عام انتخابات اب چند دن کی دوری پر ہیں‘ اس وقت انتخابی مہمات عروج پر ہیں۔بیشتر سیاسی جماعتیں اپنا اپنا منشور سامنے لا چکی ہیں۔ عام انتخابات میں مختلف نظریات و خیالات کی حامل جماعتیں حصہ لے رہی ہیں۔ اگر ان میں سے ٹاپ 20 جماعتوں کے انتخابی منشور پر ایک طائرانہ نظر ڈالی جائے تو بڑے دلچسپ حقائق سامنے آتے ہیں۔ اب تک جتنے بھی انتخابی منشور سامنے آئے ہیں‘ ان میں بڑی خوبصورت لفاظی سے کام لیا گیا ہے۔ ان میں لمبے چوڑے وعدے ہیں اور سب کا یہ دعویٰ ہے کہ اگر ان کی پارٹی کو منتخب کیا گیا تو پاکستان کے عوام کے سارے دکھ درد دور ہو جائیں گے۔ کچھ منشور عام آدمی کے لیے بڑے پُر کشش ہیں‘ وہ عام آدمی کی نبض پر ہاتھ رکھتے ہیں‘ مگر اصل سوال یہ ہے کہ کیا یہ منشور پاکستان کے زمینی حقائق سے میل کھاتے ہیں۔ اور کیا ان منشوروں میں مستقبل کا جو سحر انگیز نقشہ پیش کیا جاتا ہے اور جس طرح کے خواب دکھائے گئے ہیں‘ ان کو پورا کرنے کے لیے وسائل موجود ہیں۔ جس طرح کے دعوے منشوروں میں کیے جا رہے ہیں‘ ان کو سامنے رکھتے ہوئے تو کئی ترقی یافتہ ممالک بھی موجودہ سرمایہ دارانہ نظام کے اندر رہ کر اپنے عوام کو اس طرح کی مثا لی زندگی دینے میں ناکام رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ کچھ ایسے منشور بھی ہیں جو حقیقت پسندی کے عکاس ہیں۔ ہم ان سطور میں پیپلز پارٹی‘ مسلم لیگ (ن)‘ تحریک انصاف‘ عوامی نیشنل پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام(ف) جیسی جماعتوں کے منشور کے ساتھ ساتھ کچھ چھوٹی جماعتوں کے منشوروں کا جائزہ بھی لیں گے‘ جو اگرچہ انتخابات میں کوئی بڑی کامیابی تو حاصل نہیں کر سکتیں مگر انہوں نے اپنے منشور پر بڑی عرق ریزی کی ہے‘ جن کو بحث و مباحثے کا حصہ بننا چاہیے تاکہ عوام کا شعور بلند ہو۔
اگر حروفِ تہجی کے اعتبار سے دیکھا جائے تو عوامی ورکرز پارٹی کا منشور سب سے پہلے آتا ہے۔ یہ منشور تو کافی تفصیلی ہے لیکن عوام کی آسانی کے لیے اس کو مختصر کر کے دس جامع نکات میں پیش کیا گیا ہے۔ ان دس نکات میں سب سے پہلا نکتہ قبائلی و جاگیرداری باقیات کا خاتمہ اور بنیادی زرعی اصلاحات ہے۔ قبائلی و جاگیرداری باقیات ملک کی معاشی‘ سماجی اور سیاسی پسماندگی کی سب سے بڑی اور بنیادی وجہ ہیں۔ یہ ختم کیے بغیر ملک میں خوشحالی‘ ترقی اور سماجی انصاف کا تصور ہی نا ممکن ہے۔ جاگیرداری اور قبائلی باقیات کی وجہ سے نہ صرف ہزاروں کھیت مزدوروں اور کاشتکاروں کا استحصال ہوتا ہے بلکہ اس نظام کے زیرِ اثر سماجی فرسودگی اور پسماندگی پر مبنی خیالات اور فکر کو تقویت ملتی ہے۔ اس فرسودہ فکر کے ناگزیر اثرات سیاست پر پڑتے ہیں جس کی وجہ سے استحصالی‘ قدامت پسندانہ معاشی پالیسیوں کی حمایت کی جاتی ہے۔ ملک میں دولت کی غیر منصفانہ تقسیم اور آمریت پسندانہ سوچ کو مسلط کیا جاتا ہے۔ اس طرح یہ پاکستان کا نمبر وَن مسئلہ ہے اور منشور میں اس کو پہلا نکتہ قرار دینا ترقی پسندانہ سوچ کا اظہار ہے۔ اس منشور کا دوسرا بڑا نکتہ عورت ‘مرد اور دیگر صنفوں کی مکمل برابری ہے۔ پاکستان میں جنس کی بنیاد پر امتیازی سلوک اور استحصال ایک کھلی حقیقت ہے۔ ملک کی 50فیصد سے زائد آبادی کو جنس کی بنیاد پر روا رکھے جانے والے سلوک کی وجہ سے ان کے جائز حقوق اور مساوی مواقع سے محروم رہنا پڑتا ہے۔ صنفی برابری اور خواتین کو مکمل اور برابر کا نسان سمجھتے ہوئے عام دھارے میں شامل کیے بغیر ترقی کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا۔ اس منشور کا تیسرا نکتہ مذہب کی بنیاد پر امتیازی سلوک کا خاتمہ ہے۔ ملک میں مذہب کے نام پر امتیازی سلوک کا قصہ بہت پرانا ہے۔ اس موضوع پر انسانی حقوق کے ملکی اور غیرملکی اداروں سمیت ملک کا ہر ذی شعور اور صاحبِ رائے شخص اتفاق کرتا ہے کہ یہاں پر مذہب کے نام پر امتیازی سلوک کیا جاتا رہا ہے۔ اس موضوع پر ہزاروں مفصل رپورٹس اور سینکڑوں کتابیں اور دیگر دستاویزات موجود ہیں۔ اس مسئلے کا حل نکالے بغیر اور اپنی قوم کے تمام افراد کو برابری کا درجہ دیے بغیر کوئی قوم مہذب ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتی۔
اس منشور کا چوتھا نکتہ غیر جانبدار اور سامراج مخالف خارجہ پالیسی ہے۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے لیکن اس پر عوامی اور قومی سطح پر کھلے عام کوئی بحث مباحثہ کم ہی ہوتا ہے۔ گزشتہ دورِ حکومت میں خارجہ پالیسی کے حوالے سے بہت سارے بنیادی سوالات سامنے آئے۔ دنیا کی بڑی قوتوں کے ساتھ تعلقات کو عام جلسوں میں بھی زیر بحث لانے کی کوشش کی گئی۔ خود مختار اور غیر جانبدار پالیسی‘ جس میں کوئی ملک عالمی طاقتوں کے درمیان تصادم اور کشمکش کا حصہ نہ بنے ایک آزاد اور خود مختار پالیسی کے تحت ہی ممکن ہے۔ منشور کا پانچواں بڑا نکتہ ماحولیاتی نظر سے متوازن اور پائیدار ترقی ہے۔ اس وقت ماحولیاتی بگاڑ اور اس کے اثرات ملک کا ایک سنگین مسئلہ ہے جس کی سنگینی کا پورے طریقے سے ادراک نہیں کیا جا سکا۔ ملک کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں ماحولیاتی آلودگی اور گندگی ایک خوفناک مسئلہ ہے۔ بڑے شہروں میں تو اب سانس لینا بھی دشوار ہو چکا ہے۔ لوگ اس مسئلے کی وجہ سے نقل مکانی پر مجبور ہیں لیکن آج تک حکومت کی طرف سے اس مسئلے پر دھیان نہیں دیا گیا۔ اس مسئلے کو منشور کے بنیادی نکات میں شامل کرنا ایک اہم قدم ہے۔ اس منشور کا چھٹا بنیادی نکتہ اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی ہے۔ اختیارات کو گاؤں‘ بلدیات اور شہروں کو منتقل کرنا کئی حکومتوں کا نعرہ رہا ہے مگر اقتدار پر آتے ہی اس موضوع کو ہی گفتگو سے الگ کر دیا جاتا ہے۔ دنیا کی تمام کامیاب جمہوریتوں اور ترقی یافتہ ممالک نے ترقی کے لیے یہی راستہ اپنایا ہے‘ اختیارات کو میونسپل اور ٹاؤن کمیٹیوں کو منتقل کر دیا۔ اس کامیاب تجربے سے فائدہ اٹھانا پسماندہ اور ترقی پذیر اقوام کے لیے لازم ہے۔ اس منشور کا ساتواں اور اہم ترین نکتہ سب کے لیے مفت تعلیم اور صحت ہے۔ صحت اور تعلیم موجودہ عہد میں انسان کے بنیادی حقوق بن چکے ہیں۔ دنیا بھر میں حکومتیں مجبور ہو رہی ہیں کہ وہ اپنے شہریوں کو مفت تعلیم اور مفت صحت کی سہولتیں مہیا کریں۔ پاکستان جیسے ملک میں تعلیم اور صحت کی بلا امتیاز فراہمی ریاست کا بنیادی فریضہ ہونا چاہیے۔
منشور کا آٹھواں نکتہ تمام سیاسی حقوق کا تحفظ ہے۔ سیاسی حقوق کو لے کر پاکستان میں گزشتہ کئی برسوں سے جو کچھ ہو رہا ہے‘ وہ مایوس کن اور حیران کن ہے۔ یہاں آئے دن سیاسی آزادیوں پر قدغن لگتی ہیں‘ سیاسی اجتماعات پر پابندیاں لگا دی جاتی ہیں۔ ان حالات میں سیاسی حقوق کو منشور کا حصہ بنانا ناگزیر ہے۔ منشور کا نواں نکتہ حقیقی وفاقیت اور کثیر الاقوامی شناخت ہے۔ پاکستان میں قومیتوں کے حقوق کا سوال شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ دوسری طرف اٹھارہویں ترمیم کے باوجود مرکز اور صوبوں کے اختیارات کے واضح تعین کے لیے کئی اقدامات کی ضرورت ہے۔ اس منشور کا دسواں نکتہ روزگار اور رہائش کی ضمانت ہے۔ روزگار اور رہائش کے ساتھ خوراک کا ذکر بھی ہونا چاہیے تھا۔ ان انسانی ضروریات کو دنیا کے بیشتر کامیاب معاشروں میں ریاست کی بنیادی ذمہ داری قرار دیا گیا ہے۔ اس طرح یہ ایک بہت ہی ترقی پسندانہ منشور ہے جو جدید دنیا کے تقاضوں کے عین مطابق ہے۔ منشور لکھنے والوں کو اس سوال کا تفصیلی جواب بھی دینا چاہیے کہ اس طرح کے منشور پر عمل درآمد کے لیے کتنے وسائل درکار ہیں اور ان وسائل کا بندو بست کیسے کیا جائے گا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved