تحریر : امیر حمزہ تاریخ اشاعت     09-02-2024

ہار‘ جیت کا دن

اللہ تعالیٰ نے ہی تمام دن پیدا فرمائے ہیں۔ جمعرات کے دن ملک بھر میں الیکشن ہوئے‘ پولنگ کا ٹائم ختم ہوا تو نتائج آنا شروع ہو گئے۔ جونہی سورج غروب ہوا‘ جمعۃ المبارک کی رات کا آغاز ہو گیا۔ نتائج نے بھی رفتار پکڑ لی۔ رات بیت گئی تو جمعۃ المبارک کا سورج طلوع ہو گیا۔ اب نتائج واضح ہونا شروع ہو گئے۔ جمعۃ المبارک کا سورج غروب ہونے سے پہلے یہ نتائج حتمی شکل کے قریب پہنچ جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ کے حضور دعا ہے کہ جمعۃ المبارک کا دن تمام اہلِ پاکستان کیلئے برکتوں بھرا دن بن جائے‘ ہمیں استحکام ملے اور پاکستان دن دُگنی اور رات چوگنی ترقی کرتا خوشحالی کی شاہراہ پر گامزن ہو جائے۔اللہ کے رسولﷺ کی ایک حدیث مبارکہ ہے ''بہترین دن کہ جس پر سورج طلوع ہوتا ہے وہ جمعہ کا دن ہے‘ اسی میں آدم علیہ السلام کو پیدا کیا گیا‘ اسی دن انہیں جنت میں داخل کیا گیا۔ (یاد رکھو!) جمعہ کے دن کے علاوہ کسی اور دن میں قیامت قائم نہ ہوگی‘‘(صحیح مسلم: 854)۔ قارئین کرام! حضور کریمﷺ نے واضح کر دیا کہ زمین پر جب سے سورج نے طلوع ہونے کا آغاز کیا ہے تب سے جمعہ کا دن سب سے بہترین دن ہے۔ آج یہ دن بعض لوگوں کی جیت اور بعض لوگوں کی ہار کا دن بن گیا ہے۔ جیتنے والے خوشیاں منا رہے ہیں اور ہارنے والے سوگوارصورتحال سے دوچار ہیں‘ ایسی صورتِ حال ہمارے ملک میں کچھ اس وجہ سے بھی ہے کہ ہم لوگ صرف الیکشن میں الیکٹ یا ریجیکٹ ہونے ہی کو جمہوریت سمجھتے ہیں۔ حالانکہ جمہوریت تو جمہوری رویوں کا نام ہے۔ ہار‘ جیت کے دن اولین جمہوری رویہ یہ ہے کہ جیتنے والا پھولوں کا ہار اور مٹھائی کا ٹوکرا لے کر ہارنے والے بھائی کے گھر جائے‘ اس کے گلے میں ہار ڈالے‘ محبت بھرا معانقہ کرے‘ ایک لڈو پکڑے‘ آدھا اپنے بھائی کے منہ میں ڈالے اور باقی نصف اپنے منہ میں ڈالے اور پھراپنے میٹھے منہ سے یہ میٹھا بول بولے: میرا بھائی ہارا نہیں‘ جیتا ہے‘ میری جیت میرے بھائی کی جیت ہے۔ یقین جانیے! جو ایسا کرے گا جمعہ کا دن اس کی شریفانہ اور کریمانہ سیاست کیلئے برکتوں بھرا بن جائے گا۔ ایسا سیاستدان اپنی سیاست کو اچھے اخلاق کا چمکتا ہوا ستارا بنا ڈالے گا۔ ایسے جمہوری کلچر کا اگر جمعہ کے دن آغاز ہو جائے تو ہمارے پاک وطن کی جیت کا آغاز ہو جائے گا۔ جوں جوں ہم اس مہذب کلچر میں آگے بڑھتے چلے جائیں گے‘ توں توں پاکستان کی جیت دنیا کے میدان میں چوکڑیاں بھرتی چلی جائے گی۔ ہماری قسمت کی مانگ میں یہ جیت کہکشاں بنتی چلی جائے گی، ان شاء اللہ تبارک و تعالیٰ!
لوگو! ہمارے عظیم رسول گرامیﷺ نے اگلی بات یہ ارشاد فرمائی کہ جمعہ کے دن ہی حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کیا گیا۔ جیتنے والے قائد حزبِ اقتدار کی خدمت میں شریفانہ سی درخواست ہے کہ وہ اعلان کر دیں کہ میں 25کروڑ عوام کا وزیراعظم ہوں‘ پاکستان کی ٹرین میں سب کو سوار کرکے چلوں گا‘ عدل کے ساتھ چلوں گا‘ انصاف کے ساتھ چلوں گا‘ وطن اور اہلِ وطن پر ظلم کرنے والے مجرموں کیلئے قانون کے راستے میں کسی کو رکاوٹ نہ بننے دوں گا‘ میرٹ کی گردن پر کسی کو دبائو نہ ڈالنے دوں گا۔ ہم سب کا باپ ایک ہے۔ وہ حضرت آدم علیہ السلام ہیں۔ وہ جمعہ کے دن پیدا کیے گئے‘ ہمیں جمعہ کے دن کامیابی کا رزلٹ ملا۔ ہم اہلِ پاکستان کو ایک نئی قوم بنائیں گے۔ حوصلہ‘ برداشت‘ باہمی احترام‘ سچائی اور دیانت و امانت کو اپنا شعار بنائیں گے۔جی ہاں!حضور نبی کریمﷺ کے فرمان کے مطابق: ہم سب جنت سے نکل کر زمین پر آئے ہیں تو زمین پر ہمارے قیام کی مدت انتہائی تھوڑی ہے‘ لہٰذا ہم لوگوں نے پاکستان کی زمین پر رہتے ہوئے جمعہ کے اس دن کو سامنے رکھ کر تھوڑا سا وقت گزارنا ہے کہ جس جمعہ کو قیامت کا دن قائم ہو جائے گا‘ اصلی اور حقیقی ہار جیت کا دن وہی دن ہوگا۔ قارئین کرام! راقم کی چاہت اور خواہش ہے کہ میرے پیارے وطن کا قائدِ حزبِ اقتدار جب وزارتِ عظمیٰ کا حلف اٹھائے تو اقتدار میں شامل اپنے ساتھیوں کو سیدھا رکھنے کیلئے ہار جیت کا اصلی دن یاد دلاتا رہے۔ اس سے ہمارے وزیراعظم کی عزت و شرف میں مزید اضافہ ہوتا جائے گا۔ ہم اہلِ پاکستان بھی جب قیامت والے جمعہ کو سامنے رکھنا شروع کردیں گے تو یقینا باہم عزت و شرافت کے جمہوری رویے اختیار کرتے چلے جائیں گے۔
قارئین کرام! قرآن مجید میں ایک سورت ہے ''التغابن‘‘۔ اس کا معنی ہار‘ جیت ہے۔ آخری آسمانی کتاب تمام اہلِ ایمان کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرماتی ہے ''اللہ اور اس کے رسولﷺ پر ایمان لائو اور اس نور (قرآن) پر بھی ایمان لائو جسے ہم نے نازل فرمایا جس جمع ہونے والے دن میں وہ (اللہ جبار) تم سب کو اکٹھا کرے گا وہی ہار‘ جیت کا دن ''یوم التغابن‘‘ ہوگا۔ جو بھی اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے گا‘ نیک اعمال کرے گا‘ اللہ ایسے شخص کی لغزشوں کو اس سے دور کر دے گا اس کے بعد اسے ایسے باغ ہائے بہشت سے نوازے گا جن کے نیچے نہریں رواں دوں ہوں گی۔ یہ لوگ ان میں ہمیشہ رہیں گے۔ یہی عظیم کامیابی ہے‘‘ (التغابن: 8 تا 9)۔ میری تجویز اور شرف و افتخار کا حامل مشورہ یہ ہے کہ جب ہمارا نیا وزیراعظم حلف اٹھائے تو حلف سے قبل قاری صاحب مندرجہ بالا آیات کی تلاوت کریں‘ ہمارے معاشرے میں ہار‘ جیت کے کلچر کو قرآنی سند مل جائے گی؛ چنانچہ وہ کلچر جمہوری رویوں کا حامل بنتا چلا جائے گا۔ ان شاء اللہ تعالیٰ!
تین دہائیاں قبل جب میاں نواز شریف وزیراعظم پاکستان تھے تو وہ جب ازبکستان کے سرکاری دورہ پر گئے تو سمرقند کے گائوں خرتنگ میں حضرت امام محمد بن اسماعیل بخاریؒ کی قبر مبارک پر بھی گئے۔ 1992ء میں مجھے بھی وہاں حاضر ہونے کا بحمدللہ موقع ملا۔ اس عظیم امام نے اپنی صحیح بخاری میں ''کتاب المظالم‘‘ بھی لکھی ہے‘ اس کے پہلے باب کا نام ''قصاص المظالم‘‘ ہے؛ یعنی ظلم اور زیادتی کا بدلہ لیا جائے گا۔ اس پہلے باب کے تحت پہلی حدیث جو امام بخاریؒ لائے ہیں‘ اس کے راوی حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ ہیں۔ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسولﷺ نے ارشاد فرمایا ''جب اہلِ ایمان آگ سے نجات حاصل کر لیں گے (قیامت والے دن جیت جائیں گے) تو انہیں جنت اور جہنم کے ایک پل ''قنطرۃ‘‘ پر روک لیا جائے گا‘ وہاں ان سے ان ظلموں کا بدلہ لیا جائے گا جو انہوں نے دنیا میں ایک دوسرے پر ڈھائے تھے۔ جب وہ پاک صاف ہو جائیں گے تب انہیں جنت میں داخل ہونے کی اجازت دی جائے گی۔ اس ذات کی قسم اٹھا کر کہتا ہوں کہ جس کے ہاتھ میں میری جان ہے‘ ہر شخص جنت میں اپنی رہائش گاہ (محل) کو اس گھر سے بہتر طور سے پہچان لے گا جس میں وہ دنیا کے اندر رہتا تھا‘‘ (بخاری: 2440)۔ یاد رہے! صراط کہ جسے ہم پُل صراط کہتے ہیں‘ وہ جہنم کے اوپر ہے۔ وہاں سے جب نجات مل جائے گی تو اس کے بعد ''قنطرۃ‘‘ نامی پُل ہوگا کہ جس پر مومنوں کو ظلم و زیادتی کے بدلے دیتے ہوئے نجانے کتنا وقت لگے گا۔ 50 ہزار سال کے حامل اس روزِ قیامت کو بدلہ دیتے ہوئے کتنے ہزار یا کتنے سو سال لگیں گے۔ ظلم کے مطابق ٹائم لگے گا‘ پھر ہی جنت میں جانا ہو گا۔ جیتنے والے امیدواروں کو سوچ لینا چاہئے کہ انہوں نے اگر اپنے مخالف کو اپنے اقتدار کی قوت سے‘ کسی ظلم کا شکار کر لیا یا ہارنے والے نے حسد میں آکر کوئی ظلم کر لیا تو دنیا میں کیا ہوا ظلم قیامت کے دن شکست و ہزیمت کا باعث ضرور بن جائے گا۔ لہٰذا! آئیے! صالح کردار کے حامل مسلمان اور پاکستانی بنیں۔ دل اور بازو باہم فراخ کریں۔ ہار‘ جیت کے اصل اور حقیقی دن کو سامنے رکھیں۔ دنیا چند روز کے دھوکے کی جگہ ہے۔ ستر‘ اسی سال کی زندگی یا پچاس‘ ساٹھ سال کی چند روزہ زندگی میں اسمبلی کی رکنیت محض پانچ سال ہے۔ یا مولا کریم! توفیق عطا فرما کر تمام ممبرانِ اسمبلی اپنے فرائض میں کامران ہوں‘ موت کے وقت بھی کامرانی سے جائیں‘ قبر میں بھی کامیاب ہوں اور حشر کے دن بھی ''قنطرۃ‘‘ پر رکے بغیر آگے بڑھ جائیں، آمین!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved