بڑی سخت بحث چل رہی ہے۔ وہ بحث جس میں فریقین اپنے تعلقات بھی داؤ پر لگا دیتے ہیں۔ میں موجودہ انتخاب پر کچھ لکھنا نہیں چاہتا تھا لیکن اب آٹھ فروری کا دن سر پر آن پہنچا ہے تو بتانا پڑ رہا ہے کہ یہی بحث زور و شور سے میرے وجود کے گھر میں کئی مہینوں سے چل رہی ہے۔ سوال بہت بنیادی اور بہت بڑا ہے۔ ووٹ اس بار کسے ڈالا جائے؟ ایک فریق میں ہوں اور دوسرا میرا حافظہ۔ اور وہی مجھ پر غالب ہے۔
اس بات پر تو دونوں متفق ہیں کہ ووٹ گواہی ہے اور گواہی چھپانی نہیں چاہیے۔ اس بات پر بھی دونوں کا اتفاق ہے کہ سیاست سے بہت دور بلکہ کنارہ کش شخص کے لیے یہی وقت اپنا حصہ شامل کرنے کا ہوتا ہے۔ لیکن ان دو نکات کے بعد اتفاق ختم ہو جاتا ہے‘ صرف گرما گرم بحث اور بے عزتی رہ جاتی ہے۔ مسئلہ سیاسی جماعتوں اور ان کے ریکارڈ کا ہے۔ اور ریکارڈ ماضی کی طرح ہوتا ہے۔ نہ ربر سے مٹایا جا سکتا ہے‘ نہ کسی سیاہی سے چھپایا جا سکتا ہے۔ ایک بار پتھر پر لکیر لگ گئی تو لگ گئی۔
آغاز اس طرح ہوا کہ میں نے کہا ''سو فیصد اطمینان تو مجھے اب بھی نہیں لیکن مجھے موجودہ سیاسی جماعتوں میں بہتر (ن) لیگ ہی لگ رہی ہے۔ بہتر کا مطلب سمجھ لیں۔ کم تر برائی کا انتخاب ہی اگر واحد امکان رہ گیا ہو تو شاید (اور یہ ''شاید‘‘ اہم ہے) مسلم لیگ(ن) ہی کم تر برائی ہے۔ کچھ باتیں ماننا پڑتی ہیں۔ کچھ بھی ہو‘ موٹر ویز کی ابتدا بھی اسی نے کی‘ کام کسی کا بھی ہو‘ اصل کریڈٹ کسی کا بھی رہا ہو‘ ایٹمی دھماکے اسی کے دور میں ہوئے۔ ملک میں کچھ نہ کچھ ترقی نواز شریف کے آخری دور تک ہوتی رہی اور مہنگائی‘ افراطِ زر کا عفریت بھی اس طرح ناچتا نظر نہیں آتا تھا۔ 'کھاتے ہیں تو لگاتے بھی تو ہیں‘ والے لوگ ان سے بہرحال بہتر ہیں جو صرف کھاتے ہیں اور صرف کھاتے ہیں‘‘۔ میں نے کم تر برائی ثابت کرنے کے لیے کئی اور مثالیں بھی دیں۔ گھر کے ایک کونے میں میرا حافظہ بھی چپ چاپ بیٹھا ہوا تھا۔ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ وہ ایسے پھٹ پڑے گا۔ بات مکمل ہوئی بھی نہیں تھی کہ اس نے تلخ اور تیز لہجے میں بولنا شروع کردیا۔ ''جی ہاں! یہ وہی لوگ نہیں ہیں جو ہر دور میں کسی نہ کسی طرح اقتدار میں آنے کے راستے ڈھونڈتے‘ لوگوں کو استعمال کرتے رہے اور جب کرسیوں پر بیٹھ گئے تو مرکز میں ضلع لاہور‘ ضلع سیالکوٹ اور ضلع گوجرانوالہ کی حکومت تھی اور بس۔ یہ وہی جماعت ہے نا جس میں ایک خاندان خود کو‘ صرف خود کو سب سے بڑی کرسیوں کے لائق سمجھتا ہے‘ ان کے سوا نہ کوئی وزیر اعظم بن سکتا ہے‘ نہ وزیراعلیٰ۔ یہ وہی لوگ ہیں نا جو ہر بار اقتدار میں آکر اپنے منشور کو پاؤں کی ٹھوکر سے دور پھینک دیا کرتے ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں نا جو کرسی پر بیٹھ کر سب سے پہلے اپنے آپ کو مضبوط تر کرنے میں جت جاتے تھے‘ جو ریاستی اداروں کے سربراہوں سے کشتی شروع کر دیتے تھے۔ یہ وہی جماعت ہے نا جسے مرکز میں اقتدار نہیں ملا تو پنجاب کارڈ کھیلنا شروع کردیا اور مرکز میں بے نظیر حکومت کو گرانے اور تنگ کرنے کی ہر ممکن کوششیں کرتی رہی۔ یہ وہی جماعت ہے نا جس نے عدالتِ عظمیٰ پر حملہ کیا تھا۔ اس جماعت کے ہر دور میں قیادت کے نا اہل‘ نالائق اور مفاد پرست دوستوں کو اعلیٰ مناصب پر فائز کیا گیا۔ وہ دن یاد ہے جب تم کسی اردو کانفرنس سے دل گرفتہ واپس آئے تھے کہ اس پوری کانفرنس میں نفاذِ اردو کے مطالبے کو ہر ممکن طریقے سے دبانے کی کوشش کی گئی تھی۔ اس دور کی وہ ادبی کانفرنسز یاد ہیں جن میں بینرز پر اردو کا ایک حرف دکھائی نہیں دیتا تھا۔ یاد ہے کہ تم خود کہا کرتے تھے کہ ایسی بے روح‘ پھیکی‘ جذبے سے عاری‘ تقریریں اور خطاب اس جماعت کی قیادت کے سوا کوئی اور نہیں کر سکتا۔ ایسے پھوکے الفاظ جنہیں زبان پر لاتے ہوئے دل کی ایک رَمق شامل نہ ہو سکے۔ وہ وزیراعظم یاد ہے جسے براک اوباما کے سامنے پرچی کے بغیر دو جملے بولنا مشکل تھا۔ یاد ہے لندن کے کتنے ذاتی دورے موصوف نے صرف پچھلے دورِ اقتدار میں کیے۔ یاد ہے کہ کتنے ممالک کے بے فائدہ دورے شاہی خرچ پر شاہی لشکر کے ساتھ کیے گئے۔ توشہ خانے سے گاڑی نکلوا لینا‘ جو کسی ضابطے کے تحت ممکن ہی نہیں تھا‘ یاد ہے؟ جب آزمائشوں کا دور ہو تو ہر بار کسی نہ کسی بہانے بیرونِ ملک چلے جانا یاد ہے؟‘‘۔
حافظے کی تقریر بے تکان جاری تھی کہ میں نے ٹوکا ''بھائی! میں انہیں فرشتہ نہیں کہہ رہا۔ صرف کم تر برائی کہا ہے۔ کیا یہ دوسروں کے مقابلے میں کم تر بھی نہیں؟ سب کے مقابلے میں یہی تو خاندانی لوگ ہیں‘‘۔ حافظہ بولا: ''نہیں! ہرگز نہیں! خاندانی کا مطلب اگر اپنے خاندان کو امیر سے امیر تر بنانا‘ ہر صورت اپنے خاندان کو اقتدار میں رکھنا ہے تو بے شک خاندانی لوگ ہیں۔ اس خاندان کا آج تک یہ فیصلہ ہو سکا کہ یہ مقتدرہ کے خلاف ہے یا اس کے ساتھ؟ یا ہر دور میں چلتی ہوا کے ساتھ؟‘‘حافظے کی اونچی آواز اور اس کا غصہ دیکھ کر بات بدلنا ضروری تھا‘ ویسے بھی ان باتوں کی تردید ناممکن تھی۔ ''اچھا تو پیپلز پارٹی کو تو کم تر برائی مانوگے؟ ذوالفقار علی بھٹو کا یہ کارنامہ تو ہے کہ انہوں نے ایٹمی طاقت بننے کا آغاز کیا تھا۔ بینظیر نے بھی دباؤ کے باوجود اس پر مفاہمت نہیں کی۔ ان کے نڈر اور بہادر ہونے میں کیا شک ہے۔ پرویز مشرف جب حکومت میں تھے تو انہیں سکیورٹی رِسک بھی کہتے تھے لیکن انہیں بالآخر بینظیر ہی سے بات کرنا پڑی تھی اور یہی ان کے زوال کا آغاز تھا۔ آصف زرداری ہی نے تو انہیں نکال باہر کیا تھا۔ پھر سی پیک کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ پیپلز پارٹی کے دور ہی میں شروع ہوا۔ زرداری صاحب کو جو بھی کچھ کہو‘ یہ تو ماننا پڑے گا کہ ہوا کا رُخ دیکھ کر چلنے میں ان جیسا کوئی نہیں ہے۔ ہر طرف سے بنا کر رکھتے ہیں۔ جب چاہیں‘ جیسا چاہیں کر لیتے ہیں۔ سیاستدان آج کل ایسے ہی ہونے چاہئیں۔ گالی دیں اور پیر پکڑ لیں‘‘۔
مجھے حافظے کا چہرہ دیکھ کر خیال ہو رہا تھا کہ میری بات مکمل ہونے نہیں دے گا‘ لیکن بڑے تحمل کا ثبوت دیا اس نے۔ میں چپ ہوا تو بولا ''تو یہ ہے کم تر برائی آپ کے خیال میں۔ افسوس ہوا آپ کی کمزور یاد داشت پر۔ ذوالفقار علی بھٹو کے ایٹمی پروگرام سے پہلے کی یادداشت ختم ہو چکی آپ کی؟ جب انہوں نے مجیب الرحمن کی انتخابی برتری ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ وہ تو سقوطِ مشرقی پاکستان کے اہم ترین ذمہ داروں میں سے ہیں۔ اور چلیں پچاس سال دور مت جائیے۔ تیس سال کم و بیش ہو چکے‘ سندھ میں انہی کی حکومت ہے۔ مرکز میں بھی اسی دوران حکومت رہی۔ کیا کِیا سندھ کے ساتھ انہوں نے؟ سندھ کارڈ کھیلنے میں تو ایک منٹ نہیں لگاتے لیکن سندھ کا حال دیکھا آپ نے۔ یاد ہے تم سکھر‘ حیدر آباد کی سڑکوں پر ہچکولے کھاتے تھے اور سڑکوں‘ عمارتوں کی ویرانی دیکھ کر کہتے تھے کہ لگتا ہے یہاں کوئی بمباری ہوئی ہے۔ یاد ہے تم کراچی کے اسی ہال میں موجود تھے جب سندھ کے وزیراعلیٰ کی توجہ ایک خاتون نے کراچی میں گندگی کے ڈھیروں کی طرف دلائی تو جواب میں اس نے کہا تھا 'جن کو آپ ووٹ دیتے ہیں‘ ان سے پوچھئے نا‘۔ اشارہ ایم کیو ایم کی طرف تھا۔ وہی ایم کیو ایم جس کے یہ بارہا حلیف رہے۔ تیس سال بہت ہوتے ہیں ‘اگر کوئی سندھ کی حالت بدلنا چاہتا۔ اندرونِ سندھ کی حالت دیکھ لیں اور بڑے شہروں کے حالات دیکھ لیں۔ پھر یہ سب دیکھنے کے بعد ان کے اپنے حالات کی ترقی دیکھ لیں۔ اگر انہیں کم تر برائی سمجھتے ہیں تو آپ خود بڑی برائی ہوئے‘‘۔
باتیں درست سہی‘ یہ سراسر بے عزتی تھی لیکن کون سی پہلی بار ہوئی تھی۔ یقینا ابھی اور بھی ہونی تھی کہ ووٹ کی بحث ابھی جاری تھی (جاری)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved