ہوتا تو واپسی کا مطالبہ اور تقاضا ضرور کرتا یا کوئی قانونی چارہ جوئی کرتا لیکن کسی نے ایسا نہیں کیا‘ لہٰذا یہ ساری افواہیں ہیں اور افواہوں پر کان نہ دھریں۔ آپ اگلے روز سیالکوٹ میں ایک انتخابی جلسے سے خطاب کر رہے تھے۔
بحیثیت قوم ہمیں سوچنا ہوگا کہ کدھر
جا رہے ہیں: مولانا فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ اور پی ڈی ایم کے صدر مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''بحیثیت قوم ہمیں سوچنا ہو گا کہ ہم کدھر بھٹکے ہوئے ہیں اور کدھر جا رہے ہیں‘‘ اگرچہ یہ باتیں الیکشن سے پہلے سوچنا چاہئے تھیں کیونکہ اب تو اس کا موقع ہی نہیں ہے کہ قوم الیکشن لڑے یا ان باتوں پر غور کرے بلکہ یہ بھی چاہئے تھا کہ بروقت اور بہت پہلے قوم کو یاد دلاتے، اور یہ کام اس لیے بروقت نہیں ہو سکا کہ خود بھی معلوم نہیں تھا کہ ہم کہاں بھٹکے ہوئے ہیں اور کدھر جا رہے ہیں، نیز اب انتخابات کی وجہ سے ان باتوں پر غور کرنے کا وقت بھی نہیں ہے۔ آپ اگلے روز سکھر میں انتخابی جلسے سے خطاب کر رہے تھے۔
نوجوانوں کے بہتر مستقبل کیلئے
روڈ میپ تیار کر لیا: جہانگیر ترین
استحکام پاکستان پارٹی کے پیٹرن انچیف جہانگیر خان ترین نے کہا ہے کہ ''ہم نے نوجوانوں کے بہتر مستقبل کے لیے روڈ میپ تیار کر لیا ہے‘‘ اور اب یہ نوجوانوں کا کام ہے کہ اس کے مطابق چلتے ہیں یا نہیں کیونکہ ہمارا کام اتنا ہی تھا، یہ نہیں کہ انہیں پکڑ کر اس پر چلایا بھی کریں، اور اگر کہیں اس میں سے کوئی راہ پسند نہ بھی ہو تو وہ اپنی پسندیدہ راہ پر بھی چل سکتے ہیں۔ اگرچہ وہ پہلے بھی ایسی ہی سڑکوں پر چلا کرتے ہیں جو انہیں ہر طرح سے سوٹ کرتی ہیں اور وہ اپنی رفتار خوا مخواہ بڑھانے پر تیار نہیں ہوں گے اور نہ ہی پٹرول کی مہنگائی انہیں اس کی اجازت دے گی اس لیے ان کا روڈ میپ وہی ہو گا جسے وہ اختیار کریں گے۔ آپ اگلے روز ملتان میں کارکنوں سے خطاب کر رہے تھے۔
چوتھی بار وزیراعظم بن بھی گئے
تو کوئی تسلیم نہیں کرے گا: بلاول بھٹو
سابق وزیر خارجہ اور پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''نواز شریف اگر چوتھی بار وزیراعظم بن بھی گئے تو کوئی تسلیم نہیں کرے گا‘‘ اور اگر وہ چاہتے ہیں کہ انہیں تسلیم کیا جائے تو انہیں وزارتِ عظمیٰ کے بجائے صدر کا عہدہ اپنے پاس رکھنا چاہیے بلکہ ہم تو انہیں پہلے ہی صدرِ مملکت تسلیم کیے بیٹھے ہیں اور چونکہ وزیراعظم ایک چھوٹا عہدہ ہے‘ اس لیے وہ چھوٹا عہدہ دوسروں کے لیے چھوڑ سکتے ہیں جبکہ وہ پہلے بھی تین بار اس سے لطف اندوز ہو چکے ہیں بلکہ آئندہ کے لیے انہیں گارنٹی بھی دی جا سکتی ہے کہ وہ آگے بھی جتنی بار چاہیں‘ صدرِ مملکت بن سکتے ہیں جبکہ اس دفعہ ویسے بھی باری ہماری ہے اور بڑی مشکل سے پارٹی سے اس عہدے کے لیے اپنی نامزدگی کرائی ہے۔ آپ اگلے روز راولپنڈی میں جلسہ عام سے خطاب کر رہے تھے۔
عوام کو ہم سے پہلے جیسا کام لینا ہے
تو اکثریت دیں: اسحاق ڈار
سابق وزیر خزانہ اور مسلم لیگ (ن) کے رہنما سینیٹر اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ ''اگر قوم کو ہم سے پہلے جیسا کام لینا ہے تو ہمیں اکثریت دلائیں‘‘ اول‘ تو قوم اب تک کافی سبق حاصل کر چکی ہے اور کبھی خواب میں بھی ایسا نہیں سوچے گی لیکن جیسا کہ قائد محترم نے کہا ہے‘ پورے ملک میں بیوقوف لوگوں کی کمی نہیں ہے‘ اس لیے امید کو ترک نہیں کرنا چاہیے اور عوام چونکہ عادت سے مجبور ہیں لہٰذا ہماری امیدوں کا واحد مرکز یہی سادہ لوح لوگ ہیں اور مایوس ہونے کی ہرگز کوئی ضرورت نہیں اور نہ ہی اس طرح کے کاموں سے روکا جا سکتا ہے۔ آپ اگلے روز سیالکوٹ میں جلسے سے خطاب کر رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں ہزارہ سے رستم نامی کی شاعری:
نشاطِ غم کا مزہ ہے الگ تھلگ مرے یار
اسی خوشی میں ادھر آ‘ گلے سے لگ مرے یار
اسی لیے تو یہاں کوئی اُف نہیں کرتا
کہ ظا لموں کے سروں پر ہے آج پَگ مرے یار
مرے خیال کو دل سے نکال باہر کر
کہا یہ کس نے جدائی میں یوں سُلگ مرے یار
نئے نئے ہو یہاں احتیاط سے رہنا
ہمارے شہر میں رہتے ہیں سارے ٹھگ مرے یار
اتر رہی ہے رگ و پے میں یہ بیابانی
کسی گلی میں نہ انسان ہے نہ سَگ مرے یار
ہماری پیاس پیالے سے بجھ نہیں سکتی
ہمیں تو چاہیے ہوتا ہے پورا جگ مرے یار
ملا نہ قافیہ کوئی اسی لیے نامیؔ
کیا ہے میں نے یہاں بَرگ کو بَرَگ مرے یار
٭......٭......٭
زندگی دشوارتے ہو خواہ مخواہ
در کو تم دیوارتے ہو خواہ مخواہ
جو تمہیں کچھ بھی سمجھتے ہی نہیں
جان اُن پر وارتے ہو خواہ مخواہ
پوچھتے ہو حالِ دل کیوں بار بار
کیوں ہمیں بیمارتے ہو خواہ مخواہ
ہم سے ملنے تو کبھی آتے نہیں
راستے ہموارتے ہو خواہ مخواہ
ہم تمہارے حاشیہ بردار ہیں
تم ہمیں کیوں مارتے ہو خواہ مخواہ
ہم سے معصوموں کی تم لیتے ہو جان
حسن کو ہتھیارتے ہو خواہ مخواہ
کام میں مشغول رہ کر صبح شام
وقت کو بے کارتے ہو خواہ مخواہ
آج کا مقطع
اور تُو لایا نہ تھا پیغام ساتھ اپنے ظفرؔ
جو بھی تھا اس کا یہی عیب و ہنر پیغام تھا

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved