تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     19-10-2013

’’دوسرا افغانستان‘‘

برادرم بابر اعوان نے اپنے تازہ ترین کالم کا عنوان باندھا ہے: ’’دوسرا افغانستان‘‘۔کالم کے مندرجات پر غورو فکر سے پہلے، میں تو اس کے عنوان ہی میں الجھ گیا ہوں۔ افغانستان میں عید آئی تو ساتھ ہی ایک خبر بھی۔افغانستان کے صوبہ لوگر میں نمازِعیدکے دوران میں خود کش حملہ۔گورنر جاں بحق۔اگلے دن پاکستان میں عید تھی۔خبر آئی:پاکستان کے صوبے خیبر پختون خوا میں خود کش حملہ۔عیدہی کے دن صوبائی وزیر اسراراللہ گنڈا پور اپنے حجرے میں لوگوں سے عید ملتے ہوئے جاں بحق۔میرا خیال ہے کہ اب یہ سمجھنے کے لیے بقراط ہو نا ضروری نہیں کہ دوسرا افغانستان کون ہے۔واقعہ یہ کہ پاکستان اور افغانستان کے حالات میں ایسی غیر معمولی مماثلت تاریخ میں کبھی سامنے نہیں آئی۔ 1979ء میں ہم چلے تھے افغانستان کو پاکستان بنانے۔ چونتیس سال بعد افغانستان تو پاکستان نہیں بن سکا ،ہاں پاکستان کو ہم نے ضرور افغانستان بنا دیا ہے۔ دوسرا افغانستان۔مردانِ کوہستانی کے فضائل ومناقب بیان کر نے والوں کو تو خوش ہونا چاہیے کہ ان کی آرزو پوری ہوئی۔ہم بھی اس سماج میں ڈھل گئے ہیں جو ان کے ممدوح مردانِ کوہستانی کی خوبیوں کا مظہر ہے۔اب یہاں بھی بندوق کا راج ہے اور انسانی لہو کی ارزانی ہے۔ پاکستان کبھی ایسا نہیں تھا۔درست تر الفاظ میں مسلم بر صغیر کبھی ایسا نہیں تھا۔انگریزوں کی آ مد کے بعد جب مسلم شناخت کا احیا ہوا توعامتہ ا لناس نے سرسید کی بات مانی یا قائد اعظم کی۔یہ ایک ہی حکمت عملی کے دو تدریجی مراحل تھے۔سر سید نے پُرامن جدوجہد، تعمیرِ ذات اور تصادم سے گریزکا ایک راستہ دکھایا جس کی اساس تعلیمی برتری تھی۔قائد اعظم نے بھی تمام زندگی آئین کی حکمرانی (constitutionalism) کا عَلم بلند کیے رکھا۔قیامِ پاکستان سے کچھ وقت پہلے ایک مر حلہ آیا جب1946ء میں انہوں نے راست اقدام کی دھمکی دی۔یہ تنگ آمد بجنگ آمد کا مر حلہ تھا‘ ورنہ ان کی پوری زندگی اس سے پاک ہے کہ انہوں نے کوئی غیر قانونی قدم اٹھا یا ہو۔اس کے بر خلاف ہم نے افغانستان میں بادشاہت دیکھی یا پھر تلواریں چلتی دیکھی ہیں۔اب تلوار کی جگہ جدید اسلحے نے لے لی ہے۔آئین پسندی کی کوئی روایت افغانستان میں مو جود نہیں ہے اور مستقبل میں بھی اس کا کوئی امکان نہیں۔آئین، دستور وغیرہ نئی ریاست کے چونچلے ہیں اور افغانستان اس تصور سے ناآشنا ایک قبائلی معاشرت ہے۔کچھ لوگ اس رویے کو حریّت پسندی کا نام دیتے ہیں۔ان کی لغت میں یہ غیرت ہے۔اگر کسی قانون اور ضابطے کو نہ ماننے کا نام حریّت پسندی ہے تو پھر لبرل سب سے بڑے بطلِ حریّت ہیں جو انسانی آزادی پر کسی اخلاقی یا غیر اخلاقی قدغن کو قبول کر نے پر آ مادہ نہیں۔ یہ سب کچھ اتفاق سے ہوا ہے اور نہ کسی سازش کے نتیجے میں۔یہ تو جنرل ضیاء الحق مرحوم اور ان کے فکری و عملی معاونین کے ’اخلاص‘ کا نتیجہ ہے۔یہ تو ’امتِ مسلمہ‘ کے اُس تصور کا احیا ہے جس کے تحت مسلمانوں کے مابین کسی نوعیت کی جغرافی یا تہذیبی سرحد کو قبول نہیں کیا جا تا۔جغرافی سرحد کو تو ہم ختم نہیں کر سکے کہ ابھی تک دوسرا فریق اس پر آمادہ نہیں ہوا۔ ہاں، جس دن پاکستان میں ان کے ہم نوا اکثریت میں ہو جائیں گے،اُس دن ممکن ہے کہ اِس سرحد کے خاتمے کا اعلان ہو جائے؛ تاہم غیر اعلانیہ طور پر تو یہ سرحد ’ہر چند کہیں کہ ہے‘ نہیں ہے۔‘ اگر آپ تصوراتی طور پر اس کو مانتے ہیں تو آپ کو افغانستان جانے کے لیے ویزے کی ضرورت ہوگی اور اگر آپ نہیں مانتے تو پھربغیر ویزے کے بھی آ جا سکتے ہیں۔آخر ہزاروں لوگ ہر روز آتے جاتے ہیں۔ان حالات کا نتیجہ آخر اس کے سوا کیا نکلنا تھا کہ پاکستان دوسرا افغانستان بن جا تا۔ پاکستان کودوسرا افغانستان بنانا یا افغانستا ن کو دوسرا پاکستان بنانا… کیا دونوں کا مفہوم ایک ہی ہے؟میرے نزدیک تو ایسا نہیں ہے۔ماضی قریب میں ہم نے افغانستان میں بادشاہت دیکھی یا پھر خانہ جنگی۔یقیناً ہم میں کوئی نہیں چاہے گا کہ پاکستان میں بادشاہت آئے یا خدا نخواستہ یہاں خانہ جنگی ہو۔سوال یہ ہے کہ ہم افغانستان میں کیا چاہتے تھے؟ہمیں کیوں بتا یا گیا کہ دورِ جدید میں اگر آئیڈیل سیاسی شخصیت کوئی ہو سکتی ہے تو وہ گل بدین حکمت یار ہیں یا ملا عمر۔اب اگرپاکستان میں کوئی ایسا گروہ حکمرانی کے خواب دیکھتا ہے جو ملا عمر کو اپنا امیر المو منین مانتا ہے تو ہم اس کی مخالفت کیوں کرتے ہیں؟ہم کیوں چاہتے ہیں کہ وہ ہمارے نظام کو مان لے ورنہ ہم اس کے خلاف اعلانِ جنگ کر دیں گے؟ مولانا فضل الرحمٰن اور عمران خان سمیت،ہم سب پاکستان کے افغانستان بننے سے خوف زدہ کیوں ہیں؟یہ ابہام کیوں ہے؟ یہ سوالات کئی سال سے سر اٹھائے ہمارے سامنے کھڑے ہیں۔پاکستان افغانستان بن چکا لیکن ہم ابھی تک سوچ بچار میں ہیں کہ ہم نے کیا کرنا ہے۔موجودہ حکومت اسی ابہام کو لیے آگے بڑھ رہی ہے۔لوڈ شیڈنگ کی طرح یہ اسے بھی سابق حکومت کا ورثہ سمجھتی ہے جس سے جان نہیں چھڑا ئی جا سکتی۔آصف زرداری صاحب میاںصاحب کی محبت میں نہیں کہہ رہے کہ ’’نواز شریف قدم بڑھاؤ،ہم تمہارے ساتھ ہیں‘‘۔وہ جانتے ہیں کہ یہ قدم اگر بڑھیں گے تو کہاں جائیں گے۔لیکن میاں صاحب نے اگر اقتدار میں آنے کا خطرہ مول لیا ہے توانہیں قدم بڑھاناہوں گے۔ حالات انہیں مزید مہلت نہیں دیں گے۔پنجاب میں امن و امان کی صورت حال سنبھل نہیں رہی۔مہنگائی کا چیلنج بھی کم شدید نہیں۔ دیگر صوبوں کے حالات ہمارے سامنے ہیں۔میاں صاحب اب فیصلہ سازی کو موخر نہیں کر سکتے۔ان کو یہ طے کر نا ہے کہ پاکستان کودوسرا افغانستان بنا نا ہے یا افغانستان کو دوسرا پاکستان۔میرے نزدیک اب وقت ہے کہ ہم تیسرا راستہ اختیار کریں۔ آج ہمارے پاس ایک ہی راستہ ہے۔ہم پاکستان کو پاکستان بنائیں اور افغانستان کو افغانستان رہنے دیں۔دوسرے لفظوں میں یہ فیصلہ افغان عوام پر چھوڑ دیں کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔افغانستان کو پاکستان بنا نے کا جو خواب دیکھا گیا تھا،اس کی تعبیر اتنی بھیانک ہے کہ اب ایسا کوئی خواب دیکھنے سے گریز کر نا چاہیے۔اگر اپنے طور پر ایساخواب نظر آئے تواسے شیطانی وسوسہ سمجھتے ہوئے جھٹک دینا چاہیے۔ڈاکٹر نجیب اللہ روسی ایجنٹ ہو گا لیکن ڈوبتے ڈوبتے ہمیں پتے کی ایک بات کہہ گیا تھا۔اُ س وقت ہم فتحِ مبین کے نشے میں تھے اور ایسے لمحوں میں شکست خوردہ لوگوں کے الفاظ میں حکمت و دانائی تلاش نہیں کی جاتی۔آج انجام کے اعتبار سے ہم اور ڈاکٹرنجیب اللہ، دونوں ایک جگہ کھڑے ہیں۔اب ہم اس کی بات سن سکتے ہیں۔ اس نے کہا تھا: ’’ہمارے ہمسایہ ممالک جس آگ کو افغانستان میں بھڑکا نا چاہتے ہیں،اس بات سے بالکل بے خبر ہیں، یااپنے ملک سے محبت نہیں کرتے کہ یہی آگ ایک دن ان کے اپنے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہوگی‘‘۔ کہا تو اس نے اور بھی بہت کچھ لیکن خوفِ فسادِ خلق سے نقل نہیں کر رہا۔افسوس کہ جو بات ڈاکٹر نجیب اللہ کو سمجھ میں آئی، ہم نہیں سمجھ سکے کہ پاکستان کا دوسرا افغانستان بننا ہماری حکمت عملی کا ناگزیر نتیجہ تھا۔ایسی حکمت عملی جسے ہم اب بھی تبدیل کرنے پر آمادہ نہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved