یوں تو محمد رفیع نے اپنے زمانے کے تمام نامور موسیقاروں کے ساتھ کام کیا لیکن لکشمی کانت پیارے لال سے محمد رفیع کے تعلق کی نوعیت سب سے جدا تھی۔1964ء میں فلم ''دوستی‘‘ میں محمد رفیع نے لکشمی کانت پیارے لال کی موسیقی میں اپنی آواز کا جادو جگایا۔ گیت کے بول تھے ''چاہوں گا میں تجھے سانجھ سویرے‘‘۔ اس گیت پر محمد رفیع کو فلم فیئر ایوارڈ ملا۔ محمد رفیع نے لکشمی کانت پیارے لال کے ساتھ سب سے زیادہ گیت گائے۔ ان گیتوں کی تعداد 388 ہے۔ کیسے کیسے گیت تھے جو لکشمی کانت پیارے لال کی موسیقی میں محمد رفیع کی آواز کو چھو کر اَمر ہو گئے۔ ان میں ''آج موسم بڑا بے ایمان ہے‘ مجھے تیری محبت کا سہارا مل گیا ہوتا‘ یہ ریشمی زلفیں‘ میرے محبوب قیامت ہو گی‘ آنے سے اس کے آئے بہار‘ جھلمل ستاروں کا آنگن ہو گا‘ یہ دل تم بن کہیں لگتا نہیں‘ بڑے بے وفا ہیں‘ یہ جو چلمن ہے‘‘ شامل ہیں۔
محمد رفیع کا فنی سفر جو چالیس کی دہائی سے شروع ہوا تھا‘ کامیابی سے نئی منزلوں کی طرف رواں دواں تھا۔ اس دوران اس کی آواز کے کتنے ہی نئے رنگ سامنے آئے‘ ہر کیفیت اور ہر موڈ کے رنگ۔ 70ء کی دہائی کا آغاز بھی کئی خوبصورت گیتوں سے ہوا لیکن اسی دہائی میں رفیع گلے کی انفیکشن کا شکار ہو گیا اور کچھ ماہ کے لیے اس نے اپنی گائیکی کو محدود کر دیا لیکن جلد ہی صحت یاب ہو کر وہ ایک نئے جذبے کے ساتھ دوبارہ گائیکی کی دنیا میں آیا اور اسی بانکپن سے اپنی آواز کا جادو جگانے لگا۔
محمد رفیع1944ء میں لاہور چھوڑ کر بمبئی آیا تھا۔اس سے پیشتر اس کی بیوی بشیراں بی بی کا انتقال ہو چکا تھا۔ بمبئی میں اسے لاہور رہ جانے والے اپنے گھر کے سب افراد یاد آتے تھے۔ حمید بھائی اس صورتحال سے بے خبر نہ تھے۔ وہ اکثر سوچتے تھے کہ اگر محمد رفیع کا دھیان ہر وقت لاہور میں رہ جانے والے اپنے گھر والوں کی طرف رہے گا تو پھروہ گانے پر کیسے توجہ دے گا۔ اسی دوران حمید بھائی نے بمبئی میں ظہیر صاحب کی بیٹی سے شادی کر لی تھی۔ ظہیر صاحب بہت بااعتماد شخص تھے۔ حمید بھائی کی بیوی کی ایک چھوٹی بہن بھی تھی جس کا نام بلقیس بانو تھا۔ حمید بھائی نے سوچا ایک بار رفیع کی شادی ہو جائے تو بمبئی میں اس کا دل لگ جائے گا۔ یہ 1945ء کا سال تھا جب محمد رفیع کی شادی بلقیس بانو سے کر دی گئی۔ یہ ایک کامیاب شادی تھی جو آخر تک قائم رہی ۔محمد رفیع کی بیوی نے ہر سردو گرم میں اس کا ساتھ دیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ظہیر صاحب جو محمد رفیع کے سسر تھے‘ ا ن کے پرائیویٹ سیکرٹری کے فرائض بھی سرانجام دیتے رہے۔ محمد رفیع کو خدا نے اولاد کی نعمت سے نوازا۔ بالی وُڈ کا معروف گلوکار گھر کے اندر وہی سادہ سا محمد رفیع ہوتا‘اپنے بچوں سے ٹوٹ کر محبت کرنے والا۔ بمبئی جانے کے بعد محمد رفیع صرف ایک بار پاکستان آیا۔ کہتے ہیں یہ 60 ء کی دہائی تھی جب اُسے خبر ملی کہ اس کے والد حاجی محمد علی کا انتقال ہو گیا ہے۔ یہ محمد رفیع کا تقسیم کے بعد لاہور کا پہلا اور آخری دورہ تھا۔
ہر گلوکار کی زندگی میں اس سے ایک سوال ضرور کیا جاتا ہے کہ اس کا پسندیدہ گیت کون سا ہے۔ اس سوال کا جواب آسان نہیں ہوتا کیوں کہ ایک گلوکار کو اپنے سارے گیتوں سے پیار ہوتا ہے۔ محمد رفیع کیلئے اس کا جواب تو اور بھی مشکل تھا کیونکہ اس کے گائے ہوئے گیتوں کی تعداد سات ہزار سے زیادہ ہے‘ لیکن محمد رفیع کو ذاتی طور پر اس کا گایا ہواگانا ''سہانی رات ڈھل چکی نہ جانے تم کب آؤ گے‘‘ پسند تھا۔ یہ 1949ء میں ریلیز ہونے والی فلم ''دلاری‘‘ کا گانا تھا۔ جس کی موسیقی نامور موسیقار نوشاد علی نے دی تھی۔ اس گانے کے بول معروف شاعر شکیل بدا یونی نے لکھے تھے۔ گیت انتظار کی کیفیت کو بیان کرتا ہے اور محمد رفیع کی آواز نے شاعری کی تاثیر کو دو چند کر دیا تھا۔
محمد رفیع کو اپنی مصروفیات سے وقت ملتا تو اپنے بچوں کے ساتھ وقت گزارتا‘ پتنگ بازی‘ کیرم اور بیڈمنٹن اس کے پسندیدہ کھیل تھے۔ وہ اپنی ذاتی زندگی میں مذہب سے بہت قریب تھا اور نماز‘ روزے کی پابندی کرتا۔ محمد رفیع اپنی ذاتی زندگی میںبہت کم گو اور کم آمیزتھا۔ اس کی طبیعت میں شرمیلا پن تھا ۔ وہ صلح کل کا قائل تھا‘ لیکن ایسا نہیں کہ ہر چیز ہمیشہ ہموار رہتی۔ جیسا کہ پہلے ذکر آیا کہ اوپی نیر اُس سے تین سال ناراض رہے‘ پھر رفیع اُن کے گھر پہنچ گیا اور یوں دونوں کے درمیان صلح ہو گئی۔ دو بار لتا بھی اس سے ناراض ہوئی۔ پہلی بار اس وجہ سے کہ وہ رائلٹی کے مسئلے پر لتا کے مؤقف کے ساتھ کھڑا نہیں ہوا۔ دوسری بار گینز بُک آف ورلڈ ریکارڈ سے محمد رفیع نے اختلاف کیا کہ اس کے گانوں کی تعداد لتا کے گانوں سے زیادہ ہے۔ اس پر کچھ عرصہ دونوں کے تعلقات میں سرد مہری رہی لیکن محمد رفیع کی شخصیت ایسی تھی کہ اس سے زیادہ عرصہ تک ناراض نہیں رہا جاسکتا تھا۔ لتا اور محمد رفیع کے تعلقات پھر سے نارمل ہو گئے اور دونوں ایک ساتھ گانے لگے۔ محمد رفیع اور لتا کے اَن گنت دو گانے اب بھی پہلے دن کی طرح تروتازہ ہیں مثلاً ''سو سال پہلے مجھے تم سے پیار تھا‘ مجھے جیون کی ڈور سے باندھ لیا‘ وہ جب یاد آئے‘ تصویر پرتری دل میں‘ دیکھو روٹھا نہ کر و‘ جو وعدہ کیا وہ نبھانا پڑے گا‘‘۔ رفیع کو یاد کرتے ہوئے لتا کا کہنا تھا کہ وہ بھگوان کے آدمی تھے‘ بہت شانت۔ نہ ان جیسی آواز آئی ہے نہ کبھی آئے گی۔
محمد رفیع کو اُن کے فن کے اعتراف میں کئی انعامات اور ایوارڈز ملے جن میں بھارت کا سرکاری ایوارڈ پدم شری شامل ہے جو انہیں 1967ء میں دیا گیا۔اس کے علاوہ نیشنل فلم ایوارڈ‘ سٹار موسٹ ایوارڈ‘ فلم فیئر ایوارڈ(1961ء‘1962ء‘1965ء‘1967ء‘1969ء‘1978ء)کا مستحق ٹھہرایا گیا ۔ جن چھ گیتوں پر رفیع کو فلم فیئر ایوارڈ ملے ان میں چودھویں کا چاند ہو (موسیقار روی)‘ تیری پیار ی پیاری صورت کو (موسیقار شنکر جے کشن)‘ چاہوں گا میں تجھے سانجھ سویرے (موسیقار لکشمی کانت پیارے لال) بہارو پھول برساؤ (شنکر جے کشن)‘ دل کے جھروکے میں تجھ کو بٹھا کر (موسیقار شنکر جے کشن)‘ کیا ہوا تیرا وعدہ (موسیقار آرڈی برمن) شامل ہیں۔ لیکن محمد رفیع کیلئے سب سے بڑا خراجِ تحسین وہ محبت اور عقیدت ہے جو اسے آنے والے گلوکاروں سے ملی۔ کتنے ہی گلوکاروں نے رفیع کے انداز میں گلوکاری سے کامیابی کے زینے طے کیے ان میں محمد عزیز مہندر کپور‘ شبیر کمار‘ اُدت نارائن انور اور سونو نگم شامل ہیں۔
مجھے یاد ہے وہ راولپنڈی میں گرمیوں کی ایک سلگتی ہوئی سہ پہر تھی۔ جولائی کی 31 تاریخ تھی اور 1980ء کا سال۔ میں اپنے دوستوں کے ساتھ راولپنڈی کے لالکرتی بازار میں ملاں کے ہوٹل میں چائے پی رہا تھا کہ ریڈیو پر خبر نشر ہوئی محمد رفیع انتقال کر گئے ہیں ۔خبر سن کر ہم دوست سکتے میں آ گئے۔ یوں لگتا تھا کہ اچانک کوئی اپنا ہم سے بچھڑ گیا ہے۔ پھر ریڈیو پر رفیع کا گیت چلنے لگا ''چل اُڑ جا رے پنچھی کہ اب یہ دیس ہوا بیگانہ‘‘۔ اداسی کی لہرمیرے دل میں اُتر رہی تھی۔میں نے اپنے ارد گرد دیکھا ریستوران میں بیٹھے سب لوگ محمد رفیع کی آواز کے سنگ نہ جانے کہاں کھو گئے تھے۔ ان کی آنکھوں میں آنسوؤں کی چمک تھی۔ شاید میری طرح وہ بھی سوچ رہے تھے۔ ایسا کیوں ہوتا ہے کہ ایک دن پرندے کا اپنا ہی دیس اس کے لیے اجنبی ہو جاتا ہے ؟(ختم)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved