جو ہم دیکھ چکے اور جو ہماری آنکھوں کے کیمرے حالات کی مسلسل عکس بندی کر رہے ہیں‘ وہ ہم سب کے تجربے اور مشاہدے میں کسی حد تک محفوظ ہے۔ یہ اور بات کہ جہاں لوگ مختلف مناظر بیک وقت دیکھ رہے ہوتے ہیں تو ذہنی رجحانات ناگوار اور ناپسندیدہ واقعات کو یادوں کے نہاں خانوں سے نکال کر باہر پھینک دیتے ہیں۔ ہماری فطرت کو بھی تلخی برداشت نہیں‘ جو دل کو اچھا لگا اسے سینے سے لگائے رکھتے ہیں لیکن جو ہماری آنکھوں سے ایک دفعہ گزرا اسے کسی بُرے پیغام کی طرح ڈیلیٹ کرنا بھی آسان نہیں۔ عوام ایسے ہی کرب کا شکار نہیں۔ وجوہات‘ اسباب اور ذمہ داریوں کا تعین کرنے بیٹھیں تو فہرست اور تاریخی واقعات کی تفصیل میں عمر گزر جائے گی۔ ہمارے دوستوں کو جب کچھ سمجھ میں نہیں آتا یا پھر کھل کے بات کرنے سے کتراتے ہیں تو یہ کہہ کر جان چھڑاتے ہیں کہ ہم دائروں کے سفر میں ہیں۔ نصف صدی سے زیادہ عرصہ گزر چکا‘ نکل نہیں پائے۔ بات تو سچ ہے کہ جو حالات ہمارے سامنے ہیں‘ ہم پنجرے والے دائرے میں ہیں اور اس مقام پر ہیں جہاں انتخابات کا معرکہ سج رہا ہے۔ سیاسی جماعتیں اور آزاد امیدوار مقابلوں کے لیے کاغذاتِ نامزدگی جمع کراتے ہیں۔ کچھ کہنہ مشق بھی ہوتے ہیں جو ہوائوں کا رُخ پہچانتے ہیں۔ زیادہ تر فصلی بٹیروں کی طرح انتخابات کی فصل تیار ہوتے ہی اپنے ٹھکانے چھوڑ کر سازگار کھیت کی تلاش میں نکل پڑتے ہیں۔ ایک دوسرے کو عدالتوں میں گھسیٹتے ہیں۔ انتخابات میں حصہ لینے پر اعتراض پہ اعتراض اور پھر قانون اور انصاف حرکت میں آکر کانٹ چھانٹ شروع کر دیتے ہیں۔ جھنڈے‘ بینر‘ جلسے جلوس اور انتخابی مہم میں ہر طرف پُرتکلف خورو نوش کا انتظام اور امیدواروں کا اصرار کہ کھانا بہت ہے مہربانی فرما کر بلا تکلف ہمیں خدمت کا موقع دیں‘ بڑے بڑے جلسے ہوتے ہیں۔ ہم نے چونکہ سب انتخابات قریب سے دیکھے ہیں‘ تقریروں میں ذرہ برابر کہیں فرق محسوس نہیں ہوتا۔ غربت اور بے روزگاری ختم کریں گے‘ ملک کو ترقی کی راہ پر ڈالیں گے‘ روٹی‘ کپڑا اور مکان دیں گے‘ صحت اور تعلیم مفت ہوں گے۔ 60 سالوں میں صرف تقریروں میں چار لفظوں کا اضافہ ہوا کہ بجلی سستی کریں گے۔ اگر طبیعت پر ناگوار نہ گزرے اور ہم اپنی کمزور جان کی امان پائیں تو یہ بھی بتا دیں کہ نسل در نسل تو ایک ہی سیاسی اشرافیہ کے گھرانے ان کے طاقتور سرپرست اور دو بڑی سیاسی جماعتیں ہی راج کر رہی ہے تو آج ہم جن مسائل میں گھرے ہوئے ہیں‘ ان کا ذمہ دار کون ہے؟ یہ بھی کئی بار دیکھا ہے کہ ذمہ داری‘ خود احتسابی اور اخلاقی جرأت ناپید ہو تو ملبہ سیاسی مخالفین پر ہی ڈالا جاتا ہے۔
آج کل انتخابات کے گول دائرے کے بارہویں چکر کا آغاز ہو چکا ہے۔ اس مرتبہ ہم کچھ مختلف ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ ملک کی ایک بڑی سیاسی جماعت بطور سیاسی پارٹی انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتی۔ عدالت عظمیٰ نے فیصلہ صادر کر کے اسے انتخابی نشان استعمال کرنے سے روک دیا۔ جسٹس محمد منیر کے 1955ء کے فیصلے کی طرح یہ ایک تاریخی فیصلہ ہے۔ عدالت کے وقار کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس پر زیادہ کچھ نہیں کہہ سکتے صرف یاددہانی کے لیے عرض ہے کہ جسٹس منیر نے گورنر جنرل کے پارلیمان کو تحلیل کرنے کے اقدامات کو آئینی قرار دیا تھا۔ اس کے نتائج جو ملک کی سیاست‘ تاریخ اور معاشرت پر مرتب ہوئے وہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ کچھ مؤرخین نے اس فیصلے کو‘ جسے تسلیم کرنے کے سوا اس قوم کے پاس کوئی راستہ نہیں تھا‘ جمہوریت کے قتل سے تعبیر کیا۔ تحریک انصاف کو انتخابی نشان سے محروم کرنے کا فیصلہ تو ہمارے سامنے ہے مگر اس کے آنے والے سالوں میں سیاست‘معاشرت اور جمہوری عمل پر کیا اثرات پڑیں گے وہ ابھی دیکھنا باقی ہے۔ ہم کوئی قیاس آرائی نہیں کر سکتے‘ مگر اتنا ضرور ہے کہ یہ ہر لحاظ سے ایک تاریخی فیصلہ ہے۔ تاریخ کی آئندہ لکھی جانے والی کتابوں میں انتہائی دلچسپ باب کا اضافہ کر چکا ہے جسے سیاست کا کوئی بھی طالب علم نظر انداز نہیں کر سکے گا۔ دوسری اہم خبر جو اِن انتخابات کے حوالے سے نمایاں ہے وہ تحریک انصاف کے آزاد امیدواروں کی تعداد ہے جن میں 53 خواتین بھی ہیں۔ ان کے علاوہ وہ بھی ہیں جو شوقیہ اداکاروں کے علاوہ کنفیوژن پھیلانے کے لیے میدان میں اتارے گئے ہیں۔ یہ بھی ہے کہ تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدوار قبول اور تصدیق شدہ سیاسی جماعتوں کے امیدواروں کی طرح جلسے نہیں کر سکتے۔ مقدمات پر مقدمات کا انہیں سامنا ہے۔ جونہی کہیں نظر آتے ہیں‘ کسی جرم میں دھر لیے جاتے ہیں۔ میدان سب کے لیے ہموار کا فقرہ اپنی ساکھ کھو چکا ہے‘ کہ اکثر جگہوں پر ایک پارٹی کے لیے میدان سرے سے موجود ہی نہیں۔ ایک اور بات جو دیکھی ہے وہ انتخابی مہم کی بے رنگی ہے۔ چند ہفتے پہلے تک تو کہیں اعتماد ہی نظر نہیں آتا تھا کہ انتخابات ہوں گے یا نہیں۔ اس لیے ہم قلیل ترین مدت کی انتخابی مہم دیکھ رہے ہیں جس کی گہما گہمی آپ کو چند بڑے جلسوں کے سوا کہیں نظر نہیں آئے گی۔
اَن دیکھی کے بارے میں ذہن میں خدشات ہی خدشات ہیں‘ دل سے دعائیں اٹھتی ہیں کہ خدا اس ملک کی خیر کرے۔ مگر قدرت کا بھی تو اصول ہے جوکتابِ حق میں رقم ہے‘ جس کا مفہوم مولانا ظفر علی خاں کے الفاظ میں: خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی ؍ نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا۔ ہماری دعائیں اس توفیق کے بارے میں ہیں کہ ہم عوام بدل جائیں‘ کہ ہم جو اپنی حرص و ہوا کی دنیا میں کھو چکے ہیں کو حق و باطل کی تمیز ہمیں واپس مل جائے۔ انسان کی فطرت اور معاشروں کی ساخت میں ایک خطرناک رجحان بھی ہے۔ مزاحمت‘ بیداری‘ شعور اور ظلم کے خلاف ردعمل کی روایت پر چلتے چلتے راہ میں ایک دوست کی بات نے جھنجھوڑ کر رکھ دیا کہ یہ سب کچھ ٹھیک ہو رہا ہے اور یہ ہونا ضروری ہے۔ اس راستے پر سے ہم کبھی نہیں گزرے تھے۔ یہ سفر کیا ہی نہیں تھا۔ ادھر کوئی آنے کی جرأت نہیں کرتا تھا۔ بادشاہ اپنے نئے کپڑے پہن کر عوام کے سامنے کبھی اس طرح جلوہ ا فروز نہیں تھا۔ اس وقت تو ہماری توجہ اس پر ہے جو ہم دیکھ رہے ہیں کہ آٹھ فروری کو ہم سب باہر نکل کر ووٹ ڈالنے کی قطاروں میں ہوں گے‘ شام کو نتائج کا شدت سے انتظار ہو گا اور مبارکباد کے وعدوں کے طوفان میں نئی حکومت وہی پرانے کھلاڑی بنائیں گے۔ دائرے کا پرانا سفر جاری رہے گا۔ اَن دیکھی میں بہت کچھ پردے میں ہے کہ مایوسی اور بداعتمادی کی فضا کے بادل کمزور سیاسی جائزیت کے ساتھ آنے والی حکومتوں پر سایہ فگن رہیں گے۔ نوجوانوں میں سیاسی جماعتوں اور نظام پر تشکیک کے احساسات شاید دور نہ ہو سکیں۔ جن داخلی‘ علاقائی اور عالمی حالات کے تناظر میں ہم انتخابات کی رسم ادا کر کے اگلے دو تین ہفتوں میں تاج پوشی کریں گے وہ ایسے ہی ہے جیسے کبوتر بلی کو دیکھ کر آنکھیں بند کر لے۔ ایک اور نئی بات جو ہم دیکھ رہے ہیں وہ روایتی سیاسی جماعتوں کے درمیان نورا کشتی ہے جبکہ ایک جماعت کے خلاف کھلی صف آرائی ہے۔ یہ بھی ٹھیک ہو رہا ہے کہ ہم دائروں کے اس سفر میں اس تنائو اور حتمی عوامی فیصلے کے بغیر کبھی نہیں نکل پائیں گے۔ اس کا انتظار کرنا ہوگا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved