اس حقیقت کو سمجھتے اور مانتے ہی بنتی ہے کہ گزرتے ہوئے وقت کے ساتھ ساتھ پیچیدگیاں بڑھتی جارہی ہیں۔ بعض پیچیدگیوں کی نوعیت ایسی ہے کہ اُنہیں شناخت کرنا بھی دردِ سر ہے۔ جسمانی الجھنیں اپنی جگہ اور ذہنی پیچیدگیاں اپنی جگہ۔ کتنی ہی کوشش کر دیکھیے‘ ذہن ایسا الجھا رہتا ہے کہ سلجھنے پر مائل ہی نہیں ہوتا۔ دنیا بھر میں سماجی اور نفسی امور کے ماہرین اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ اب ساری توجہ معاشی معاملات پر مرکوز نہیں کی جاسکتی کیونکہ اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والا عدم توازن معاشی الجھنوں سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ زمانے کی روش ایسی بدلی ہے کہ اب تمام معاملات گھوم پھر کر معاشی معاملات و مفادات کی چوکھٹ تک پہنچ جاتے ہیں۔ یہ رجحان انتہائی خطرناک ہے۔ انسان ہر معاملے میں صرف معاشی مفادات کے حوالے سے سوچنے کا عادی ہوچکا ہے۔ زندگی کی بنیاد سے جُڑا ہر معاملہ اس قابل نہیں کہ اُس پر زیادہ توجہ دی جائے کیونکہ بہت سے معاملات ہم سے زیادہ توجہ چاہتے ہیں اور چند ایک ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے بارے میں بھول کر بھی نہیں سوچنا چاہیے۔ بعض ذہنی پیچیدگیاں ایسی ہیں جن کا بروقت علم نہیں ہو پاتا اور جب علم ہوتا ہے تب تک وقت اِتنا گزر چکا ہوتا ہے کہ تدارک کی صورت نکالنا دردِ سر ہو جاتا ہے۔ تنہائی کا احساس بھی ایسی ہی پیچیدگی ہے۔ یہ ایک بڑا بحران ہے جو دھیرے دھیرے ہمارے حواس کے پیروں تلے سے زمین سرکا رہا ہے۔ دی گلوبل سٹیٹ آف کنکشنز نامی تحقیقی گروپ نے اپنی حالیہ رپورٹ میں بتایا ہے کہ دنیا بھر میں کم و بیش سوا ارب افراد کسی نہ کسی سطح پر تنہائی کے احساس سے دوچار ہیں۔ شدت کا فرق ضرور ہے؛ تاہم اِن میں سے ہر ایک کو تنہائی کے احساس کا سامنا ہے اور وہ بھی اس طور کہ جان چھڑانا مشکل ہوگیا ہے۔
تنہائی چونکہ کوئی باضابطہ بیماری نہیں اور اس کے لیے دوائیں ہیں نہ ہسپتال‘ اس لیے اسے بروقت شناخت کرنا انتہائی دشوار ہے۔ آج ہر انسان کسی نہ کسی ذہنی پیچیدگی سے دوچار ہے۔ مکمل نارمل انسان نام کی کوئی چیز اب اس سیارے پر نہیں پائی جاتی۔ کوئی بھی انسان یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ وہ مکمل طور پر نارمل‘ مکمل ذہنی توازن کی حالت میں ہے۔ کیا آپ اپنے بارے میں یہ دعویٰ کرسکتے ہیں کہ جو کچھ بھی آپ کرتے ہیں وہ سب کا سب نارمل ہے؟ مختلف معاملات میں آپ کا ردِعمل مکمل طور پر متوازن ہوتا ہے؟ یا ہوسکتا ہے؟ ایسا ممکن ہی نہیں! بہت سے عوامل‘ بہت سے حالات اور معاملات آپ کے ذہن پر بھی اثر انداز ہوتے رہتے ہیں۔ آپ اپنے ماحول سے ہٹ کر نہیں جی سکتے، یا یوں کہیے کہ ڈھنگ سے نہیں جی سکتے۔ آپ نے اُن لوگوں کو بھی دیکھا ہوگا جو اپنے ماحول سے بے نیاز ہوکر زندگی بسر کرتے ہیں۔ اُن کے معاملات کا جائزہ لیجیے تو اندازہ ہوگا کہ اُن کی زندگی میں اچھا خاصا جھول پایا جاتا ہے۔ کوئی توجہ دلائے بھی تو وہ دھیان نہیں دیتے اور اپنی پسندیدہ روش پر گامزن رہتے ہیں یعنی بے نیازی ہی کو حرزِ جاں بنائے رکھتے ہیں۔ تنہائی کیا ہے؟ انسان کب تنہا رہ جاتا ہے یا اُسے یہ محسوس ہوتا ہے کہ لوگوں نے اُسے چھوڑ دیا ہے؟ ہم اپنے حوالے سے بات کریں تو کیا پورے تیقن سے یہ بتاسکتے ہیں کہ ہم تنہا ہیں یا نہیں ہیں؟ کسی بھرے پُرے کمرے میں داخل ہوکر وہاں موجود لوگوں کے بارے میں اندازہ لگائیے۔ کون تنہا ہے؟ وہ جو کسی کونے میں بیٹھا ہے اور کسی سے بات نہیں کر رہا یا پھر وہ جو سب کے ساتھ ہنس ہنس کر باتیں کر رہا ہے؟ کیا ہر ہنستا گاتا انسان اپنے احساسِ تنہائی کو شکست دے چکا ہے؟
ہم شاید ہی اندازہ لگا پائیں کہ حقیقی تنہا کون ہے کیونکہ یہ کیفیت کئی پرتیں رکھتی ہے۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان اس قدر تنہا محسوس کر رہا ہوتا ہے کہ لوگوں سے خوب ملتا ہے اور ہنس ہنس کر باتیں کرکے اپنے احساسِ تنہائی کو شکست دینے کی کوشش کرتا ہے۔ دوسری طرف ایسے لوگ بھی ہیں جو بالکل خاموش اور الگ تھلگ رہتے ہیں مگر اُن میں احساسِ تنہائی نہیں پایا جاتا، وہ اپنے وجود سے خوش اور مطمئن رہتے ہیں اور کسی بھی مرحلے پر اُنہیں کسی حوالے سے تاسّف کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ یہ وصف خود بخود پیدا نہیں ہوتا بلکہ خاصی توجہ اور محنت سے پروان چڑھانا پڑتا ہے۔
تنہا رہ جانے کا احساس کیا ہوتا ہے؟ کیا کوئی شخص اُس وقت تنہا ہوتا ہے جب لوگ اُس سے تعلقات ختم یا کم کردیتے ہیں؟ کیا ہر اُس انسان کو تنہا سمجھنا چاہیے جو الگ تھلگ رہتا ہو؟ شور و غل سے نفرت کرنے والے ہر انسان کو احساسِ تنہائی کا مارا ہوا سمجھنا چاہیے؟ کیا ہر چڑچڑے انسان کے بارے میں یہ رائے قائم کی جاسکتی ہے کہ وہ تنہا رہ جانے کے باعث ایسا ہے؟ ماہرین اس حوالے سے مختلف آرا کا اظہار کرتے ہیں۔ اُن کے خیال میں کسی سے ترکِ تعلق احساسِ تنہائی پیدا کرنے والا محض ایک عامل ہے۔ لازم نہیں کہ کسی کا احساسِ تنہائی صرف اس امر کا نتیجہ ہو کہ لوگوں نے اُسے چھوڑ دیا ہے یا اُس سے تعلقات محدود کرلیے ہیں۔ کسی بھی انسان کا احساسِ تنہائی بہت سے عوامل کا نتیجہ ہوسکتا ہے۔ لازم نہیں کہ لوگوں سے دور رہنے ہی پر تنہائی محسوس کی جائے۔ کوئی بھری محفل میں بھی تنہا ہوسکتا ہے۔ اس کیفیت کو صباؔ اکبر آبادی نے یوں بیان کیا ہے ؎
بھیڑ تنہائیوں کا میلہ ہے
ذرا سوچیے‘ یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ کہیں بہت سارے لوگ جمع ہوں اور اُن میں سے ہر ایک خود کو تنہا محسوس کر رہا ہو! ایسا کب ہوتا ہے؟ کوئی بھی انسان خود کو بھیڑ میں تنہا کب محسوس کرتا ہے؟ ایسا بالعموم اُس وقت ہوتا ہے جب انسان بے جام شرم کا شکار رہتا ہے، اپنے دل کی بات کسی کو نہیں بتاتا اور کسی دوسرے طریقے سے بھی دوسروں تک نہیں پہنچاتا۔ سماجی اور نفسی امور کے ماہرین کہتے ہیں کہ تنہائی کا احساس محض ایک مرحلہ نہیں کہ آئے اور گزر جائے۔ ضروری نہیں کہ یہ وقتی کیفیت ہو۔ کسی انسان میں یہ کیفیت دائمی بھی ہوسکتی ہے اور یہ بھی لازم نہیں کہ اِس کا تعلق ماحول یا معاشرے کے عمومی مزاج سے ہو۔ ہوسکتا ہے کسی کے مزاج میں جھجھک، اضطراب، مخاصمت اور اُداسی بہت زیادہ ہو اور عزتِ نفس کے احساس کا گراف خاصا گرا ہوا ہو۔ جو لوگ اپنے بارے میں بتانے سے گریزاں رہتے ہیں وہ بالآخر شدید احساسِ تنہائی کے گڑھے میں جا گرتے ہیں۔ تنہا رہنے والے یا رہ جانے والے لوگ بالعموم قنوطیت پسند مزاج کے حامل ہوتے ہیں۔ اِس سے پتا چلتا ہے کہ زندگی کے بارے میں اُن کا ادراک کیا ہے یعنی وہ زندگی کے بارے میں کس حد تک پُرامید اور پُرعزم ہیں۔
2021ء میں سماجی امور کے معروف محقق سٹیو کول نے بتایا کہ تنہائی بہت سے ذہنی اور جسمانی عوارض کے لیے کھاد کا کام کرتی ہے۔ متعدد مطالعوں اور تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ تنہائی انسان کو جسمانی عوارض کی چوکھٹ تک پہنچادیتی ہے اور یوں زندگی کا دورانیہ گھٹ سکتا ہے۔ تنہائی انسان کو نیند میں خلل، گٹھیا، اختلاجِ قلب، ہائپر ٹینشن اور موٹاپے کی طرف دھکیل سکتی ہے۔ بہتر سماجی تعلقات کی شدید کمی سے بہت سی دوسری بیماریاں بھی لاحق ہو سکتی ہیں۔ ماہرین کہتے ہیں کہ تنہائی کی شدت خون کی شریانوں میں لوتھڑے بھی بناسکتی ہے، رعشہ پیدا کرسکتی ہے اور سرطان کے خلیوں کو بھی پروان چڑھاسکتی ہے۔ زیادہ آبادی والے ملکوں میں یہ کیفیت زیادہ ستم ڈھاتی ہے۔ بڑے اور گنجان آباد شہروں کا بھی یہی معاملہ ہے۔ اُن میں فرد کی شناخت گم ہو جاتی ہے۔ بڑے شہروں میں فرد کی حیثیت وہی ہوتی ہے جو بڑے اور بپھرے ہوئے سمندر میں چھوٹی سی کشتی کی ہوتی ہے۔ ذہن پر دباؤ تیزی سے اور بڑے پیمانے پر مرتب ہوتا رہتا ہے۔ ایسی حالت میں حافظہ کمزور پڑنے لگتا ہے، ڈپریشن بڑھتا ہے اور دُہری شخصیت کا عارضہ بھی جی کا روگ بنتا جاتا ہے۔ ایسے میں چڑچڑے مزاج کا حامل ہو رہنا فطری امر ہے۔ جب ایسا ہو تو انسان سماجی تعلقات کے حوالے سے مزید خرابیوں کی طرف بڑھتا جاتا ہے۔ احساسِ تنہائی کو شکست دینے کے لیے تنہائی کو شکست دیجیے، معیاری میل جول بڑھائیے، دل کی بات کہنے سے نہ ہچکچائیے، کوئی الجھن ہو تو مشاورت کیجیے۔ سماجی زندگی کا تو یہی بنیادی تقاضا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved