وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں لوگوں کو اپنا ووٹ کاسٹ کرنے کے لیے سڑکوں پر لائنوں میں کھڑا ہو کر انتظار کرتے دیکھنا میرے لیے بالکل نیا اور حیران کن تھا۔ اسلام آباد والوں کے بارے میں ایک تاثر ہے کہ یہ نازک مزاج لوگ ہیں‘ زیادہ سختی کے عادی نہیں۔ یہ وی آئی پیز‘ بابوز اور ایلیٹ کلاس کا شہر ہے مگر لوگ صبح صبح سکولوں‘ کالجوں کے باہر قطار میں کھڑے تھے اور اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے۔ بزرگ‘ مرد و خواتین اور نوجوان نسل نے بہت بڑی تعداد میں ووٹ کاسٹ کیے۔ طویل قطاروں میں لوگوں کا صبر دیکھ کر مجھے خوشی ہوئی کہ یہ لوگ جمہوری عمل میں اپنا حصہ ڈالنے نکلے ہیں۔ جس سکول میں مَیں نے ووٹ کاسٹ کیا‘ وہاں اتنی طویل قطار تھی کہ کمرے سے نکل کر یہ قطار سکول کے میدان تک پہنچ رہی تھی۔ جس سکول میں میری بہن نے ووٹ کاسٹ کیا‘ وہاں قطار سکول کے گیٹ سے باہر تک موجود تھی۔ اُس کو ووٹ کاسٹ کرنے میں دو گھنٹے سے بھی زائد وقت لگا مگر میں کچھ خوش قسمت ثابت ہوئی۔ بس پندرہ منٹ میں ووٹ کاسٹ کر دیا۔ میرے پولنگ سٹیشن میں تین پولنگ بوتھ تھے لیکن جہاں میں نے ووٹ دینا تھا‘ وہاں رش قدرے کم تھا‘ اسی وجہ سے مجھے جلد ووٹ کاسٹ کرنے کا موقع مل گیا۔ جب پولنگ بوتھ پر میرا نام پکارا گیا: جویریہ صدیق زوجہ ارشد شریف‘ تاکہ پریزائڈنگ افسر اور پولنگ ایجنٹس لسٹ میں میرا نام مارک کر دیں‘ اس وقت میرے ذہن میں خیال آیا کہ ارشد اور میں جمہوریت کی بقا کیلئے اب بھی ساتھ ہیں۔ وہ اس ملک میں حقیقی جمہوریت کے خواہاں تھے‘ میں نے بھی ہمیشہ اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے ووٹ دیا مگر اس بار کا ووٹ شہید ارشد شریف کے نام تھا۔
بیلٹ پیپرز پہ کوئی بیس‘ پچیس نشان تھے‘ اس کو فولڈ کرنا مشکل ترین مرحلہ تھا۔ پہلے انگوٹھے پر لگی سیاہی کو ٹشو سے خشک کیا‘ پھر مہر کے نشان کو پھونکیں مارتی رہی کہ کہیں دوسرے امیدوار کے خانے پر چھاپ نہ لگ جائے۔ ووٹ کاسٹ کرنے کا مرحلہ طے کر کے باہر نکلی تو بہت سی خواتین نے میرے سر پر دستِ شفقت رکھا اور شہید ارشد کے لیے بہت سی دعائیں دیں۔ میں عموماً لو پروفائل رہنے کی کوشش کرتی ہوں مگر جب میرا نام پکارا گیا تو دیگر ووٹرز کو علم ہو گیا اور خواتین نے آگے بڑھ کر مجھے عزت اور پیار دیا۔ مجھے فخر بھی ہوا اور ارشد کی کمی بھی شدت سے محسوس ہوئی‘ نم آنکھوں سے میں پولنگ سٹیشن سے باہر آئی۔ پچھلے دو الیکشنز اور ایک ضمنی الیکشن میں ہم دونوں ایک ساتھ ووٹ ڈالنے گئے تھے مگر اس بار میں اکیلی تھی۔
پولنگ کے دوران میں نے یہ بات بھی محسوس کی کہ وہاں پر عملے کو کوئی خاص سہولتیں فراہم نہیں کی گئی تھیں۔ وہ چائے‘ کھانے حتیٰ کہ پانی سے بھی محروم تھے۔ محدود سامان کے ساتھ وہ کام چلارہے تھے اور بہت خوش دلی سے کام کر رہے تھے۔ پولنگ عملے میں بیشتر اساتذہ تھے اور شکوہ کر رہے تھے کہ ایک تو ہم ڈیوٹی کی وجہ سے اپنا ووٹ نہیں دے پاتے‘ دوسرا سہولتوں کی کمی کے ساتھ کام کرنا بہت مشکل ہے۔ اس کے باوجود وہ تمام ووٹرز کی انتخابی عمل میں معاونت کر رہے تھے۔ میں نے حلقہ این اے 46 اور 47 کو بطور صحافی کور بھی کیا اور متعدد تصاویر بنائیں۔ جی نائن کے حلقے میں بہت رونق تھی۔ ووٹ کی پرچی بنانے کیلئے جماعت اسلامی‘ مسلم لیگ (ن) ، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے کیمپس پر خاصا رش تھا۔ دیگر جماعتوں اور بعض آزاد اراکین نے بھی شامیانے لگا کر دفاتر بنا رکھے تھے۔ وہ بچے‘ جن کی عمر اب 18 سال ہو چکی ہے‘ بڑی تعداد میں ووٹ دینے آئے تھے۔ اکثر لوگوں کے ساتھ چھوٹے بچے بھی تھے‘ یوں خوانچہ فروشوں کی چاندی ہو گئی۔ کچھ لوگ لائنوں میں کھڑے‘ مکئی کے بھٹے کھا رہے اور دھوپ سینک رہے تھے۔ اسلام آباد میں سورج کی تیز کرنوں کے ساتھ ٹھنڈی ہوا موسم کو بہترین بنا رہی تھی۔ جب میں سیکٹر جی ٹین اور جی الیون گئی تو وہاں لوگوں نے ہر سیکٹر سے متصل پارک میں انتخابی دفاتر بنا رکھے تھے۔ ایک طرف لوگ انتخابی پرچی بنوا رہے تھے اور دوسری طرف بچے پارکس میں جھولا جھولنے میں مگن تھے۔ ایسا لگ رہا تھا کہ کوئی فیسٹیول یا فنکشن ہو رہا ہے۔ یہ اعتراف بھی ضروری ہے کہ الیکشن بہت پُرامن ماحول میں منعقد ہوئے جس کا کریڈٹ اسلام آباد کی انتظامیہ‘ پولیس‘ رینجرز‘ فوج اور ٹریفک پولیس کو جاتا ہے۔
پولنگ سٹیشنز پر لوگوں کی بڑی تعداد موجود تھی ۔ کئی بزرگوں کو چلنے میں مشکل پیش آ رہی تھی لیکن وہ لاٹھی کا سہارا لے کر آئے اور ووٹ کاسٹ کیا۔ پولنگ سٹیشنوں پر خصوصی افراد کیلئے انتظامات کی کمی تھی‘ بہت سے سکولوں میں ریمپس نہیں بنے ہوئے‘ لوگ اپنی مدد آپ کے تحت ان افراد کو مقررہ بوتھ تک پہنچا رہے تھے۔ لائنوں میں کھڑے لوگ خوش گپیوں میں مصروف تھے اور اس بات پر افسوس کا اظہار بھی کر رہے تھے کہ اتنے اہم موقع پر حکومت نے موبائل اور انٹرنیٹ سروس بند کر کے غیر مناسب قدم اٹھایا ہے۔ اس طرح ووٹرز اور سپورٹرز کو بہت مشکل پیش آئی لیکن لوگ پھر بھی گھروں سے باہر نکلے۔ موبائل سروس کی بندش کی وجہ سے صحافی بھی بہت متاثر ہوئے اور ان کو فرائض کی ادائی میں شدید مشکلات پیش آئیں۔
لوگ اس ملک میں جمہوریت کے خواہاں ہیں۔ وہ مہنگائی‘ بدامنی اور سیاسی کشمکش سے تنگ آ چکے ہیں۔ وہ ایک مستحکم حکومت کے خواہشمند ہیں۔ میں نے شہر کے متعدد حلقوں کا وزٹ کیا اور ہر جگہ پُرامن طریقے سے ووٹنگ ہوتی دیکھی۔ لوگ ایک دوسرے سے شائستگی سے پیش آ رہے تھے‘ خاص طور پر نوجوانوں کا جوش دیدنی تھا‘ وہ خوابوں کی دنیا میں رہتے ہیں انہیں لگتا ہے کہ محض ووٹ ڈالنے سے سب اچھا ہو جائے گا۔ الیکشن سے پہلے اسلام آباد میں قدرے سیاسی گہماگہمی تھی؛ تاہم معتوب آزاد امیدواروں کے پوسٹر اور بینرز چند گھٹنوں بعد ہی غائب ہو جاتے تھے۔ ان کو کمپین بھی نہیں چلانے دی گئی لیکن انہوں نے مقابلہ کیا اور خوب کیا۔
اسلام آباد شہرِ اقتدار ہے‘ یہاں کے عوام جس طرح سے باہر نکلے‘ وہ خوش آئند ہے کہ عوام اپنے ووٹ کے ذریعے تبدیلی اور جمہوریت کے خواہاں ہیں۔ سب سے زیادہ مجھے خواتین نے متاثر کیا‘ بہت سی خواتین سہیلیوں اور محلہ دار عورتوں کے ساتھ مل کر ووٹ دینے آئی تھیں۔ چونکہ مردوں اور خواتین کے الگ الگ سنٹرز ہوتے ہیں‘ اس لیے خواتین کا ایک ساتھ ووٹ کاسٹ کرنے جانا زیادہ مناسب تھا؛ تاہم موبائل سروس کی بندش اور رش میں ایک دوسرے کو ڈھونڈنا مشکل ترین کام تھا۔ لوگ یہ بھی شکوہ کرتے نظر آئے کہ انہوں نے ووٹ کے ساتھ سیلفی لینا تھی لیکن فون کی اجازت نہیں۔ بہت سے بچے‘ جنہوں نے اس الیکشن میں پہلی بار ووٹ دیا‘ وہ اس بات پر زیادہ خفا تھے۔ بہت سے لوگوں نے سوشل میڈیا پر اپنے سیاہی لگے انگوٹھے کی تصاویر اَپ لوڈ کیں۔ پورا دن ٹائم لائن پر انگوٹھے ہی انگوٹھے نظر آ رہے تھے۔
بطور شہری مجھے انتخابات میں حصہ لے کر بہت اچھا لگا۔ عوام کو یوں سڑکوں پر کھڑے ہوکر ووٹ ڈالنے کیلئے انتظار کرتے دیکھنا‘ نظام ٹھیک کرنے کیلئے ان کی سنجیدگی اور جدوجہد نے مجھے بہت متاثر کیا۔ اب ان کے مینڈیٹ کو قبول کیا جائے گا یا نتائج بدلنے کی کوشش ہو گی‘ یہ جلد واضح ہو جائے گا جبکہ رات گئے تک موبائل سروس بند رہنے سے بھی بہت کچھ عیاں ہو چکا۔ اگر دھاندلی سے نتائج بدلنے کی کوشش کی گئی تو دوررس منفی نتائج ہوں گے۔ عوام باشعور ہیں‘ ان کے جذبات کے ساتھ مت کھیلیں۔ نئی نسل مصلحت پسند نہیں‘ وہ ناانصافی پر فوری بول پڑتی ہے۔ اس وقت نظام میں نیا خون‘ نیا ووٹر اور نئی نسل شامل ہو رہی ہے‘ اس کو دھوکا نہیں دیا جا سکتا۔ خالی نعروں سے کام نہیں چلے گا‘ ووٹ کو اب حقیقی عزت دینا ہو گی۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved