بجلی کی قیمتوں میں ایک بار پھر خوفناک اضافہ ظاہر کرتا ہے کہ موجودہ حکمران آئی ایم ایف جیسے سامراجی اداروں کا حکم بجا لاتے ہوئے محنت کش عوام کے خون کا آخری قطرہ بھی نچوڑ لینا چاہتے ہیں۔ایک گھنائوناکھلواڑ ہو رہا ہے۔حکومت بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کرتی ہے، عدلیہ اس کو کالعدم قرار دیتی ہے۔ کچھ دنوں بعد پھر مہنگائی کی جاتی ہے، اعلیٰ عدالت میں پھر رٹ ہوتی ہے، مقدمے بازیاں اور قانونی کارروائیاں جاری رہتی ہیں جبکہ عوام مہنگائی اور معاشی بدحالی کی دلدل میں دھنستے چلے جاتے ہیں۔بزرگوں کی کہاوت ہے کہ کسی بوڑھ کے درخت کے گرد302کی پٹی باندھ دی جائے تو وہ بھی سوکھ جاتا ہے۔ ہمارا عدالتی نظام ایسا ہے کہ نسلیں گزر جاتی ہیں لیکن مقدمات چلتے رہتے ہیں، قانونی معاملات سلجھنے کی بجائے اور بھی پیچیدہ ہو جاتے ہیں۔ عدلیہ عوام پر رحم کھاتے ہوئے قیمتوں میں اضافہ رکوانے کے اقدامات کرتی ہے، لیکن قانونی پیچیدگیوں میں سارا معاملہ ہی گول ہوجاتا ہے۔ کئی برسوں سے جاری جوڈیشل ایکٹوزم کے باوجود مہنگائی میں مسلسل اضافہ ہوا ہے۔درحقیقت موجودہ نظام کے تحت تشکیل شدہ ریاستی ادارے نہ تو اس کے تقاضوں سے انحراف کر سکتے ہیں اور نہ ہی اس پر ضرب لگا سکتے ہیں۔سرمایہ دارانہ ڈھانچے کی حدود میں کام کرنے والی ہر ریاست، ہر سیاست، ہر نظریہ اور ہر رجحان اسی نظام کو تقویت بخشتا ہے۔طبقاتی سماج میں بالادست طبقات کی حاکمیت، استحصال اور ظلم ناگزیر ہوتا ہے۔ حکمران طبقہ کبھی کھل کر وار کرتا ہے تو کبھی قانون کے لبادے میں چھپا کر محنت کرنے والوں پر پوشیدہ حملے کئے جاتے ہیں۔ موجودہ حکومت نے برسر اقتدار آتے ہی سب سے پہلے ان اجارہ داریوں کے گردشی ’’قرضے‘‘اتارنے کی مد میں تقریباً 500ارب روپے ادا کئے جو پچھلی دو دہائیوں سے اس ملک میں لوٹ مار کا بازار گرم کئے ہوئے ہیں۔کوئی آڈٹ نہیں کیا گیا، کوئی جانچ پڑتال نہیں ہوئی اور نہ ہی اس امر کو یقینی بنایا گیا کہ اس ادائیگی کے بعد بجلی پیدا کرنے کی پوری صلاحیت بروئے کار لائی جائے گی۔جس قیمت پر یہ نجی کمپنیاں سرکاری گرڈ کو بجلی فروخت کر رہی ہیں ان کا تعین کس نے کیا ہے؟بجلی کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے کے باوجود لوڈ شیڈنگ تاحال جاری ہے۔آئی ایم ایف سے بھاری شرح سود اور تلخ شرائط پر حاصل کئے گئے 6.7ارب ڈالر پرانے قرضوں پر سود کی ادائیگی پر صرف ہوجائیں گے۔دوسری طرف آئی ایم ایف کے حکم پرکی جانے والی روپے کی قیمت میں کمی سے ریاستی قرضے کا حجم مزید بڑھ رہا ہے۔یہ معاشی جارحیت یہیں پر ختم نہیں ہوتی بلکہ قرضہ دینے والے سامراجی اداروں کی شرائط عوام کو کچل دینے والی ہیں۔ ان شرائط میں بجلی، تیل اور دوسری ضروریات زندگی پر حکومتی سبسڈی کا خاتمہ سر فہرست ہے لیکن عام آدمی کی آمدن میں کوئی اضافہ نہیں ہو رہا بلکہ بے قابو افراط زر درمیانے طبقے کی جمع پونجی کو نگلتا جارہا ہے۔ اس ملک کی معاشی پالیسیاں مرتب کرنے والے سامراجی ادارے دراصل ملکی و غیر ملکی بنکوں اور مالیاتی و صنعتی اجارہ داریوں کے مفادات کے محافظ ہیں۔چنانچہ حکومت کی طرف سے نافذ کی جانے والی ہر معاشی پالیسی کا مقصد عوام کی فلاح و بہبود نہیں بلکہ سرمایہ داروں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے منافعوں میں اضافہ ہے۔ ہمیں اس ملک کے بڑے سرمایہ دار اہم ترین پالیسی ساز اداروں کے اجلاسوں میں بیٹھتے نظر آتے ہیں۔ان سرمایہ داروں کی باڈی لینگویج بتاتی ہے کہ ان کی طاقت، اختیارات اور قدر و منزلت وفاقی وزیروں اور سرکاری افسران سے زیادہ ہے۔یہی سرمایہ دار بجلی پیدا کرنے والی نجی کمپنیوں، مقامی بنکوں اور صنعتوں کے مالکان یا شیئر ہولڈر ہیں اور اب یہی حضرات سٹیل مل، پی آئی اے، ریلوے سمیت 65ریاستی اداروں کو کوڑیوں کے بھائو خریدنے کے لئے چالبازی کر رہے ہیں۔یہ وہ گدھ ہیں جو قریب ا لمرگ جانور کے گرد منڈلاتے رہتے ہیں تاکہ مرنے کے بعد اس کی بوٹیاں نوچ نوچ کر کھا سکیں۔نج کاری کے لئے پچھلے لمبے عرصے سے خوفناک مہم جاری ہے۔ریاستی اداروں کی خستگی اس ریاست اور نظام کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے اور جس طرح انہیں بیچنے کی تیاریاں کی جارہی ہیں اس سے پتا چلتا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام میں قائم ہونے والے عوامی ادارے اور ریاستی سیکٹر دراصل حکمرانوں کے لئے قربانی کی گائے کا درجہ رکھتے ہیں۔جب تک مالیاتی سرمائے کا جبر موجود ہے اس سماج کا ہر ادارہ سرمایہ دارانہ نظام معیشت اور اس کے قوانین کا محکوم رہتا ہے۔نجی اداروں کا مقصد اور قوت محرکہ ہی منافع اور شرح منافع ہوتی ہے۔محنت کشوں کی اجرتوں میں کمی اور سہولیات کا خاتمہ، کام کے بدترین حالات ،کم سے کم ملازمین سے زیادہ سے زیادہ کام اور خدمات یا اجناس کی قیمتوں میں اضافہ نجکاری کا لازمی نتیجہ ہوتے ہیں۔ ٹرک اور گاڑیاں بنانے والی برطانیہ کی ایک کمپنی کے مالک سے 1960ء کی دہائی (جب اس کمپنی کا شمار دنیا کی بڑی کمپنیوں میں ہوتا تھا) میںجب یہ سوال پوچھا گیا کہ’’ آپ اتنے بڑے پیمانے پر گاڑیاں کیسے بناتے ہیں؟‘‘ تو اس نے جواب دیا کہ ’’میں گاڑیاں نہیں پیسے بناتا ہوں۔‘‘ سرمایہ دارانہ نظام میں پیداوار کا مقصد وہ نہیں ہوتا ہے جو بظاہر نظر آتا ہے۔یہاں ہر چیز منافع کے لئے پیدا کی جاتی ہے۔محنت کشوں کی اجرت ان کی پیدا کی گئی قدر سے ہمیشہ کم ہوتی ہے۔ مثلاً ایک محنت کش اگر آٹھ گھنٹے کام کرتا ہے تو اسے ایک گھنٹے یا شاید اس سے بھی کم کام کی اجرت دی جائے گی۔محنت کش کی پیدا کردہ قدر اور اسے ملنے والی اجرت میں یہی فرق ’’قدر زائد‘‘ کہلاتا ہے جو منڈی میں اپنا اظہار منافعے کی شکل میں کرتا ہے۔ یہ فرق جتنا زیادہ بڑھے گا‘ شرح منافع اتنی ہی زیادہ ہوگی۔ یعنی شرح منافع میں اضافے کے لئے ضروری ہے کہ محنت کش طبقے سے کم سے کم اجرت پر زیادہ سے زیادہ کام لیا جائے۔یہی سرمائے کا وہ استحصال ہے جو صدیوں سے جاری ہے۔اس نظام کا المیہ یہ ہے کہ محنت کش اپنی محنت کے ثمرات سے بھی محروم رہتا ہے۔یہی کیفیت محنت کشوں میں احساس بیگانگی کو جنم دیتے ہوئے اپنا اظہار مختلف سماجی محرومیوں کی صورت میں کرتی ہے۔ میڈیا سے لے کر تعلیم، مذہب اور ثقافت تک… اس نظام کا ہر ادارہ اور ہر رجحان اس کے استحصال کو جائز اور ’’فطری‘‘ بنا کر پیش کرتا ہے۔اس نظام پر یقین رکھنے والے اہل دانش آخری تجزیے میں حکمران طبقے کے گماشتہ ہوتے ہیں اور محنت کش عوام کے شعور اور نفسیات کو اس نظام کی حاکمیت کا مطیع اور محکوم بنانے میں سرگرم رہتے ہیں۔ لیکن دوسری طرف ظلم، استحصال اور ذلت کے خلاف عوام کے سینوں میںنفرت، حقارت اور بغاوت پکتی رہتی ہے۔ یہ عمل پریشر ککر میں بھرنے والی بھاپ کی طرح ہوتا ہے جسے کبھی نہ کبھی پھٹنا ہوتا ہے۔جب سماج کا یہ پریشر ککر پھٹتا ہے تو پورا معاشرہ غیر معمولی حالات و واقعات سے دوچار ہوتا ہے۔اس سماجی ہل چل میں پرانا اقتدار ، رائج الوقت اخلاقیات اور قدریں دم توڑ دیتی ہیں،نسل در نسل ذہنوں پر جمی غلامی اور بیگانگی کی کائی صاف ہوجاتی ہے، ظلمت کی سیاہی چھٹ جاتی ہے۔تمام انفرادی کاوشوں کے باوجود ایک بہتر زندگی کے حصول میں ناکامی، محنت کشوں کو اشتراکی شعور اور طبقاتی جرأت عطا کرتی ہے۔جب وہ ایک تحریک کی شکل میں تاریخ کے میدان میں اترتے ہیں تو ناقابل تسخیر قوت بن جاتے ہیں۔اسی صورتحال کو انقلاب کہا جاتا ہے۔مارکس نے کہا تھا ’’جب عوام ایک انقلابی نظریے کو اپناتے ہیں تو وہ نظریہ ٹھوس مادی قوت بن جاتا ہے۔‘‘یہ انقلابی قوت ہر رکاوٹ ، ہر جبر کو پاش پاش کردیتی ہے۔ آج حکمران اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ طبقاتی کشمکش ختم ہو چکی ہے لیکن طبقاتی تضادات سماج میں ہر سطح پر لاوے کی طرح پک رہے ہیں۔ اس سماجی آتش فشاں کو پھٹنے میں اب شاید زیادہ وقت نہیں لگے گا: رکے ہوئے ہیں جو دریا انہیں رکا مت سمجھ! یہ بہہ نکلے تو چیر دیں گے کلیجے پہاڑوں کے
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved