خیبر پختونخوا میں حالیہ قومی انتخابات ایک نئے دور کا آغاز ثابت ہوں گے کیونکہ سابقہ قبائلی اضلاع کے انضمام کے بعد وہاں یہ پہلے قومی انتخابات ہیں۔ قبائلی انتظامیہ کے سابق ساتوں ایجنسیوں اور پانچ فرنٹیئر ریجنز کا 2018ء میں خیبر پختونخوا کے ساتھ انضمام کا عمل مکمل ہوا۔ اس انضمام سے پہلے قبائلی علاقوں میں صرف قومی اسمبلی کے لیے انتخابات ہوتے تھے۔ انضمام سے قبل وہاں منعقد ہونے والے زیادہ تر انتخابات کی شفافیت پر سوال اٹھایا جاتا رہا ہے اور بعض لوگ اس بات کا گلہ کرتے ہیں کہ ان پر مرضی کے خلاف ووٹ ڈالنے کا دباؤ تھا۔ 2017ء میں فاٹا اصلاحات ایکٹ کے بعد باقاعدہ جماعتی بنیادوں پر انتخابات کی راہ ہموار کی گئی اور صوبے کے ساتھ انضمام کے بعد یہ علاقے قومی اور صوبائی اسمبلی دونوں کے لیے جماعتی بنیادوں پر انتخابات میں حصہ لینے کے قابل ہو گئے۔ 2018ء کے عام انتخابات میں ان 12 اضلاع کو قومی اسمبلی کے چھ حلقوں اور صوبائی اسمبلی کے 24حلقوں میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔ ضم شدہ اضلاع سے صوبائی اسمبلی کی نشستوں کے لیے 2018ء کے عام انتخابات کے ایک سال بعد پہلی بار 18جولائی 2019ء کو ہوئے۔ 2019ء کے انتخابات میں آزاد امیدواروں نے چھ نشستیں حاصل کیں۔ پی ٹی آئی نے پانچ نشستیں حاصل کیں۔ جے یو آئی (ف) کے امیدواروں نے تین جبکہ اے این پی اور جماعت اسلامی نے ایک ایک نشست حاصل کی تھی‘ تاہم قبائلی اضلاع میں یہ پہلے قومی انتخابات ہو رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس بار قبائلی اضلاع میں کچھ بے یقینی کی سی صورتحال ہے۔ ووٹرز نئے سیاسی نظام سے واقف نہیں ہیں اور انتخابی عمل میں اپنا کردار ڈھونڈ رہے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کو بھی ان علاقوں میں اپنی جگہ بنانے کے لیے زیادہ محنت کرنا پڑ رہی ہے۔
قبائلی اضلاع صوبے کے باقی حصوں سے کئی لحاظ سے مختلف ہیں کیونکہ خیبر پختونخوا میں انتخابات کی تاریخ کا ایک طویل باب قبائلی روایات اور سرداروں کے اثر و رسوخ کے گرد گھومتا ہے۔ ماضی میں قبائلی سردار اپنے لوگوں کو ووٹ دینے کی ہدایات دیتے تھے اور عام طور پر انتخابات ان کی مرضی کے مطابق ہی ہوتے تھے لیکن حالیہ برسوں میں یہ منظر نامہ تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے جس کی وجہ سے سیاسی طاقت کا توازن بھی متاثر ہو رہا ہے۔ قبائلی روایات کمزور ہونے کی ایک اہم وجہ صوبے میں سماجی اور معاشی تبدیلیاں ہیں۔ تعلیم کے عام ہونے اور نوجوان نسل کے بااختیار ہونے سے قبائلی سرداروں کا روایتی اثر و رسوخ کم ہوا ہے۔ لوگ اب صرف سرداروں کی ہدایات پر ووٹ نہیں دیتے بلکہ اپنے مسائل اور مفادات کے مطابق فیصلہ کرتے ہیں۔ ماضی میں قبائلی سرداروں کا اثر و رسوخ اتنا زیادہ تھا کہ سیاسی جماعتیں ان کے بغیر انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتی تھیں لیکن اب سیاسی جماعتیں براہِ راست عوام سے رابطہ کر رہی ہیں اور ان کی ضروریات کو پورا کرنے کے وعدے کر رہی ہیں۔ اس سے قبائلی سرداروں کی سیاسی اہمیت کم ہو رہی ہے اور ووٹرز میں جماعتی پالیسیوں اور امیدواروں کی صلاحیتوں کے مطابق ووٹ دینے کی سوچ پائی جاتی ہے۔ سوشل میڈیا کی رسائی میں اضافے نے بھی انتخابی منظرنامے کو بدل دیا ہے۔ اب لوگ آزادانہ طور پر سیاسی امور پر بات چیت اور اپنے خیالات کا اظہار کر سکتے ہیں۔ اس سے سیاسی شعور میں اضافہ ہوا ہے اور قبائلی سرداروں کی طرف سے ووٹروں کو کنٹرول کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ یہ تبدیلیاں مثبت ہیں اور جمہوری عمل کو مضبوط بناتی ہیں لیکن اب بھی کچھ چیلنجز باقی ہیں۔ قبائلی اثر و رسوخ مکمل طور پر ختم نہیں ہوا ہے اور کچھ علاقوں میں اب بھی اس کی جڑیں کافی مضبوط ہیں۔ اس کے علاوہ نئے سیاسی نظام کو مستحکم کرنے اور عوام کا اعتماد حاصل کرنے کے لیے مسلسل کوششوں کی ضرورت ہے۔ قبائلی اضلاع کے لوگ ان قومی انتخابات کو اس طور پر بھی دیکھ رہے ہیں کہ اس کے نتیجے میں نظام میں تبدیلی آئے گی اور برسوں سے جو وعدے پورے نہیں ہو سکے ‘ ان کے علاقے کے نمائندے جب ایوان میں جائیں گے تو ان کے علاقائی مسائل حل ہو سکیں گے۔
خیبر پختونخوا میں قبائلی اثر و رسوخ اور بدلتے ہوئے انتخابی منظر نامے کا جائزہ لینے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ان علاقوں میں اب بھی چیلنجز موجود ہیں‘ سکیورٹی خدشات سب سے زیادہ انہی علاقوں میں ہیں۔ چار روز قبل ریحان زیب کو باجوڑ میں انتخابی مہم کے دوران گولیاں مار کر قتل کر دیا گیا۔ ریحان زیب قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 8باجوڑ سے آزاد امیدوار اور پی ٹی آئی کے دیرینہ کارکن تھے۔ ریحان زیب کے قتل کے بعد تحریک انصاف نے انہیں پارٹی کا حمایت یافتہ امیدوار قرار دیا مگر یہ معلوم ہونے پر کہ مقتول تحریک انصاف کے ٹکٹ ہولڈر کے خلاف الیکشن لڑ رہے تھے‘ مذکورہ بیان ہٹا دیا گیا۔ پی ٹی آئی نے قومی اسمبلی کے حلقے این اے8 میں پارٹی ٹکٹ گل ظفر خان کو جبکہ پی کے 22میں ٹکٹ گل داد خان کو جاری کیا تھا۔ ریحان زیب نے اس ٹکٹ تقسیم پر سوال اٹھایا تھا۔ ریحان زیب کے قتل کا الزام پی ٹی آئی کے امیدواروں پر لگایا جا رہا ہے‘ تاہم اس حوالے سے جب ہماری گل داد خان سے بات ہوئی تو ان کا کہنا تھا کہ ریحان زیب کے ساتھ ان کا کوئی تنازع نہیں تھا اور پی ٹی آئی کے مخالفین اس طرح کی باتیں پھیلا رہے ہیں۔
داعش نے ریحان زیب کے قتل کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ سکیورٹی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ تحقیقات کو جلد مکمل کرکے ریحان زیب کے قتل کے منصوبہ سازوں اور ملوث افراد کو کٹہرے میں لائیں۔ سکیورٹی خدشات کے باعث خیبر پختونخوا خاص کر قبائلی اضلاع میں انتخابی مہم نہایت محدود رہی ہے لیکن الیکشن والے دن بلاشبہ بڑی تعداد میں لوگ باہر نکلیں گے‘ اس لیے خیبر پختونخوا میں انضمام شدہ قبائلی اضلاع میں سکیورٹی انتظامات کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کیونکہ ماضی میں یہ علاقے تشدد اور عدم تحفظ کے واقعات سے متاثر رہے ہیں جس کی وجہ سے وہاں انتخابی عمل متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ یہ اضلاع ابھی تک سیاسی طور پر مستحکم نہیں ہوئے ہیں۔ نئی سیاسی جماعتوں اور قیادت کے اُبھرنے سے بعض لوگوں میں عدم اطمینان کا احساس پیدا ہو سکتا ہے جس سے تشدد کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔ مضبوط سکیورٹی انتظامات عوام میں یہ اعتماد بحال کر سکتے ہیں کہ ان کا ووٹ محفوظ ہے اور ان کی رائے کا احترام کیا جائے گا۔ سکیورٹی انتظامات عوام کی الیکشن میں سیاسی شرکت کو بڑھائیں گے اور جمہوری عمل میں ان کے اعتماد کو بحال کریں گے۔
عام انتخابات میں سکیورٹی خدشات کے علاوہ پی ٹی آئی کے کارکن بھی ایک چیلنج بن سکتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ پی ٹی آئی بطور پارٹی بکھر چکی‘ امیدوار آزاد حیثیت میں الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں‘ اہم رہنما پارٹی چھوڑ چکے‘ بانی پی ٹی آئی کو سائفر‘ توشہ خانہ اور دورانِ عدت نکاح کیس میں سزا ہو چکی ہے۔ یہ منظر نامہ بظاہر حریف سیاسی جماعتوں کیلئے سازگار دکھائی دیتا ہے لیکن ہمیں یہ بھی ماننا پڑے گا کہ تمام تر مشکلات کے باوجود بانی پی ٹی آئی کی حمایت کم نہیں ہوئی ۔ان کے سپورٹرز آج بھی موجود ہیں‘ جو سمجھتے ہیں کہ ان کے لیڈر کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ یہ سپورٹرز غم و غصے میں ہیں۔خدشہ ہے کہ الیکشن والے دن ان کی جانب سے غم و غصے کا اظہار ہو سکتا ہے جس کے نتیجے میں پولنگ سٹیشنز پر مسائل پیدا ہو سکتے ہیں‘ اس لیے پیشگی سکیورٹی بندوبست کی ضرورت ہو گی۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved