مملکتِ خدا داد میں سیاحت کے فروغ کے لیے عملی اقدامات تو ترجیحات میں شامل ہی نہیں۔ کوئی بھولا بھٹکا غیرملکی سیاح یہاں آ جائے تو اس کے ساتھ بدسلوکی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا جاتا۔ صادق آباد میں ایک خاتون سمیت تین غیرملکی سیاحوں کو پولیس کی بد سلوکی کے اُن سبھی مناظر کا سامنا کرنا پڑا جو ہمارے یہاں پولیس کی روایت بن چکی ہے۔ تھپڑ‘ دھکوں اور گالی گلوچ کے علاوہ خاتون سیاح کو ہراساں کرنے کے سنگین الزامات کے علاوہ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی وڈیوز پر بھی شرمندگی اور ندامت کا دور دور تک کوئی شائبہ نہیں۔ اس افسوسناک واقعہ کو کئی دن تک چھپانے اور ہینڈل کرنے کی کوششیں جاری تھیں لیکن میڈیا پر خبر آنے کے بعد اعلیٰ افسران کی روایتی پھرتیاں اور گھڑے گھڑائے بیانیے بھی سامنے آنا شروع ہو گئے۔ متعلقہ ضلع کے اعلیٰ پولیس افسر کی طرف سے سامنے آنے والے بیان میں اس واقعہ کا جواز اور توجیہات پیش کرنے کے لیے الفاظ کا گورکھ دھندا استعمال کیا گیا ہے لیکن سیاحوں کے ساتھ بدسلوکی کی وڈیو ان سبھی عذروں اور جوابات کی دھجیاں اُڑانے کے لیے کافی ہے۔ یہ افسران تو ایک وڈیو بیان اور چند ہینڈ آؤٹ جاری کرنے کے بعد یقینا اپنے کاموں میں مگن ہو گئے ہوں گے لیکن اس واقعہ سے دنیا بھر میں پاکستان کا منفی امیج گیا ہے۔ اس امیج کے خدوخال تودہشت گردی کی وجہ سے پہلے ہی سے بگڑے ہوئے تھے‘ رہی سہی کسر اس واقعہ نے پوری کر ڈالی۔ جہاں پوسٹنگ ٹرانسفر سے ٹینڈر کی اور گورننس کی سبھی حجتوں سے مصلحت‘ مجبوری اور بے بسی کی بُو آتی ہو وہاں ایسے واقعات تو معمول کا حصہ ہیں۔ اب بھی اگر غیرملکی سیاحوں کی جگہ مقامی سیاح ہوتے تو نہ یہ واقعہ رپورٹ ہونا تھا اور نہ ہی ان سیاحوں کی سستے میں گلو خلاصی ہونا تھی۔ ان پر جھوٹے سچے کیسز کی بوچھاڑ کے علاوہ تھانے کی روایتی مہمان نوازی کے نجانے کتنے راؤنڈ چل چکے ہوتے۔ جب غیرملکی سیاحوں کا معاملہ بگڑا اور اُچھلا تو پولیس اور انتظامیہ کی دوڑیں لگ گئیں۔ معاملہ سنبھالنے کا تاثر دینے کے لیے متاثرہ سیاحوں کے ساتھ منت سماجت سے ایک فوٹو سیشن بھی احتیاطاً کروا لیا گیا تاکہ سند رہے اور بوقتِ ضرورت کام آ سکے اور یہ تاثر بھی چلا جائے کہ انتظامیہ جاگ چکی ہے۔
ایسے واقعات یونہی نہیں ہوتے‘ اعلیٰ افسران کے رویے ہی لاقانونیت اور بدسلوکی کو پروان چڑھاتے ہیں۔ حالیہ کئی کالموں میں توجہ دلا چکا ہوں کہ سوشل میڈیا پر نظر آنے والے پولیسنگ اور ریفارمز کے اثرات تو صوبائی دارالحکومت میں نچلی سطح پر نہیں پہنچے جبکہ دور دراز کے اضلاع کا تو باوا آدم ہی نرالا ہے۔ سوشل میڈیا پر چند ایک سرگرمیوں کی فوٹیج وائرل کرکے نہ لا اینڈ آرڈر میں بہتری لائی جا سکتی ہے اور نہ ہی ماتحت افسران اور فیلڈ فورس کے رویوں میں۔ گھنٹوں اعلیٰ سطحی اجلاس اور فیلڈ کے دورے پولیسنگ کے معانی اور معیار پر ہرگز پورے نہیں اُترتے‘ جب تک جزا اور سزا کے علاوہ کڑی مانیٹرنگ کا نظام زندہ نہیں کیا جائے گا‘ سبھی کچھ جوں کا توں جاری رہے گا۔ آئی جی صاحب کی عوامی طبیعت اور آسان رسائی کے چرچے سوشل میڈیا پر وائرل ہیں‘ تھانوں کی اَپ گریڈیشن اور تزئین و آرائش بھی جہاں ان کے وژن کا کمال ہے وہاں جابجا پولیس کے خدمت مراکز پر شب و روز سروسز کی فراہمی بھی احساسِ عوام کا اعلیٰ نمونہ ہے لیکن کوئی انہیں بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا کہ بیشتر تھانوں کو فراہم کی گئی رقوم تزئین و آرائش پر اٹھنے والے اخراجات کا نصف یا اس سے بھی کم ہیں۔ ایسے حالات میں ایس ایچ اوز کے پاس کون سا الہ دین کا چراغ ہے جسے رگڑ کر وہ لاکھوں کے بقایا جات ادا کر پائیں گے؟ بالآخر یہ خسارہ کس کس کے کھاتے میں تقسیم ہو گا‘ داد رسی اور شنوائی کے لیے آنے والوں کے کھاتے میں یا جرائم پیشہ اور دیگر قابلِ اعتراض سرگرمیوں میں ملوث عناصر کے کھاتے میں‘ گویا تھانے تو شیش محل بنا ڈالے لیکن سسٹم کا گٹر جوں کا توں اُبل رہا ہے۔
حکومتی ترجیحات اور فقط ڈیجیٹل میڈیا پر نظر آنے والی پولیسنگ اورگورننس کا ماڈل دیکھ کر لگ بھگ تیس سال قبل شائع ہونے والا منو بھائی کا ایک کالم بوجوہ یاد آرہا ہے جو اس سے پہلے بھی اپنی کسی کالم میں شیئر کر چکا ہوں: ''اس زمانے میں ناکوں پر پولیس کا سارا فوکس شہریوں کے ''منہ سونگھنے‘‘ پر تھا جبکہ سٹریٹ کرائم سے شہریوں کی زندگی اجیرن تھی۔ منو بھائی نے اپنے کالم میں مشورہ دیا کہ پولیس کی ترجیح امن و امان ہونی چاہیے نہ کہ ساری توانائیاں ناکوں پر شہریوں کا منہ سونگھنے پر خرچ کر دی جائیں۔ اگر یہ عمل ناگزیر ہے تو اس کام کے لیے علیحدہ اسامی پید اکر لی جائے جو ''ایس ایس پی منہ سنگھاؤ‘‘ ہو سکتی ہے اور یہی افسر انسدادِ ''بوس و کنار‘‘ کے لیے بھی کام کر سکتا ہے۔ آئی جی پنجاب چودھری سردار محمد ڈی آئی جی کانفرنس کی صدارت کر رہے تھے اور کئی پولیس افسران پولیس کے حوالے سے منو بھائی کے کالم بعنوان ''ایس ایس پی منہ سنگھاؤ‘‘ پر سخت برہم اور انہیں سبق سکھانے کے لیے بے تاب تھے۔ چند ایک پولیس افسران تو اس پر بھی بضد تھے کہ منو بھائی کو نشانِ عبرت بنا دیا جائے تاکہ آئندہ کسی کو پولیس کے خلاف لکھنے کی جرأت نہ ہو۔ آئی جی پنجاب چودھری سردار محمد صاحب اپنے افسران کے آگے بے بس دکھائی دیتے تھے جبکہ وہ ذاتی طو رپر اس جارحانہ ردّعمل کے بالکل حق میں نہ تھے۔ ایسے میں ایک ڈی آئی جی نے نہ جانے کیسے منوبھائی کو خبر کرا دی کہ آپ کے بارے میں پولیس کے ارادے کچھ ٹھیک نہیں۔ منو بھائی نے اطلاع پاکر اوپر بات کی تو چیف سیکرٹری کا دورانِ کانفرنس آئی جی سردار محمد صاحب کو فون آگیا کہ اگر کسی افسر نے منو بھائی کے حوالے سے کوئی غیر قانونی ہتھکنڈا استعمال کیا تو وہ سیدھا گھر جائے گا اور حکومت کے لیے ایسی حرکت قطعی قابلِ برداشت نہ ہوگی‘‘۔
منو بھائی کے مذکورہ کالم سے انسپائر ہو کر ایک مشورہ پیشِ خدمت ہے کہ جہاں دیگر نئی اسامیاں پیدا کر کے افسران کو کھپایا جا رہا ہے وہاں ڈی آئی جی سوشل میڈیا کی اسامی بھی پیدا کی جا سکتی ہے جس کے ماتحت ایس ایس پی وی لاگنگ‘ ایس ایس پی انسٹاگرام‘ ایس ایس پی فیس بک اور ایس ایس پی یوٹیوب وغیرہ وغیرہ بھی ایڈجسٹ ہو سکتے ہیں۔ ایسا کرنے سے یقینا اعلیٰ حکام کی ترجیحات کو نہ صرف مزید تقویت ملے گی بلکہ فقط سوشل میڈیا پر نظر آنے والی کارکردگی اور سرگرمیوں کو بھی چار چاند لگ سکتے ہیں۔ اس کالم کی اشاعت کے بعد اس قراردار کا خدشہ بھی برابر موجود ہے جو اُس زمانے میں ڈی آئی جی کانفرنس کے دوران منو بھائی کے کالم پر سیخ پا ہوکر منظور کی گئی تھی۔ منو بھائی کو تو بروقت کسی بھلے مانس نے مطلع کر دیا تھا‘ ممکن ہے کہ مجھے کوئی بھلا مانس میسر ہی نہ آسکے۔ سدا بادشاہی اللہ کی۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved