بھائی عطا صاحب‘ جن کا تذکرہ گزشتہ قسط میں ہوا‘ 2023ء میں نوے سال کے قریب عمر پا کر فوت ہوئے۔ آخری ایام تک گاؤں کی جامع مسجد میں پانچوں نمازوں کیلئے گھوڑوں کی چال چلتے ہوئے آتے۔ میں جب کبھی گاؤں جاتا تو ان سے مسجد میں ملاقات ہوتی۔ وہ مجھ سے مل کر بہت زیادہ خوش ہوتے۔ حق تعالیٰ مغفرت فرمائے۔ میرے نوجوان بیٹے ہارون کی وفات کے بعد مجھے جب بھی ملے‘ مرحوم کا تذکرہ کر کے آبدیدہ ہو گئے۔ ہارون بیٹے کی وفات کے آگے پیچھے ہی ان کا اپنا بیٹا‘ ایک داماد اور ایک بیٹی بھی جوانی ہی میں داغِ مفارقت دے گئے، مگر عجیب بات ہے کہ مرحوم ہارون کے تذکرے پر ان عزیزوں سے بھی زیادہ غمزدہ ہو جاتے۔
بھائی عطا محمد کے ماموں زاد نور محمد‘ جو گاؤں میں رہنے والے بجاڑ قبیلے سے تعلق رکھتے تھے اور دونوں آپس میں سمدھی بھی تھے‘ طویل عرصہ قبل برطانیہ چلے گئے تھے۔ ان کی سب اولاد‘ سوائے ایک بیٹی کے‘ وہیں رہائش پذیر ہے۔ برادرم نور محمد ہمارے خاندان کا بہت احترام کرتے تھے۔ میں جب بھی انگلینڈ جاتا اپنے گھر میں بہت بڑی ضیافت کرتے۔ کئی مواقع پر انہوں نے ایسی باتیں کیں جن سے دولتمند افراد (بالخصوص نو دولتیے) عموماً سخت نفرت کرتے ہیں۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ نور محمد مرحوم جوانی میں ہماری زمین پر کاشتکاری کیا کرتے تھے‘ ان کی اپنی زمین نہیں تھی۔ 1950-60ء کی دہائی میں ہمارے علاقے کے بہت سے لوگ تلاشِ معاش میں یورپ بالخصوص برطانیہ منتقل ہوئے۔ بھائی نور محمد پرانے وقتوں کو یاد کر کے کہتے کہ ہم دو بہن بھائی بچپن میں یتیم ہو گئے‘ ہماری والدہ کا دوسرا نکاح ہمارے چچا سے ہوا‘ ان سے دو بھائی اور دو بہنیں ہوئیں تو چچا بھی انتقال کر گئے۔ اس سارے عرصے میں بابا فتح علی (میرے دادا) نے کسی کو کانوں کان خبر نہ ہونے دی اور ہماری تمام ضروریات کو پورا کیا تاآنکہ میں اور میرا چچا زاد بھائی جوان ہو گئے اور بابا جی کی زمینوں پر کاشتکاری کرنے لگے‘ اس کیساتھ بھیڑ بکریاں پالنے کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا۔ جب مجھے 1961-62ء میں انگلینڈ جانے کا خیال آیا تو وہاں جانے کا خرچہ بھی نہیں تھا‘ میں نے ماموں فیض (میرے والد مرحوم کو یہ سب بہن بھائی ماموں کہتے تھے) سے تذکرہ کیا۔ اس زمانے میں ولایت جانے کیلئے چھ‘ سات ہزار روپے سے کام چل جاتا تھا۔ ماموں فیض نے بطور قرض اس رقم کا اہتمام کر دیا اور میری قسمت سنور گئی۔ پھر بھائی نور محمد مرحوم فرماتے ''حافظ صاحب! ہمارے دانتوں میں تو اب تک آپ کے گھر کی دال روٹی کے ذرے موجود ہیں‘‘۔ اس ضرب المثل میں سمندر کو کوزے میں بند کر دیا گیا ہے۔
سماجی خدمات کے حوالے سے اپنے خاندانی بزرگوں کے ایک اور کارِخیر کی یادیں بھی میرے البم میں محفوظ ہیں۔ جامع مسجد ہمارے گھر کے ساتھ جانبِ مغرب واقع ہے۔ یہ ایک کھلا احاطہ ہوا کرتا تھا جس کے شمال میں مسجد کا صحن اور وضوگاہ وغیرہ تھے‘ بیچ میں ہماری خاندانی چوپال کا ایک وسیع صحن‘ جس میں پرانے وقتوں میں گھنے سایہ دار برنا کے درخت اور ایک جانب بیریاں‘ دوسری جانب لسوڑے کے درخت تھے۔ چوپال کے مغرب کی جانب ایک بڑا کمرہ تھا جسے حجرہ کہا جاتا تھا۔ اس میں درویش وغیرہ بسیرا کرتے تھے‘ ان کا کھانا ہمارے گھر میں پکتا اور وہ خود آ کر لے جاتے۔ جنوبی جانب ایک بہت بڑا کمرہ مسافروں کی رہائش کیلئے تعمیر کیا گیا تھا۔ اس کمرے کے مغرب میں ایک اور کمرہ تھا جو سردیوں میں مسافروں کے مویشی باندھنے کے کام آتا۔ آج کے دور اور اس دور میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اب نہ کوئی مسافر آتا ہے نہ مویشیوں کو ساتھ لانے کا کوئی تصور ہے۔ بزرگوں کے حکم کی تعمیل میں ہم بچپن میں ان مسافروں کیلئے اپنے خاندان کے تمام گھروں سے حسبِ ضرورت سالن روٹی جمع کر کے لاتے اور ان کی خدمت میں پیش کرتے۔ ایک رات قیام کرنے کے بعد یہ عارضی مہمان جانبِ منزل روانہ ہو جاتے۔ مویشیوں کیلئے چارے کا انتظام بڑے لوگوں کی ذمہ داری ہوتی تھی۔ کمروں کی صفائی خادمینِ مسجد کو کرنا ہوتی تھی۔ کئی مسافر بتاتے کہ راستے میں جو گاؤں آیا ہم نے معلوم کرنے کی کوشش کی کہ کیا ہم وہاں ایک شب قیام کر سکتے ہیں تو ہر ایک نے کہا کہ نہیں‘ آگے جاؤ ایک گاؤں چک میانہ ہے‘ وہاں قیام ممکن ہو گا۔ یہ پرانا مگر یادگار دور تھا۔اب الحمدللہ نہایت خوبصورت دو منزلہ مسجد بن چکی ہے‘ بجلی بھی ہے‘ اے سی بھی لگے ہوئے ہیں‘ سردیوں میں تمازت کا اہتمام بھی ہے اور دیگر تمام سہولتیں بھی میسر ہیں مگر قدیم مسجد میں داخل ہوتے ہی جو ذہنی سکون اور روحانی مسرت حاصل ہوتی تھی‘ اس کی اپنی ہی شان تھی۔ چوپال تقریباً ختم ہو چکی‘ اس کا صحن اب پکا ہو گیا ہے۔ کمرے بھی نئے اور پختہ بن گئے مگر بند پڑے رہتے ہیں۔ نہ مسافر نہ ان کے مویشی‘ نہ گھنے سایہ دار درخت‘ نہ ان کے سائے میں وہ محفلیں جو تاریخ کی گزرگاہوں اور وقت کی تہوں میں کہیں گم ہو گئی ہیں۔جنہوں نے انہیں کبھی دیکھا وہ بڑے شوق سے ان کا تذکرہ کیا کرتے تھے۔ نئی نسل تو زیادہ جانتی نہیں مگر ہم جیسے لوگ ان تاریخی چیزوں کو نہیں بھول سکتے۔ اب ہمارے عزیزان اپنی حویلی میں مجلس لگاتے ہیں مگر بزرگوں کی مجلسوں کی شان جدا تھی۔ اللہ میرے عزیزوں کی اس محفل کو آباد رکھے۔ ماضی کو یاد کر کے میرؔ کا یہ شعر ذہن میں آ گیا:
پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ
افسوس تم کو میرؔ سے صحبت نہیں رہی
اوپر کی سطور میں پرانی مسجد کا تذکرہ ہوا تو مجھے ایک ولی اللہ شدت سے یاد آئے۔ سید ذاکر علی شاہ کراچی والے‘ جو جماعت اسلامی کے اولین ارکان میں سے تھے‘ میرے نہایت مشفق و مہربان دوست اور مربی تھے۔ ایک بار معلوم ہوا کہ شاہ صاحب کو زیر زمین پانی کا اندازہ لگانے کی خاص صلاحیت اللہ نے عطا فرمائی ہے۔ اپنی بارانی زمینوں پر ہم نے ایک دو ٹیوب ویل لگا رکھے تھے اور ایک دو مزید لگانے کا ارادہ تھا۔ شاہ صاحب منصورہ آئے تو میں نے ان سے تذکرہ کیا۔ بڑی خوشی سے فرمایا ''جب چاہیں‘ میں آپ کے ساتھ چلنے کیلئے تیار ہوں‘‘۔ اگلے روز ہم لاہور سے روانہ ہو کر شام تک گاؤں پہنچ گئے۔ شاہ صاحب نے دو دن ہمارے ساتھ گاؤں میں گزارے‘ زمینوں پر گئے اور مختلف مقامات کو دیکھنے کے بعد ایک جگہ کا تعین کیا۔ ان کی رہنمائی کے مطابق وہیں بورنگ کرائی گئی اور ٹیوب ویل لگایا جو کامیاب رہا۔
شاہ صاحب نے ایک بات مجھے لاہور واپس آ کر بتائی۔ فرمانے لگے کہ آپ کی مسجد میں مجھے بہت روحانی سکون ملا۔ رات کو جب میں مسجد میں گیا تو عجیب منظر دیکھا۔ آپ کی مسجد میں ناری مخلوق کا قیام ہے اور وہ سب لوگ انتہائی متقی اور نیک نفس ہیں۔ ان کے درمیان اگر ان کی نوع کا کوئی شر انگیز فرد آنے کی کوشش کرے تو یہ اسے مار بھگاتے ہیں۔ ان سے کسی بھی انسان کو کوئی بھی گزند یا شر نہیں پہنچ سکتا‘ یہ اللہ اور اس کے رسولﷺ پر پختہ ایمان رکھنے والے‘ عبادت گزار ہیں۔ شاہ صاحب کو اللہ نے جماعت اسلامی کے قافلۂ سخت جان میں کئی سال جدوجہد کرنے کی توفیق عطا فرمائی۔ اس کے ساتھ شاہ صاحب کو دیگر مختلف میدانوں میں جو ذاتی خصوصیات حاصل تھیں‘ یہ بھی اللہ اپنے خاص بندوں کو ہی عطا فرماتا ہے۔ ہم تو اس میدان سے بالکل ناواقف ہیں۔
شاہ صاحب کی رودادِ شب سن کر مجھے کوئی تعجب نہ ہوا۔ قرآنِ مجید کے کئی مقامات‘ ان کی تفاسیر اور آنحضورﷺ کی احادیث اور سیرت کے واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ انسانوں کی طرح جن بھی کافر اور مومن‘ متقی اور فاسق و فاجر‘ شریف اور شرانگیز‘ ہر طرح کے ہوتے ہیں۔ اس ضمن میں سورۃ الاحقاف کا آخری رکوع‘ سورۃ الجن پوری کی پوری‘ اور دیگر کئی سورتوں کی مختلف آیات بالخصوص لائقِ مطالعہ ہیں۔ میں نے شاہ صاحب کی باتیں سنیں مگر انہیں زیادہ اہمیت نہ دی‘ نہ ہی کبھی اپنے عزیز و اقارب اور مسجد کے نمازیوں سے اس کا تذکرہ کیا۔ آج پہلی بار ان کو صفحۂ قرطاس پر منتقل کر رہا ہوں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved