انتخابی مہم زور پکڑ چکی ہے۔ نواز شریف اور ان کے رفقا بھرپور جلسوں سے خطاب کر رہے ہیں۔ ہزاروں کیا لاکھوں افراد اُنہیں دیکھ کر نعرے لگاتے اور ماحول کوگرما دیتے ہیں۔ ہر جگہ اپنے دور (یا ادوارِ) حکومت کی جھلکیاں دکھاتے اور لوگوں کا حوصلہ بڑھاتے ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری بھی سرگرم ہیں‘ ملک بھر میں انہوں نے پُرجوش جلسوں سے خطاب کیا ہے۔ لاہور سے تو وہ بنفسِ نفیس انتخاب لڑ رہے ہیں‘ وہ لاہور جو کبھی پیپلز پارٹی کا مضبوط قلعہ سمجھا جاتا تھا اور جہاں ان کے نانا ذوالفقار علی بھٹو نے 1970ء کے انتخابات میں مصورِ پاکستان علامہ اقبالؒ کے فرزندِ ارجمند ڈاکٹر جاوید اقبال اور ''محافظِ لاہور‘‘ کہلانے والے میجر جنرل سرفراز خان کو شکست سے دوچار کیا تھا۔ 1965ء کی جنگ کے دوران جنرل سرفراز لاہور کے دفاع کے ذمہ دار تھے۔ بھارتی سورما تمام تر خواہش اور کوشش کے باوجود اِس شہر کو روند نہ سکے۔ لاہور کو فتح کرنے کے حوالے سے وہ اس قدر ''پُرعزم‘‘ تھے کہ یہ اطلاع پیشگی بین الاقوامی خبررساں اداروں کو فراہم کر دی تھی۔ بی بی سی نے اسے نشر کرکے اپنا منہ کالا کر لیا‘ دروغ گوئی کا یہ داغ آج تک اس کے لیے کلنک کا ایسا ٹیکا ہے جو دھویا نہیں جا سکتا۔ جنرل سرفراز کو ان کے مداحوں نے محافظِ لاہور کا خطاب دے رکھا تھا۔ وہ فوج سے ریٹائر ہونے کے بعد کوچۂ سیاست میں آ نکلے اور نوابزادہ نصر اللہ خان کے رفقا میں شمار ہونے لگے۔ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے مقابلے میں وہ بھی امیدوار بن گئے۔ ڈاکٹر جاوید اقبال اور جنرل سرفراز دونوں کے حامی ایک دوسرے کو دستبردار کرانا چاہتے تھے تاکہ بھٹو صاحب کا مقابلہ ان کے مخالفین متحد ہو کر کریں‘ ان کے ووٹ آپسی لڑائی میں تقسیم نہ ہو جائیں۔ ڈاکٹر جاوید کا تعلق کونسل مسلم لیگ سے تھا جبکہ جنرل سرفراز جمہوری پارٹی سے وابستہ تھے۔ جماعت اسلامی ڈاکٹر صاحب کی حمایت پر آمادہ نظر آئی تو نوابزادہ نصر اللہ خان سے ٹھن گئی۔ وہ مولانا مودودیؒ کے سامنے آ گئے۔ دھواں دار پریس کانفرنس کر ڈالی۔ یوں ''اسلام پسند‘‘ جماعتوں کا اتحاد پارہ پارہ ہو گیا۔ ڈاکٹر جاوید اقبال اور جنرل سرفراز دونوں صف آراء رہے لیکن دونوں ہاتھ ملتے رہ گئے‘ میدان بھٹو صاحب نے مار لیا۔ ڈاکٹر جاوید اقبال ایسے دِل شکستہ ہوئے کہ سیاست ہی کو خیر باد کہہ گئے۔ وکالت یوں کام آئی کہ عدالت کا دروازہ کھل گیا۔ جنرل یحییٰ کی حکومت کے دوران ہی انہیں لاہور ہائیکورٹ کا جج مقرر کر دیا گیا۔ جنرل سرفراز البتہ کوچۂ سیاست میں بھٹکتے رہے۔
بلاول بھٹو زرداری لاہور کے ایک حلقے سے قومی اسمبلی کے امیدوار ہیں۔ ان کے مقابلے میں مسلم لیگ(ن) کے عقابی نوجوان عطاء اللہ تارڑ ہیں۔ صدرِ پاکستان جسٹس رفیق تارڑ مرحوم کے پوتے۔ مسلم لیگ(ن) کا جھنڈا انہوں نے بہت مشکل حالات میں اٹھائے رکھا ہے‘ تندی اور تیزی سے حریفوں کو زچ کرنے میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھی۔ تحریک انصاف کے ایک آزاد امیدوار بھی میدان میں ہیں جبکہ جماعت اسلامی کے سید احسان اللہ وقاص اپنے وجود کا احساس دِلا رہے ہیں وہ اس علاقے سے صوبائی اسمبلی کے رکن رہ چکے‘ ان کا حلقۂ تعارف وسیع ہے اور وہ جان لڑانے کا ہنر جانتے ہیں۔ علامہ ڈاکٹر طاہر القادری کا صدر دفتر یہیں ہے‘ منہاج القرآن یونیورسٹی بھی یہیں قائم ہے‘ ڈاکٹر صاحب کے فرزندانِ ارجمند اور سیاسی خلیفہ خرم نواز گنڈا پور بلاول بھٹو کے لیے آنکھیں بچھائے ہوئے ہیں۔ سابق گورنر پنجاب چودھری محمد سرور بھی ان کے حق میں سرگرم ہیں‘ مسلم لیگ(ق) میں شمولیت کے باوجود یہ آزادانہ فیصلہ کر گزرے ہیں۔ پیپلز پارٹی ان کی پہلی محبت تھی جو نئے سرے سے ان کے دِل میں جگہ بنائے ہوئے ہے۔ لاہور پیپلز پارٹی کے ہاتھ سے نکلا تو آئی جے آئی سے ہوتا ہوا مسلم لیگ(ن) کے ہاتھ لگ گیا۔ لیاقت بلوچ‘ ڈاکٹر فرید پراچہ اور سید احسان اللہ وقاص کا پرچم یہاں لہرایا۔ نمائندگی کا حق حاصل ہوا لیکن آئی جے آئی ٹوٹی تو اس کا ترکہ مسلم لیگ(ن) نے سمیٹ لیا۔ قاضی حسین احمد کی فراست پھر کربلا میں لے آئی۔ تحریک انصاف منظر پر آئی تو چھاتی چلی گئی۔ اب سیاسی پنڈتوں کے نزدیک مسلم لیگ(ن) کے مقابل تمام تر مشکلات کے باوجود تحریک ہی نمایاں ہے۔ اس کے امیدوار اپنے انتخابی نشان سے محرومی کے بعد بھی ڈٹے ہوئے ہیں۔
بات کہاں سے شروع ہو کر کہاں نکل گئی‘ عرض یہ کرنا مقصود تھا کہ انتخابی عمل آگے بڑھ رہا ہے۔ نواز شریف کی توانائی بحال ہو رہی ہے۔ مریم نواز کے اعتماد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ شہباز شریف بھی پورا زور لگا رہے ہیں۔ تحریک انصاف کے ساتھ جو کچھ ہو چکا اور جو کچھ ہو رہا ہے‘ وہ ہر دیکھنے والی آنکھ کو صاف نظر آ رہا ہے۔ عمران خان کے خلاف مقدمات کے فیصلے ہو رہے ہیں‘ بشریٰ بی بی بھی زد میں ہیں۔ شاہ محمود قریشی کو بھی دس سال قید کی سزا سنائی جا چکی ہے۔ عمران خان سے اپنا اقتدار سنبھالا گیا نہ انتخابی سیاست۔ تحریک انصاف اپنے وکیل رہنماؤں کے نرغے میں ہے‘ اس کے حوالے سے انتخابی عمل بہت ناخوشگوار ہے لیکن انتخابات ہو جانا نہ ہونے سے کہیں بہتر ہے۔ 8فروری کو کیا ہو گا اور اس کے بعد کیا دیکھنے کو ملے گا‘ اس کی تفصیل میں جانے کا محل نہیں۔ ہر انتخاب کے بعد حکومت سازی ہوئی ہے اور اختلاف کی بنچوں پر بھی لوگ بیٹھے نظر آئے ہیں۔ 1977ء کے انتخابات کا معاملہ البتہ الگ رہا۔ دھاندلی اس طرح ہوئی کہ اس کے بعد حکومت چل سکی نہ سیاست۔ مارشل لاء تک نوبت پہنچی‘ جنرل ضیاء الحق کا جھنڈا گیارہ سال لہراتا رہا۔ اس کے علاوہ جتنے بھی انتخابات ہوئے دھاندلی کے الزامات لگانے کے باوجود ہارنے والوں نے انہیں تسلیم کیا۔ اسمبلیوں میں چپک کر بیٹھے رہے۔ 2018ء کے انتخابات پر بھی اعتراضات اٹھانے والے ایوان میں موجود رہے۔ عمران خان کو وزیراعظم سب نے تسلیم کیا‘ اسی اسمبلی سے شہباز شریف وزیراعظم بنے۔ سو آٹھ فروری کے بعد بھی حکومت بن جائے گی‘ اپوزیشن بھی موجود ہو گی۔
حکومت جو بھی بنائے‘ اقتدار جس کے بھی حصے میں آئے‘ اور اپوزیشن بنچ جس کو بھی نصیب ہوں‘ یہ بات کہی جا سکتی ہے اور کہی بھی جانی چاہیے کہ ماضی سے سبق حاصل کیا جائے۔ اہلِ سیاست ایک دوسرے کے ساتھ نہیں بیٹھیں گے‘ ایک دوسرے سے مکالمہ نہیں کریں گے‘ ایک دوسرے کو تسلیم نہیں کریں گے‘ ایک دوسرے کا حقِ اختلاف تسلیم نہیں کریں گے تو پھر پاکستانی سیاست باری کے بخار میں مبتلا رہے گی۔ کبھی ایک پر کپکپی طاری ہو گی تو کبھی دوسرے کو پسینے آئیں گے۔ جیلوں کو آباد کرنے والے بدلتے رہیں گے لیکن جیلیں بہرحال آباد رہیں گی۔
پاکستان جہاں پہنچ چکا ہے‘ وہاں سے اسے اوپر اُٹھانا چاہیے۔ بلندی کا سفر شروع نہیں کیا جائے گا تو پھر سب ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔ بے تحاشہ بڑھتی ہوئی آبادی سے مسائل بھی بے تحاشا بڑھ رہے ہیں‘ پہاڑ سے چھلانگ تو ایک لمحے میں لگائی جا سکتی ہے لیکن ایک لمحے میں اُس کی چوٹی سر نہیں کی جا سکتی۔ اس کے لیے جان جوکھوں میں ڈالنا پڑتی ہے ؎
دل کا اجڑنا سہل سہی‘ بسنا سہل نہیں ظالم
بستی بسنا کھیل نہیں ہے‘ بستے بستے بستی ہے
(یہ کالم روزنامہ ''پاکستان‘‘ اور روزنامہ ''دنیا‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved