عید کی چھٹیوں میں مولانا فضل الرحمن کا تاریخی کارنامہ وہ توجہ حاصل نہ کر سکا‘ جس کا مستحق تھا۔ میں نے بہرحال یہ طے کر لیا تھا کہ چھٹیاںدو ہوں یا تین‘ عید کے بعد جو پہلا کالم لکھوں گا‘ اس میں مولانا کے اس تاریخی کارنامے پر انہیں حسب توفیق‘ شاندار خراج تحسین پیش کروں گا۔ مولانا نے بزبان خود اس کارنامے پر اپنے آپ کو جو خراج تحسین پیش کیا‘ وہ یہ ہے۔ ’’دورہ افغانستان کامیاب رہا۔ 3دن میں وہ کر دیا‘ جو حکومت 8 برس میں نہیں کر سکی۔‘‘ وہ کارنامہ کیا ہے؟ اسے تلاش کرنے اور سمجھنے کے لئے کچھ محنت کرنا پڑے گی۔ مولانا ‘ افغانستان کے بے اختیاراور جلد فارغ ہونے والے صدر حامد کرزئی کی دعوت پر کابل گئے تھے۔ وہاں ان سے ملاقات کی۔ عجلت میں کرزئی سے وعدہ لیا کہ وہ افغانستان کی جیلوں میں قید پاکستانیوں کو غیرمشروط طور پر رہا کر دیں گے۔مولانا کے پاس قیدیوں کی فہرست نہیں تھی‘ ورنہ بقول ان کے‘ وہ انہیں اپنے ساتھ ہی پاکستان لے آتے۔ میرے نزدیک قیدیوں کی رہائی کا وعدہ لینے سے بڑا کارنامہ یہ تھا کہ مولانا جس مقصد سے کابل گئے تھے‘ اسے پورا کرنے کے لئے وہ قیدیوں کی فہرست ہی ساتھ لے جانا بھول گئے تھے۔ یہ بھی ایک احتیاط تھی۔ اگر فہرست لے جاتے اور حامد کرزئی اپنے وعدے کے مطابق پاکستانیوںکی رہائی کا وعدہ پورا کرنے کی کوشش کرتے اور اس میں کامیاب نہ ہوتے‘ تو مولانا کا تاریخی کارنامہ ریکارڈ کا حصہ بننے سے رہ جاتا۔ بڑے لوگ ہمیشہ دوراندیشی سے کام لیتے ہیں۔ وہ جب کوئی کارنامہ انجام دینے پر اتر آئیں‘ تو بطور حفظ ماتقدم پہلے سے انتظامات کر لیتے ہیں اورجو کارنامہ وہ تاریخ میں درج کرنے کی ٹھان لیں‘ اس کا اندراج ضرور کرا لیتے ہیں۔ عملدرآمد کے جھمیلوں میں پڑ کے‘ ناکامی کے خطروں سے بچنے کی تدبیر کر لینا بھی دانشمندی ہے۔ بطور چیئرمین کشمیر کمیٹی‘ مولانا نے یہ نسخہ بڑی کامیابی سے آزمایا ہے۔ وہ برسوں کشمیر کمیٹی کے چیئرمین رہے۔ ہر وقت تنازعہ کشمیر حل کرنے کی جدوجہد کی۔ نہ بھارتیوں کو امتحان میں ڈالا‘ نہ پاکستان کو اور نہ کشمیریوں کو۔ اپنے موقف پر ڈٹے رہے اور ڈٹے ڈٹے ہی گھر چلے گئے۔لیکن کشمیر کے مسئلے پر آنچ نہیں آنے دی۔ جس حالت میںیہ مسئلہ ان کے سپرد ہوا تھا‘ اسی حالت میں یہ امانت قوم کو واپس دے گئے۔ وقت آئے گا‘ جب مولانا کے اس کارنامے کو احترام سے یاد کیا جائے گا اور آنے والی نسلیں‘ مولانا کی خدمات کا اعتراف کریں گی۔ مولانا ارادہ رکھتے ہیں کہ وزیراعظم نوازشریف کی امریکہ سے واپسی پر وہ ان سے ملاقات کرکے‘ اپنے دورہ افغانستان کے بارے میں بریف کریں گے اور رپورٹ دیں گے کہ کشمیر کمیٹی کے چیئرمین کی حیثیت سے‘ انہوں نے کئی برسوں کے اندر جس تندہی اور محنت سے کام کیا ہے‘ اسی طرح وہ کابل میں بھی ایک عظیم کارنامہ انجام دے کر آئے ہیں اور جو کام پاکستان کی حکومتیں 8 برسوں میں نہیں کر سکیں‘ وہ 3 دن کے اندر کر کے آ گئے ہیں۔ عوام کو تو انہوں نے صرف قیدیوں کی رہائی کی خبر تک محدود رکھا۔ اصل میں حامد کرزئی کو جو کچھ وہ منوا کر آئے ہیں‘ وہ صرف وزیراعظم کے گوش گزار کریں گے۔ امید ہے‘ وزیراعظم آداب میزبانی ملحوظ رکھتے ہوئے‘ مولانا سے ان کے کارنامے کی پوری تفصیل انتہائی صبر و سکون کے ساتھ سنیں گے مگر یہ سوال پوچھ کر ان کا موڈ ہرگز خراب نہیں کریں گے کہ حامد کرزئی کے اختیار میں کیا ہے؟ اور اپنے وعدے پورے کرنے کے لئے ان کے پاس اقتدار کے کتنے دن باقی رہ گئے ہیں؟ ایسی باتیںآداب میزبانی کے مطابق نہیں ہوتیں۔ وزیراعظم کے لئے مناسب ہو گاکہ وہ پاکستانی عوام کی طرح خیال خاطر احباب چاہیے‘ کا اصول پیش نظر رکھیں۔ قارئین کو یاد ہو گا کہ مولانا صاحب نے گزرے وقتوں میں ایک آل پارٹیز کانفرنس بلائی تھی۔ وہ منعقد بھی ہوئی۔ اس میں تقاریربھی ہوئیں۔ عوام نے ان تقاریر کوپڑھا اور سنا بھی لیکن کسی نے آج تک یہ پوچھ کر مولانا کا موڈ خراب نہیں کیا کہ اس کانفرنس میں ہوا کیا تھا؟ وزیراعظم خود بھی یاد کر سکتے ہیں کہ انہیں اقتدار میں آئے4ماہ سے زیادہ کا عرصہ ہو چکا ہے۔ مگر عوام آج تک یہ نہیں پوچھ رہے کہ وزیراعظم نے کیا کیا ہے؟ انہیں معلوم ہے کہ وزیراعظم سے ان کے کارناموں کے بارے میں دریافت کر لیا‘ تو ان کا موڈ خواہ مخواہ خراب ہو گا۔ انہیں بتانا پڑے گا کہ انہوں نے جناب اسحق ڈار جیسے نابغہ روزگار کو پاکستان کا وزیرخزانہ بنایا۔ لوڈشیڈنگ ختم کرنے کے وعدے دہرائے اور عملاً بجلی کے نرخ اتنے بڑھا دیئے کہ صارفین رضاکارانہ طور پر خود ہی بجلی کا استعمال اتنا کم کر دیں گے کہ بجلی وافر مقدار میں بچ رہے گی۔ نہ بجلی زیادہ استعمال ہو گی‘ نہ اس کی قلت آئے گی اور نہ لوڈشیڈنگ کی ضرورت رہے گی۔ اسی طرح سے پٹرول کی قیمتیں بڑھانے کا جو کارنامہ اس حکومت نے انجام دیا ہے‘ اسے بھی دنیا بھر میں حیرت سے دیکھا جا رہا ہے۔ جیسے ہی عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں کم ہوتی ہیں‘ ہماری حکومت تیل کی قیمتوں میں اضافہ کر کے‘ اپنی ہی قائم کی ہوئی مثال پر عمل کر دیتی ہے۔ یعنی پٹرول کو اتنا مہنگاکر دو کہ عوام کی قوت خرید ہی جواب دے جائے۔ ورنہ اصولی طور پر جس چیز کی قیمت عالمی مارکیٹ میں کم ہو رہی ہو اور ہم اس کے درآمد کنندہ ہوں‘ تو پاکستان میں بھی اس کے ریٹ کم ہونا چاہئیں۔ باقی سارے ملک یہی کرتے ہیں۔ ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں بھی پٹرول کے نرخ عالمی رحجان کے مطابق کم کر کے عوام کو فائدہ پہنچایا گیا۔مگر ہم پیسے کو پیار نہیں کرتے۔ ہماری نظر عوام کی فلاح و بہبود پر ہے۔ ہم تیل مہنگا کر کے عوام کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ پٹرول کی زیادہ سے زیادہ بچت کریں۔ اس کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ اسے عوام کی قوت خرید سے باہر کر دیا جائے۔ نہ وہ تیل خرید سکیں گے۔ نہ تیل کی کھپت میں اضافہ ہو گا اور اس طرح تیل کی کھپت اور درآمد‘ دونوں میں کمی آئے گی۔ ہمارا زرمبادلہ بچے گا۔ عوام کا پیسہ بچے گا۔ اس سے زیادہ عوام کی فلاح و بہبود کے لئے حکومت کیا کر سکتی ہے؟ حقیقت میں وزیراعظم اور مولانا فضل الرحمن‘ دونوں کا طرز کارکردگی ایک جیسا ہے۔ دونوں ہی عظیم الشان کارنامے انجام دیتے ہیں۔ اپنے کارناموں کو حقائق کی کسوٹی پر بلاوجہ گھسانے سے گریز کرتے ہیں اورعوام کو اپنے کارنامے پرکھنے کی مہلت ہی نہیں دیتے۔ ایک کے بعد ایک کارنامہ انجام دیتے رہتے ہیں اور اس تسلسل سے انجام دیتے ہیں کہ عوام کو کسی ایک کارنامے پر نظر ٹکانے کی مہلت ہی نہیں ملتی۔ میں چاہوں گا کہ نوازشریف ‘ مولانا سے اپنی ہی طرز کے مزیدکارنامے انجام دینے کی ڈیوٹی لینا شروع کر دیں۔ مثلاً انہوں نے گزشتہ دنوں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں جانے کے لئے دورہ امریکہ کا کارنامہ انجام دیا۔ وہاں دس پندرہ منٹ تقریر بھی کر دی اور باقی وقت اعلیٰ سطحی ملاقاتوں اور مذاکرات میں گزارا۔ بھارت کے وزیراعظم اور ایران کے صدر سے ملے۔ ان دو کے علاوہ کون سی عالمی شخصیت کو ہمارے وزیراعظم نے شرف ملاقات بخشا؟ اس کی خبر کوئی نہ پڑھ سکا۔ ہو سکتا ہے کسی ملاقات میںہمارے وزیراعظم نے کوئی کارنامہ انجام دے دیا ہو۔ اس طرح کے کارنامے انجام دینے کے لئے کیوں نہ مولانا صاحب کی خدمات حاصل کر لی جائیں؟ وہ بیرونی دورے بہت پسند فرماتے ہیں۔ خدا کا گھر کم دیکھتے ہیں۔ خدا کی شان زیادہ دیکھتے ہیں۔ خدا کی شان زیادہ تر کافروں کے ملکوں میں ہی نظر آتی ہے۔ جیسے امریکہ‘ برطانیہ‘ جرمنی‘ فرانس۔ ہمارے مذہبی سیاستدان‘ خدا کی شان بڑے شوق سے دیکھتے ہیں۔ مولاناکو یا افغانستان کے سربراہ سے دعوت مل سکتی تھی یا لیبیا کے سربراہ سے۔ ایک باقی نہیں رہا۔ دوسرا سامان باندھ کر جانے کو تیار بیٹھا ہے۔ اس سے پہلے کہ اس کی رخصت کا وقت آئے‘ مولانا کوجلدی سے دورے کی دعوت دے دی تاکہ مولانا اپنے تین روزہ دورے میں تاریخی کارنامہ انجام دینے سے نہ رہ جائیں۔ وقت تو نہیں رہ گیا مگر اب بھی کچھ نہیں بگڑا۔ پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات اب ترتیب اور تسلسل سے ہونے لگے ہیں۔امریکہ روانگی سے پہلے دہشت گردی کے ’’اچھے‘‘ سے واقعے کو بنیاد بنا کر وزیراعظم دورہ امریکہ ملتوی کر سکتے ہیں اور صدر امریکہ سے اپنی ملاقات ملتوی کر کے‘ مولانا فضل الرحمن کو دورہ امریکہ پر بھیج سکتے ہیں۔اس سے پاکستان کا بہت فائدہ ہو گا۔ ایک تو وزیراعظم صدرامریکہ کے ساتھ ایک بیکار اور بدمزہ ملاقات سے بچ رہیں گے اور دوسرے مولانا یقینی طور پر دورہ امریکہ میں بھی کوئی ایسا کارنامہ کر کے دکھا سکتے ہیں‘ جو پچھلے 66 سال میں کوئی پاکستانی حکومت انجام نہیں دے سکی۔مولانا بڑے کام کی چیز ہیں۔ ہم ان سے پوری طرح فائدہ نہیں اٹھا رہے۔ہمیں تو چاہیے کہ ہم مولانا کی خدمات دوسرے ملکوں کو بھی مستعار دینا شروع کر دیں۔ مولانا بین الاقوامی سطح کے کارنامے بھی انجام دے سکیں گے اور پاکستان زرمبادلہ بھی کما سکے گا‘ جس کی ہمیں اشد ضرورت ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved