سیاسی بحث ذاتی حملوں تک پہنچ گئی تھی۔ میں نے حافظے کو ایک بھی برُی بات نہیں کہی تھی۔ کہی جا بھی نہیں سکتی تھی کہ وہ میرا اپنا حافظہ تھا۔ اس سے پہلے کہ میں اگلی بات کرتا حافظہ زہر خند لہجے میں بولا ''سیاسی جماعتوں سے الگ کہیں تم انہیں تو کم تر برائی نہیں کہہ رہے جو اس ملک پر ناجائز طریقے سے بار باراقتدار میں آئے‘ آج بھی سیاسی کٹھ پتلیاں نچا رہے ہیں‘ کہیں تم انہیں ووٹ کا حق دار تو نہیں سمجھ رہے؟‘‘میں نے کہا: تم میرا حافظہ ہو‘ اچھی طرح جانتے ہو کہ میں سمجھتا ہوں ملک اُس وقت پٹڑی سے پہلی بار اُترا جب ایوب خان تخت پر چڑھا تھا۔ یحییٰ خان قزلباش‘ ضیا الحق‘ پرویز مشرف سب ناجائز طریقے سے حکمران بنے۔ ان میں بدترین اور منحوس ترین دور یحییٰ خان اور پرویز مشرف کا سمجھتا ہوں۔ انہوں نے ناقابلِ معافی جرم کیے۔ میں ان کی حمایت کیسے کر سکتا ہوں جن کے بارے میں حمود الرحمن کمیشن اور عدالتیں فیصلہ کر چکی ہوں‘ اس لیے یہ ذکر بے محل ہے‘‘۔
بانی پی ٹی آئی کی بات کرتے میں جھجک رہا تھا‘ یہ میری کمزور رگ تھی لیکن اس کے بغیر ووٹ کی بات مکمل ہوتی بھی کہاں۔ ''تم جانتے ہو میں نے بانی پی ٹی آئی کے حق میں بہت تحریریں لکھیں۔ ان کی حمایت کی۔ میں ان کو نیک نیت اور دیانت دار سمجھنے میں بھی حق بجانب تھا۔ جب تک انہوں نے ایمپائر کو ساتھ ملا کر کھیلنے کا فیصلہ نہیں کیا تھا‘ میں ان کے ساتھ تھا۔ بعد میں ان پر بہت بار کڑی تنقید بھی کی۔ ان سے مایوسی اپنی جگہ لیکن اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے‘ اس کی حمایت بھی کیسے کی جا سکتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دورِ اقتدار سے پیشتر بانی پی ٹی آئی پر کرپشن کا کوئی داغ نہیں تھا۔ یہ دھبے تو پونے تین سال کے لگائے ہوئے ہیں۔ پی ٹی آئی نے اقتدار میں کووڈ کے زمانے میں غیرمعمولی صورت حال کو بہت اچھے طریقے سے کنٹرول کیا ۔ صحت کارڈ ایک بڑی عوامی سہولت والا قدم تھا اور اقوامِ متحدہ میں بھارت کے خلاف وہ فی البدیہہ تقریر جس نے لوگوں کو گرما دیا تھا۔ اسلامو فوبیا پر آواز اٹھانا بھی ان کے حصے میں آیا۔ بانی پی ٹی آئی اب بھی مقبول ہے اور اگر اسے کم تر برائی سمجھا جائے تو کیا غلط ہوگا؟‘‘ حافظہ تھوڑی دیر خاموش رہا جیسے اپنی یاد داشتیں جمع کر رہا ہو۔ پھر بولا ''نیک نیت‘ دیانت دار لوگوں کے گرد ایسے لوگ ہوتے ہیں جیسے بانی پی ٹی آئی کے گرد تھے؟ جن میں ایک دو کو چھوڑ کر ہر ایک مکمل طور پر سیاہی سے لتھڑا ہوا تھا۔ جہلم والا وزیر اور اس کا طرزِ تکلم اور تکبر یاد ہے؟ پنڈی والا چہیتا ؟ وہ سب چہرے یاد ہیں جو اپنے لیڈر کے حکم پرگالی گلوچ کیا کرتے تھے؟ یاد ہے کہ پیر کو ایک شخص وزیر داخلہ ہوتا تھا‘ بدھ کو وزیر اطلاعات اور ہفتے کے آخر میں وہی وزیر ریلوے؟ یاد ہے اُس دن تم خود ریل میں کراچی کا سفر کر رہے تھے‘ کیا حالت تھی ریل کی اور نظام الاوقات کی؟ اسی دن ریلوے کی 100دن کی کارکردگی پر کابینہ میں سابق وزیراعظم نے تالیاں بجوائی تھیں۔ کسی وزارت کی کوئی اچھی کارکردگی بتا دو اُس دور کی؟ مہنگائی‘ ڈالر کی اڑان‘ بھیانک جن کی طرح بوتل سے اچانک نکل آئے تھے۔ رہی بات اقتدار کا حریص نہ ہونے کی‘ یہ جو تیسری شادی کی گئی تھی‘ بہت عجلت میں‘ کیا اس کی وجہ اقتدار میں روحانی مدد سے آنا نہیں تھا؟ کیا ایک خاص وقت پر شادی کی وجہ‘ عدت مکمل ہونے نہ ہونے سے قطع نظر‘ یہ نہیں تھی کہ روحانی پیشوا نے کہا تھا کہ شادی ہوتے ہی وزیراعظم بن جاؤ گے۔ یہ صرف اقتدار تک ہر قیمت پر دسترس کی کوشش تھی اور اس سے بھی زیادہ حریفوں کو نیچا دکھانے کی خواہش جو انہیں اس طرف لے گئی۔ یعنی روحانی مدد بھی اور مقتدرہ کی مدد بھی۔ دونوں طاقتیں اپنے ساتھ جوڑ کر ہی تو بانی پی ٹی آئی وزارتِ عظمیٰ کی کرسی تک پہنچے تھے۔ تین چار نشستوں کی برتری سے۔ وہ جو خود کہا کرتے تھے کہ میں کمزور وزیراعظم بننے سے بہتر باہر بیٹھنا پسند کروں گا‘ وہ اصول کیا ہواتھا اس وقت؟‘‘
حافظہ وہی باتیں دہرا رہا تھا جو میں خود بھی لکھ چکا تھا۔ ''رہی روحانیت؟ ناقص فہمِ دین کا جیسا مظاہرہ کیا گیا اس دور میں اس کی کوئی مثال ہے؟ اس روحانیت اور اس نکاح کا بانی پی ٹی آئی کو رَتی برابر فائدہ ہوا ہو تو بتادو۔ اس روحانیت کا ملک اور قوم کو ذرہ برابر فائدہ ہوا ہو تو بتادو۔ مقتدرہ تو انہیں کرسی پر بٹھانا چاہتی تھی‘ وہ اس شادی کے بغیر بھی بٹھا دیتی۔ یاد ہے پنجاب کے وزیراعلیٰ کا نام سن کر سبھی ہکا بکا رہ گئے تھے۔ کرسی پر بٹھانے والے بھی۔ ایسے گھریلو فیصلوں کے ساتھ بڑے عہدے دیتے رہے وہ۔ اور جو لوگ اس سارے کھیل میں پیسے بناتے رہے‘ بانی پی ٹی آئی انہی کا دفاع کرتے رہے۔ اس مشکل وقت میں اب وہی سب عہدیدار بزدار سمیت کہاں ہیں؟ یہ آپ کے سامنے مٹی پر دھری ہے ان کی دیانت‘‘۔ ''بات یہ ہے کہ سب درست سہی لیکن یہ جو سائفر اور توشہ خانہ میں بانی پی ٹی آئی کو سزائیں ہوئی ہیں۔ کون تائید کرے گا ان کی؟‘‘ میں نے لاجواب ہو کر کہا۔ حافظہ بولا ''کوئی تائید نہیں کرے گا ان کی۔ یہ سب ویسے ہی ہو رہا ہے جیسے پہلے ہوتا رہا ہے لیکن میں دو باتیں پوچھتا ہوں۔ سازش یا غیر سازش‘ امریکہ یا مقتدرہ‘ درست یا غلط‘ ایک طرف رکھ دو‘ کیا بانی پی ٹی آئی کی بطور وزیر اعظم ذمہ داری نہیں تھی کہ وہ اس کاغذ کی حفاظت کرتے اور ضابطوں کے مطابق واپس پہنچواتے؟ انہوں نے تو جلسے میں کاغذ لہرایا تھا اور اس کے راز افشا کیے تھے۔ کیا یہ سب عہدے پر فائز ذمے دار شخص کو زیب دیتا تھا؟ کیسے گم ہوگیا وہ کاغذ جس کی ذمے داری بالآخر انہی پر تھی؟ اور پھر مال و دولت سے اتنا استغنا برتنے والا شخص کیا توشہ خانہ سے بے نیاز نہیں رہ سکتا تھا؟ انہیں کس مال و دولت کی کمی ہے؟ کیا وہ یہ تمام چیزیں اپنے پیش روؤں کے برعکس قوم کو سونپ کر ایک نئی مثال قائم نہیں کر سکتے تھے؟ کیا انہیں معلوم نہیں تھا کہ مخالفین ان کی کسی بھی معمولی غلطی کی تلاش میں ہیں؟‘‘
بانی پی ٹی آئی مقبول ہیں‘ ممکن ہے ذاتی حد تک دیانت دار بھی ہوں لیکن یہ اپنی جگہ بڑی اور کھلی حقیقت ہے کہ وہ مدبر ہرگز نہیں ہیں۔ بڑے سیاستدانوں والا تدبر ان سے بہت فاصلے پر ہے ۔ خود رائی‘ خود پسندی‘ بے لچک مؤقف‘ 'مجھ جیساکوئی اور نہیں‘ کے دعوے کے ساتھ تدبر قریب آبھی کیسے سکتا ہے۔ یاد کرو جب وہ کرسی سے عدم اعتماد کے ذریعے اتارے گئے تھے۔ پس پردہ کچھ بھی ہو‘ یہ ایوان کے اندر ایک سیاسی عمل تھا جس کا حق مخالفوں کو بہرحال تھا۔ چند نشستوں کا فرق تھا۔ خان صاحب کے پاس قومی اسمبلی کے علاوہ بہت کچھ تھا۔ سینیٹ‘ پنجاب‘ کے پی کے‘ گلگت بلتستان‘ آزاد کشمیر۔ تدبر ہوتا تو یہ سب کچھ اپنے ہاتھ میں رکھ کر دوبارہ چند نشستیں ساتھ ملا لیتے اور مخالفوں کو الٹا دیتے۔ یاد کرو اُن کے اقتدار کے آخری ڈراؤنے دن۔ ایسا لگتا تھا کہ بانی پی ٹی آئی کوئی بھی غیر آئینی‘ غیر روایتی قدم اٹھانے سے نہیں چوکیں گے اگر یہ انہیں کرسی بچانے میں مدد دے۔ ڈپٹی سپیکر کی غیرآئینی رولنگ انہی کا حکم تو تھا۔ کتنا سمجھایا تھا خیر خواہوں نے کہ یہ بے عقلی مت کرو۔ کتنی مَت دینے کی کوشش کی تھی پرویز الٰہی نے کہ پنجاب اسمبلی مت توڑو۔ لیکن عقل کل کا کیا کیا جاتا۔ خود رائی کو کس سمندر میں غرق کیا جاتا۔تویہ خاک پر پڑا ہے آپ کے مدبر سیاست دان کا تدبر۔ (جاری)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved