موجودہ عالمی معاشی نظام غلط ہے‘ جمہوریت دراصل ایک فرعون کے اختیار کو سینکڑوں فرعونوں میں تقسیم کرنا ہے۔ انسانی حقوق اور حقوق نسواں کا نعرہ دراصل معاشرہ‘ خاندان اور معاشرتی نظام میں فساد پھیلاتا ہے۔ سود‘ بینکاری اور کاغذ کے نوٹوں کے گرد موجودہ نظام کی ساری عمارت تعمیر ہے جو نہ اپنی بنیادیں مضبوط رکھتی ہے اور نہ دنیا میں رہنے والوں کو سکون بخشتی ہے۔ میں گزشتہ چند سالوں سے ان موضوعات پر مسلسل لکھ رہا ہوں اور مسلسل کچھ لوگ ایسے ہیں جو سوال کرتے رہتے ہیں کہ اگر یہ سب غلط ہے تو متبادل کیا ہے؟ اگرچہ ان کالموں اور تحریروں کے بین السطور میں نے متبادل کا اشارہ بھی کیا لیکن اگر کہیں طویل گفتگو ہو جائے اور متبادل کے خدوخال اور طریق کار بتا بھی دیا جائے تو الٹا یہ سوال کردیا جاتا ہے کہ ایسا کون کرے گا؟ کس طرح سے ہوگا؟ یہ کیسے ممکن ہے؟ پوری دنیا ایک طرف چل رہی ہے اور ہم اس کے بالکل الٹ دوسری سمت اپنا سفر شروع کردیں۔ بہت سے احباب تنگ آ کر کہتے ہیں‘ تم اس سسٹم کے اندر ہی کوئی حل بتائو۔ یہ لوگ دین دار بھی ہوتے ہیں‘ نمازِ پنجگانہ کے پابند بھی‘ روزے بھی مسلسل اہتمام کے ساتھ رکھتے ہیں‘ ان کی اسلام سے محبت بھی شک و شبہ سے بالاتر ہے لیکن اس پورے موجودہ دجالی نظام کے شکنجے نے ان کے ذہنوں پر ایک ایسی جہالت مسلط کردی ہے جس کے پیچھے طاقتور دلیل جیتی جاگتی کامیاب دنیا کی رونقیں ہیں۔ اسی لیے ان کا سوال اپنے طور پر صحیح ہے کہ تاریخ کا پہیہ الٹا گھمانے کی بجائے اس عمارت کو ایسے ہی ٹھیک کر کے اسلام کے چند اصولوں کو تصویروں اور ڈیکوریشن کے دیگر فنون سے آراستہ کر کے اسے ہی اسلامی بنا دیا جائے۔ ان سے اگر یہ سوال کیا جائے کہ کیا آپ غلاظت کے ڈھیر پر بغیر مصلیٰ بچھائے اس جگہ کو پاک صاف سمجھ کر نماز پڑھ لیں گے تو غصے سے ان کی آنکھیں باہر آ جاتی ہیں۔ کوئی پوچھے کہ آپ روح افزا کی جگہ وسکی یا وائن سے روزہ کھول لیں گے تو وہ ایک دم کہیں گے کہ تم نے اسلام کو مذاق سمجھا ہوا ہے۔ ان میں سے کسی بڑے کاروباری شخص کو کہیں کہ ٹھیک ہے تم شراب کا کاروبار کرنے پر مجبور ہو لیکن دکان کا نام اپنے مسلمان ہونے کی وجہ سے مسلم وائن شاپ ہی رکھ لو تو وہ بولے گا کہ یہ تو میرا گناہ ہے میں پوری امت کو بدنام کیوں کروں‘ لیکن اس پوری امت کو کسی کمرشل بینک کے ساتھ مسلم یا اسلامی جیسے حروف پر کوئی حیرت نہیں ہوتی‘ اس لیے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ ایک عالمی سیاسی اور اقتصادی سسٹم کا حصہ ہے جس سے جان نہیں چھڑائی جا سکتی۔ اسی لیے ان لوگوں کے نزدیک ہر چیز کا متبادل وہی ہے جو اس مروجہ سودی معاشی اور اس کی بنیاد پر استوار جمہوری نظام کی حدود و قیود کے اندر رہ کر بنایا جائے۔ دو انتہائی شاندار الفاظ ہیں جو متبادل کی اس تلاش میں یہ لوگ بولتے ہیں، ’’آئین اور قانون‘‘۔ یعنی تبدیلی کا کوئی ایسا راستہ بتا دو جو آئینی اور قانونی ہو۔ اس کا مطلب ہے کہ اس پورے مروجہ نظام کی عمارت میں اسلامی کیلی گرافی کردو‘ ایک عبادت گاہ یعنی Prayer Corner بنا دو‘ اس کا مینار بلند اور گنبد نمایاں کردو تو دنیا بھر کی تمام آئینی اور قانونی طور پر بنی ہوئی عمارتوں کے سامنے یہ ایک اسلامی عمارت لگنے لگے گی۔ ایسا ہی متبادل ابوجہل کی سرکردگی میں کفارِ مکہ نے سید الانبیاءﷺ کو پیش کیا تھا۔ بلکہ وہ تو تمام سردارانِ مکہ کی سرداری تک آپﷺ کو دینے کو تیار تھے۔ ویسی ہی جمہوری طور پر منتخب صدارت جس کے ہاتھ بندھے ہوں جیسے ہمارے آج کے صدور اور وزرائے اعظم کے بندھے ہوتے ہیں۔ یہ تھی اسلام کی ابتدا… مروجہ سسٹم کے مقابلے میں بالکل اجنبی اور آج بھی ہم جب اس مروجہ سسٹم کے سامنے اسلام کے تصور حاکمیت و حکومت کو پیش کرتے ہیں تو یہ ایک ناقابل عمل اور اجنبی سا تصور محسوس ہوتا ہے۔ اس پوری صورت حال کو سیدالانبیاءﷺ نے واضح کیا ہے۔ یہ حدیث متفق علیہ ہے اور بخاری اور مسلم دونوں میں درج ہے۔ آپﷺ نے فرمایا ’’اسلام کی ابتدا بھی اجنبیت سے ہوئی اور آخری زمانے میں یہ اجنبیت کی طرف پلٹ جائے گا۔ پس اجنبی (مسلمانوں) کے لیے خوشخبری ہے‘‘۔ یہ اجنبیت وہ انوکھا پن ہے جو آج کے مروجہ آئین‘ قانون‘ طرز معاش و معاشرت اور طرز حکومت میں ضم نہیں ہوتا۔ اس کی بنیاد بھی علیحدہ ہے اور اس عمارت کی ایک ایک اینٹ مختلف ہے۔ وہ آئین جو دنیا کے دو سو کے قریب ممالک کے آئینوں کی نقل ہے اور ا س میں چند اسلامی شقیں ڈال کر ہم نے اسے اسلامی بنایا ہے ۔اس کی کوکھ سے متبادل جنم نہیں لے سکتا۔ وہ جمہوریت جس کا پودا کارپوریشن اور سودی بینکاری کے سرمائے سے جنم لیتا ہے‘ اس کی روح سے اسلام کا طرزِ حکومت اور حاکمیت بالکل متصادم ہے۔ حیرت یہ ہے کہ جمہوریت کو آخری سچائی سمجھنے والے لوگ اپنا کوئی بھی اہم کام جمہوری اصولوں کے مطابق نہیں کرتے بلکہ اسلام کے اس اصول پر کرتے ہیں جو اس نے انسانی فطرت کے عین مطابق بتایا کہ اہل الرائے سے مشورہ کرو۔ انہیں پلاٹ خریدنا ہو‘ مکان بنانا ہو‘ کسی کاروبار کا آغاز کرنا ہو‘ حتیٰ کہ اولاد کی شادی کرنا ہو تو ان لوگوں سے مشورہ کرتے ہیں جو ان معاملات میں اہل الرائے ہوتے ہیں۔ کبھی کسی نے محلے میں الیکشن کروا کر یہ نہیں کہا کہ میں اپنے بیٹے کی شادی فلاں جگہ کروں یا نہ کروں۔ ان کا اگلا سوال یہ ہوتا ہے کہ کون بتائے گا کہ اہل الرائے کون ہیں؟ لیکن جب خود کوئی اہم کام سرانجام دینا ہو تو ان کو ڈھونڈنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی۔ لیکن کارِ حکومت و حکمرانی کے با رے میں یہ تصور پیش کرتے ہیں کہ ہر شخص ،خواہ اسے کسی معاملے کا علم تک نہ ہو ،حکمران منتخب کرنے میں اپنی رائے دے۔ پوری دنیا میں ایک صدی سے زیادہ عرصہ سے یہ جمہوری نظام چل رہا ہے لیکن آج تک اس کے نتیجے میں کسی ایک ملک میں بھی صاف ستھری اور عوام کی صحیح نمائندہ حکومت منتخب نہیں ہو سکی۔ سب کی سب کارپوریٹ کلچر کے سرمایہ اور پارٹی فنڈز کی مرہون منت ہیں۔ سب کی سب انہی کے اشاروں پر رقص کرتی ہیں۔ ہر ملک میں مختلف قسم کے قبضہ گروپ ہیں جو ووٹوں پر قابض ہوتے ہیں۔ ان کا معاشروں پر غلبہ ہوتا ہے۔ میرے ملک میں یہ قبضہ گروپ چھوٹی چھوٹی بستیوں اور دیہاتوں تک پھیلے ہوئے ہیں۔ ان کی بدمعاشی‘ دھونس اور اجارہ داری کے سائے میں ووٹ دیے جاتے ہیں۔ اسلام سب سے پہلے اس غلبے کو ختم کرنے کا حکم دیتا ہے اور پھر ان کی جگہ شرفاء اور متقی لوگوں کے غلبے کو قائم کرنے کے لیے کہتا ہے۔ اس کے بعد رائے‘ ووٹ اور اسلام کی جمہوری اقدار کی باری آتی ہے۔ کنویں سے کتا نکال کر پانی کے ڈول نکالو تو پانی پاک ہوتا ہے۔ جب یہ بات ہوتی ہے تو پھر سوال ہوتا ہے یہ سب کون کرے گا؟ حیرت کی بات یہ ہے کہ جو لوگ ایک سو سال تک دنیا میں کمیونسٹ انقلاب لانے کی کوشش کرتے رہے اور پھر روس‘ چین اور دیگر پچاس کے قریب ملکوں میں یہ انقلاب لے آئے‘ انہوں نے کبھی اپنے لیڈروں سے سوال نہ کیا کہ یہ کیسے ہوگا‘ بس دھن میں لگ گئے اور منزل پا لی۔ کہا جاتا ہے کہ آخر 75 سال بعد وہ فیل ہو گئے لیکن کیا آج دنیا بھر میں مغربی جمہوریت اور سودی بینکاری کا نظام اسی دہانے پر نہیں جس پر آج سے بیس سال پہلے اشتراکی نظام تھا۔ اسلام کا نظام چھوٹی سی ریاستِ مدینہ سے پورے جزیرہ نمائے عرب تک پھیلتا ہے۔ پورے جزیرہ نمائے عرب میں ووٹ کی طاقت سے نہیں آتا۔ آپ کسی ایک شہر‘ گائوں یا قصبے میں وہ تمام طریقِ کار نافذ کر کے دیکھیں ‘ وہ تمام قوانین جو اللہ نے نافذ کرنے کا حکم دیا ہے انہیں لاگو کر کے دیکھیں ‘ لوگ خود اس کی جانب راغب ہوں گے۔ وہ اسلام جو عہدے کی خواہش کو حرام قرار دیتا ہے وہاں صاحبِ منبر و محراب بھی اپنی کنویسنگ کر رہا ہوتا ہے۔ کیا کسی محلے میں خفیہ رائے دہی سے یہ نہیں پوچھا جا سکتا کہ تم میں قابل اور متقی کون ہے؟ یہ وہ محلے ہوں جنہیں Primaries کہا جائے‘ ان میں سے ایک لاکھ کے قریب متقی لوگ بغیر ان کی خواہش کے اکٹھے کیے جا سکتے ہیں‘ جہاں سے شہر اور علاقوں کے بہترین اور اقتدار کی خواہش سے دُور افراد اکٹھے ہو سکتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو کسی ایک شخص کی بیعت پر متفق ہو سکتے ہیں۔ ایسا شخص جو قابل ہو لیکن اللہ کے خوف سے حکومت کی ذمہ داریوں سے دور بھاگتا ہو۔ لیکن اس کے لیے آپ کو آئین ازسرنو بنانا پڑے گا۔ ایسی جمہوریت کا خاکہ بنانا ہوگا جو اللہ اور اس کے رسولﷺ کے اصولوں کی تابع ہو۔ لیکن ہم تو ابھی تک یہ تصور کیے بیٹھے ہیں کہ پوری دنیا سے کٹ کر کیسے زندہ رہیں گے۔ یہی سوال اگر مکے میں رسول اللہﷺ کے ساتھی سوچنا شروع کر دیتے تو سب کچھ ختم ہو جاتا۔ جیسے وہ اس سسٹم میں اجنبی تھے ایسے آج ہم اس سسٹم میں اجنبی ہیں۔ بے وقوف‘ جاہل‘ فرسودہ‘ دقیانوس‘ دنیا کی دوڑ سے پیچھے رہ جانے والے۔ کامیاب تو وہ ہیں جو وسکی کے گلاس سے روزہ نہیں کھولتے کہ حرام ہے لیکن اس شربت سے روزہ کھولنے میں انہیں کوئی کراہت نہیں ہوتی جس کی فیکٹری کی بنیادوں میں سود پر لیے گئے قرضے کی رقم ہوتی ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved