تحریر : اکمل علیمی تاریخ اشاعت     19-10-2013

نیلام گھر کے اندر

گزشتہ دنوں ا س علاقے میں دو چیزیں نیلام ہوئیں… ایڈولف ہٹلر کی انگوٹھی اور صدام حسین کی رائفل۔ یہ اشیا جنگ کے دوران امریکیوں کے ہاتھ لگی تھیں اس لئے مال غنیمت کے زمرے میں لائی جا سکتی ہیں مگر زمانہ امن میں باہر جانے والے امریکی عہدیداروں کو جو تحفے ملتے ہیں وہ سب قواعد و ضوابط کے ماتحت آتے ہیں اور ان میں سے بیشتر سرکاری مال خانے میں جمع کرائے جاتے ہیں۔محکمہ خارجہ کی ویب سائٹ کے مطابق وزیر خارجہ ہلیری راڈم کلنٹن کو صدر بارک اوباما کی نسبت زیا دہ تحائف ملے جو انہوں نے حکومت کے حوالے کئے۔ انعام عزیز نے اپنی صحا فتی زندگی کے رپور تاژ ’’سٹاپ پریس‘‘ میں لکھا ہے کہ جب جرنیلوں نے صدر سکندر مرزا کو جلا وطن کرنے کا فیصلہ کر لیا تو ایوان صدر میں ایک کھلبلی کا عالم تھا اور بیگم ناہید سکندر مرزا اپنے ہیرے جواہرات اکٹھے کرتے ہوئے اس بیش قیمت طلائی ہار کی تلاش میں تھیں جو ان کی سالگرہ پر کراچی کے ایک تاجر نے انہیں پیش کیا تھا۔اس واقعہ کوپانچ عشرے گزر چکے ہیں اور پروٹوکول کے پُل کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہے مگر پا کستان میں اب تک یہ رواج ہے کہ صدر یا وزیر اعظم اور ان کے ساتھ بیرونی ملکوں کے دورے پر جانے والے جو تحائف سمیٹ کر لاتے ہیں انہیں مال غنیمت سمجھ کر گھر میں رکھ لیتے ہیں اور سر کار ان سے کوئی تعرض نہیں کرتی حالا نکہ یہ تحفے ان کی ذات کو نہیں ان کے منصب کو پیش کئے جاتے ہیں اور اس سلسلے میں مشرق وسطیٰ کے بادشاہوں کی دریا دلی کی بڑی دھوم ہے۔ صدر ضیاء الحق کے ہمراہ جو وفد واشنگٹن آیا اس میں شامل ایک صحافی کی کلائی پر رولیکس دیکھ کر حیرت ہوئی۔استفسار پر اس نے بتایا کہ یہ بیش قیمت گھڑی ایک عرب حکمران کا عطیہ ہے جو اسے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ اس کے ملک کے دورے میں ملا تھا۔جب پوچھا کہ تم نے یہ تحفہ دفتر خارجہ کے حوالے کیوں نہ کیا تو اس نے سوال کو کوئی اہمیت نہ دی۔ مسز کلنٹن کو گزشتہ سال سعودی عرب کے بادشاہ عبد اللہ نے سونے کے زیورات تحفے میں دیے جن کی مالیت کا تخمینہ پانچ لاکھ ڈالر لگا یا گیا۔ ان میں ایک ہار‘ ایک انگوٹھی اور دو بُندے شامل تھے۔ان کو ملکہ برونائی نے بھی اٹھا ون ہزار ڈالر کے زیورات پیش کیے۔شاید اس لیے کہ وہ ایک عورت تھیں‘ یہ ان کی وزارت خارجہ کا آخری سال تھا اور 2016ء کے صدارتی انتخاب میں ان کی کامیابی کا امکان ہے۔اس دوران اوباما کو انتہا ئی قیمتی تحفہ سعودی عرب کے ولی عہد شاہزادہ سلمان بن عبدالعزیز کی جانب سے ملا۔ یہ سونے کا پانی چڑھایا ہوا ایک کلاک تھا جس کی قیمت سولہ ہزار ڈالر سے زیادہ بتائی جاتی ہے۔ بارک اوباما کھیلوں کے شوقین ہیں۔اس کے اعتراف میں چین کے صدر ژی جن پنگ نے انہیں سرخ ‘ سفید اور نیلے رنگ کا ایک باسکٹ بال پیش کیا اور اس پر اپنے دستخط بھی ثبت کیے۔ برطانیہ کے وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون اور ان کی اہلیہ سامنتھا نے امریکی چیف ایگزیکٹو کو ٹیبل ٹینس کی ایک میز پیش کی جو بطور خاص ان کے لیے بنوائی گئی تھی اور جس پر امریکہ اور برطانیہ کے تمغے آویزاں تھے۔ اس تحفے کے باوجود‘ دارالعوام نے شام میں فوجی مداخلت کے لیے امریکہ کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا۔ آئر لینڈ کے وزیر اعظم نے صدر اوباما کو تحائف کا ایک پیکیج دیا جس میں ان کے آئرش ورثے کی ایک سند کے علاوہ چاندی کے دو تعویذ اور اُون کا ایک مفلر شامل ہے۔ ان اشیا کی مالیت سات ہزار ڈالر سے اوپر بیان کی جاتی ہے۔ آئرش قانون سازوں کو دھمکی دی گئی ہے کہ اگر انہوں نے کیتھولک تعلیمات کے خلاف ابارشن (اسقاطِ حمل) کے حق میں ووٹ دیا تو انہیں مسیحیت کے دائرے سے خارج کر دیا جائے گا۔ میانمار (برما) کے صدر تھین سین نے خاتون اول مشل اوباما اور ان کی دو بیٹیوں مالیا اور ساشا کو زیورات پیش کیے۔ مسز اوباما کو چار ہزار ڈالر کا موتیوں کا ہار ملا اور ان کی صاحبزادیوں کو ہیرے‘ موتی اور سونے سے منڈھے ہوئے فلاور بروچ دیے گئے۔ پھر بھی اپوزیشن لیڈر آنگ سان سوچی‘ برمی مسلمانوں کا قتل عام رکوانے میں بے بسی کا اظہار کرتی ہیں۔ سرکاری مہمانوں کو کھانے پینے کی اشیا بھی تحفے میں ملتی ہیں جنہیں وہ اپنے استعمال میں لا سکتے ہیں جیسا کہ روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے مسز کلنٹن کو برانڈی کی ایک بوتل دی جو 560 ڈالر میں فروخت ہوتی تھی۔کچھ تحفے نمائش کے لیے دیے جاتے ہیں جو عہدیدار کی سرکاری رہائش گاہ کی تزئین و آ رائش میں بروئے کار لائے جا سکتے ہیں۔مثلاً صدر اوباما ‘ چنگیز خان کی سر زمین منگولیا کے دورے پر گئے تو سربراہ مملکت نے انہیں 34 انچ لمبی ایک تلوار پیش کی۔اگر عہدیدار چاہے تو تحفے کی قیمت حکومت کو ادا کرکے اسے اپنے تصرف میں لا سکتا ہے۔نائب صدر جوزف بائڈن منگولیا کے سفر میں مسٹر اوباما کے ہم رقاب تھے۔ان کو چاندی کا ایک چاقو اور چاندی کے سر والی چاپ سٹکس تحفے میں ملیں جو انہوں نے اپنے محکمہ خارجہ کے علم میں لاکر پاس رکھ لیں۔ تحائف کی جو فہرست فیڈرل رجسٹر میں شائع کی گئی ہے اس میں ان تحائف کا بھی ذکر ہے جو صدر اوباما نے 2009ء میں غیر ملکیوں سے وصول کیے۔ان میں آرٹ ورک کا ایک پیکیج بھی تھا جس کی مالیت ایک لاکھ چوبیس ہزار ڈالر کے برابر تھی اور جو انہیں اٹلی کے کھلنڈرے وزیر اعظم سلویو برلسکونی نے پیش کیا تھا۔رائے دہندگان نے مسٹر بر لسکونی کو برطرف کر دیا ہے۔ 1980ء کے شروع تک میں بھی لاہور کے ایک اخباری ادارے سے وابستہ تھا اور جب بھی سربراہ حکومت یا صدر مملکت بیرونی دورے پر جاتے تھے تو ایسے تحفوں کی امید میں سرکاری خرچ پر ساتھ جانے کی آرزو کرتا تھا مگر قسمت نے یاوری نہ کی۔نقل وطن کرکے امریکہ آنے پر احساس ہوا کہ سر کاری خزانہ در اصل وہی ہے جو ہم اور آپ ٹیکس دے کر بناتے ہیں۔یہ سن کر بڑی حیرت ہوئی کہ پاکستان کے اٹھارہ کروڑ شہریوں میں صرف سترہ لاکھ افراد انکم ٹیکس ادا کرتے ہیں مگر گلی میں صفائی نہ ہونے پر ہر کوئی حکومت کو مطعون کرتا ہے۔امریکہ کے 31 کروڑ افراد میں سے تیرہ کروڑسے زیادہ ٹیکس اور دوسرے واجبات ادا کرتے ہیں اور سیلاب یا آگ کی صورت میں اپنی مدد آپ کرتے ہیں۔ سنا ہے کہ بیرونی ملک کے دورے پر جانے والے لیڈر کے سامنے مجوزہ وفد کے ارکان کی ایک فہرست پیش کی جاتی ہے اور وہ ہر عزیز اور پسندیدہ اخبار نویس کے نام پر OK کا نشان لگا دیتا ہے۔ ایک غیر جانبدار صحافی چونکہ ملک کے باہر بھی ریاست کا کام کرتا ہے اس لیے سرکاری خرچ پر اس کا ساتھ جانا معیوب نہیں مگر امریکہ میں پہلی بار صحافیوں کے ایک طیارے Press Plane کا ذکر سنا اور پتا چلا کہ اہل قلم اپنے اداروں کے خرچ پر صدر کے ساتھ جاتے ہیں اور لندن‘ پیرس یا روم میں بھی جب اپنے صدر کو میزبان کے ہمراہ پاتے ہیں تو سب سے پہلے اسے امریکی شہریوں کی الیکٹرانک جاسوسی‘ صحت یا تعلیم سے متعلق گھریلو مسائل پر سوالات کا ہدف بناتے ہیں۔ امریکی صدر بھی خارجہ یا تجارتی امور کے قانون سازوں کو سرکاری خرچ پر ساتھ لے جاتا ہے مگر پاکستانی لیڈر ‘ اپنے رشتے داروں اور وفا داروں کو تحائف دلوانے اور شاپنگ کرانے کی خا طر بیرونی دورے پر ساتھ لے جاتے ہیں۔ اگرچہ سرکاری خزانہ خالی ہونے کی وجہ سے ان کے وفد میں بھیڑ بھاڑ خاصی کم ہو گئی ہے‘ سنتے ہیں کہ نجی شعبے میں ٹیلی وژن کے ظہور کے بعد پاکستانی صحافی اس رواج میں شکن ڈال رہے ہیں۔ پاکستان میں دین کا احیا خوش آیند مگر سرکاری خرچ پر حج کرنے کی روایت بر قرار ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved