ملکی و غیرملکی میڈیا کے تجزیوں‘ خبروں اور تبصروں سے انتخابات سے پہلے ہی ساری تصویر واضح ہو چکی ہے۔ صاف نظر آنے لگا ہے کہ اگلا سیٹ اَپ کیسا ہوگا اور کون اقتدار میں آنے والا ہے۔ یہ تصور اور تصویر محض قیاس آرائیوں پر مبنی نہیں‘ عوام کا رجحان بھی بتا رہا ہے کہ انتخابات کے ممکنہ نتائج کیا ہو سکتے ہیں۔ مسلم لیگ(ن) کے جیتنے کے امکانات زیادہ نظر آتے ہیں مگر پھر بھی حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ اصل صورتحال حتمی انتخابی نتائج سامنے آنے کے بعد ہی واضح ہو سکے گی۔
عوام اگر واقعی ملک میں حقیقی جمہوریت اور غیریقینی صورتحال کا خاتمہ چاہتے ہیں‘ ملک کو معاشی ترقی کی منزل کی جانب گامزن دیکھنا چاہتے ہیں تو انہیں ہر حال میں اپنا ووٹ کاسٹ کرنا ہو گا۔ اگر ووٹرز گھروں سے نہیں نکلیں گے تو ان طاقتوں کو مضبوط کرنے کا باعث بن جائیں گے جو جمہوریت کے حق میں نہیں اور مسلسل انتخابات ملتوی کرانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ الیکشن کا دن ملک اور عوام کے مستقبل کے فیصلے کا دن ہوتا ہے۔ جیسا فیصلہ عوام دیں گے‘ ویسی حکومت قائم ہو جائے گی۔ عوام اگر اپنے حقِ رائے دہی کے حوالے سے سنجیدہ نہ ہوئے تو انہیں حکومت بھی غیر سنجیدہ ہی ملے گی۔ سیاسی جماعتوں اور امیدواروں سے گزارش ہے کہ انتخابات کے جو بھی نتائج ہوں‘ انہیں تسلیم کیا جائے تاکہ جس بھی پارٹی کی حکومت قائم ہو‘ وہ پورے مینڈیٹ کے ساتھ فیصلے کرنے کے قابل ہو سکے۔ ماضی کی طرح الیکشن کے نتائج تسلیم نہ کرنے اور بلا وجہ دھاندلی کا شور مچانے سے حالات مزید ابتر ہو سکتے ہیں۔
الیکشن کمیشن کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق آج 12 کروڑ 85لاکھ 85 ہزار سے زائد ووٹر اپنا حقِ رائے دہی استعمال کریں گے۔ مرد ووٹرزکا تناسب 53.87فیصد جبکہ خواتین ووٹرز کا تناسب 46.13فیصد ہے۔ اسلام آباد میں ووٹرز کی کل تعداد 10لاکھ 83 ہزار سے زائد ہے۔ بلوچستان میں 53لاکھ 71ہزار سے زائد رجسٹرڈ ووٹرز ہیں۔ خیبر پختونخوامیں مجموعی ووٹرز کی تعداد دوکروڑ 19لاکھ 28ہزار سے زائد ہے۔ سندھ میں ووٹرز کی کل تعداد دو کروڑ 69 لاکھ 94 ہزار سے زائد ہے۔ پنجاب میں ووٹرزکی کل تعداد سات کروڑ 32 لاکھ 7ہزار سے زائد ہے۔ الیکشن کمیشن کے مطابق ملک میں 18سے 35 سال تک کے ووٹرزکی تعداد پانچ کروڑ 68 لاکھ سے زائد ہے اور مجموعی ووٹرز میں ان کی شرح 44 فیصد سے زائد بنتی ہے۔
فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافن) کی ایک رپورٹ کے مطابق رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہونے سے بھارت‘ انڈونیشیا‘ امریکہ اور برازیل کے بعد پاکستان دنیا کی پانچویں بڑی جمہوریت بن گیا ہے۔مذکورہ رپورٹ کے مطابق ملکی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ خواتین ووٹرز کی رجسٹریشن میں اضافے کا رجحان دیکھا گیا۔ 2018ء میں ووٹرز کا صنفی فرق 11.8 فیصد تھا جو اَب 7.7 فیصد رہ گیا ہے۔ 2018ء کے بعد خواتین ووٹرز کی رجسٹریشن مردوں سے بڑھ گئی ہے۔ نئے رجسٹرڈ‘ دو کروڑ 25 لاکھ ووٹرز میں ایک کروڑ 25 لاکھ خواتین اور ایک کروڑ مرد ہیں۔ 2018ء میں 85 اضلاع میں صنفی فرق 10 فیصد سے زیادہ تھا‘ اب ان اضلاع کی تعداد 85 سے کم ہو کر 24 رہ گئی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ قومی اسمبلی کے جن حلقوں میں صنفی فرق 10 فیصد سے زائد تھا‘ ان کی تعداد 173 سے کم ہو کر 38 رہ گئی ہے جن میں خیبر پختونخوا سے 12‘ بلوچستان سے 11‘ سندھ سے 10 اور پنجاب سے قومی اسمبلی کے پانچ حلقے شامل ہیں۔ رپورٹ کے مطابق صوبائی اسمبلی کے جن حلقوں میں صنفی فرق 10 فیصد سے زائد تھا ان کی تعداد اَب 398 سے کم ہو کر 102 رہ گئی ہے۔ ان میں سندھ اسمبلی کے 31‘ بلوچستان اسمبلی کے 30‘ خیبر پختونخوا اسمبلی کے 24 اور پنجاب اسمبلی کے 17 حلقے شامل ہیں۔
ملک میں عام انتخابات کے دوران مختلف سیاسی جماعتوں کے ووٹرز کے نزدیک عام انتخابات کے نتائج کی قبولیت سے متعلق بھی اپسوس کا ایک نیا سروے جاری کیا گیا ہے جس کے مطابق ہر چار میں سے تین پاکستانی انتخابی نتائج قبول کرنے کو تیار ہیں۔ اس تازہ سروے میں 76 فیصد پاکستانیوں نے کہا کہ وہ انتخابی نتائج تسلیم کریں گے۔ انتخابات میں حصہ لینے والی سیاسی جماعتوں کے اعتبار سے کیے گئے جائزے میں پیپلز پارٹی کے 94 فیصد‘ مسلم لیگ (ن) اور جماعت اسلامی کے 87اور پی ٹی آئی کے 67 فیصدووٹرز نے کہا ہے کہ وہ عام انتخابات کے نتائج تسلیم کریں گے۔مجموعی طور پر 76 فیصد پاکستانیوں نے انتخابی نتائج کی قبولیت کا عندیہ دیا جبکہ صرف سات فیصد کا کہنا تھا کہ وہ نتائج کو قبول نہیں کریں گے۔ سروے کے مطابق نتائج تسلیم کرنے پر آمادہ ووٹرز کی زیادہ تعداد کا تعلق دیہی علاقوں سے ہے۔ سروے میں عمر کے لحاظ سے نتائج کی قبولیت کی شرح عمر بڑھنے کے ساتھ بڑھتی نظر آتی ہے۔ 18 سے24 سال کے ووٹرز میں سے 72 فیصد نتائج ماننے کو تیار ہیں جبکہ 11 فیصد نے مسترد کرنے کا فیصلہ کیا۔ دوسری جانب 51 سے 65 سال تک کی عمر کے ووٹرز میں انتخابی نتائج قبول کرنے کا رجحان 82 فیصد اور نہ ماننے کا رجحان محض 7 فیصد رہا۔ علاقائی سطح پر خیبرپختونخوا کے 79 فیصد ووٹرز نتائج قبول کرنے کو تیار ہیں جبکہ نہ ماننے والوں کی شرح صرف چار فیصد ہے۔ پنجاب میں نتائج تسلیم کرنے والوں کی تعداد 78 فیصد جبکہ مسترد کرنے والوں کی تعداد 6 فیصد رہی۔ سندھ میں نتائج تسلیم کرنے والوں کی شرح 74 فیصد جبکہ نہ ماننے والوں کی 11 فیصد تک ہے۔ انتخابی نتائج مستردکرنے کا فیصلہ کرنے والے ووٹرز کی سب سے زیادہ تعداد وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں 40 فیصد تک ہے۔
فافن نے اپنی ایک رپورٹ میں یہ بھی لکھا کہ قابلِ بھروسہ انتخابات ہی سے تمام سیاسی جماعتوں اور عوام کا اعتماد قائم ہو سکتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ انتخابات کی ساکھ کیلئے قانونی تقاضوں کو پورا کرنا بہت اہم ہے‘ ووٹرز کو آزادی سے حقِ رائے دہی کے قابل بنانے کیلئے انتخابی عمل کے تمام متعلقہ فریقین کو اجتماعی کاوشیں کرنا ہوں گی۔ الیکشن قوانین کے مطابق ووٹوں کی گنتی‘ نتائج کو مکمل شفاف بنانے کیلئے بھی اجتماعی کوششیں کرنا ہوں گی۔ اگرچہ کئی سیاسی جماعتوں نے انتخابات کو لے کر لیول پلینگ فیلڈ کا مسئلہ اٹھایا؛ تاہم یہ ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ تمام چھوٹی‘ بڑی سیاسی جماعتیں انتخابات کی دوڑ میں شامل ہیں۔ دفعہ 8 (بی) کے تحت الیکشن کمیشن کو اختیار حاصل ہے کہ وہ ریٹرننگ افسروں کی جانب سے ووٹوں کو مسترد کیے جانے والے فیصلوں پر بھی نظرثانی کرے‘ یہ کام ضرور کیا جانا چاہیے۔ ہر انتخابی حلقے سے موصول ہونے والے پوسٹل بیلٹس کی تعداد کو پولنگ ختم ہونے سے قبل الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر جاری کیا جائے۔ انتخابی امیدواروں‘ پولنگ ایجنٹس اور آبزرورز کو گنتی کرنے والے عملے کے مشاہدے کی اجازت دینے کیلئے پریذائیڈنگ افسروں کو پابند کیا جائے۔ آبزرورز کو پولنگ عمل سے قبل اور اس کے دوران مشاہدے کیلئے رسائی فراہم کی جائے۔ انتخابی امیدواروں‘ ان کے ایجنٹس کو ووٹوں کی گنتی کے فارم 45 اور بیلٹ پیپرز کی گنتی کے فارم 46 کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔ ریٹرننگ افسروں کو پابند کیا جائے کہ وہ امیدواروں‘ ان کے ایجنٹس اور مبصرین کو فارم47‘ فارم48 اور فارم49 کی نقول فراہم کریں۔ پولنگ والے دن مجاز میڈیا نمائندوں کو پولنگ سٹیشنز تک رسائی اور انتخابی عمل پر رپورٹنگ کی اجازت ہونی چاہیے۔ پولنگ سٹیشنز کی حتمی لسٹ میں کسی بھی تبدیلی کی کمیشن کی جانب سے منظوری کو حلقہ وار‘ الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر جتنا جلد ممکن ہو‘ شائع کیا جائے۔ خواتین ووٹرز کو روکنے کی کسی بھی کوشش کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved