دنیا میں انہونیاں تو ہوتی ہی رہتی ہیں لیکن میاں نواز شریف اور ان کے حامیوں کو اندازہ نہیں تھا کہ ایسی انہونی بھی ہو سکتی ہے۔ وہ جماعت جو مارچ 2022ء تک ساڑھے تین سال وفاق‘ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں حکومت میں رہتے ہوئے بھی تقریباً بیس کے قریب ضمنی الیکشن ہار چکی تھی‘ اس کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار اب سو سیٹیں نکال چکے ہیں۔ اگر آپ کو یاد ہو تو وفاق میں عمران خان اور پنجاب میں بزدار حکومت پر اتنا سیاسی اور نفسیاتی دباؤ تھا کہ ڈسکہ میں ہونے والے الیکشن کو جیتنے کیلئے ہر قسمی زور لگایا گیا۔ اُس الیکشن میں دھاندلی کے الزامات لگنے کے بعد الیکشن کمیشن نے اپنے کئی افسران کے خلاف کارروائی بھی کی تھی۔
قمر جاوید باجوہ اور عمران خان کی لڑائی میں میاں نواز شریف کو پارٹی بننا بہت مہنگا پڑا ہے۔ اپنے تئیں انہیں یہ لگا تھا کہ وہ عمران خان سے پرانے سکور سیٹل کررہے ہیں جس نے اپنے دورِ حکومت میں انہیں جیل میں قید کرکے اپنے حامیوں سے کیا گیا وعدہ پورا کیا تھا کہ وہ وزیراعظم بنے تو نواز شریف اور آصف زرداری جیل میں ہوں گے۔ اگر یاد ہو تو اُس وقت پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ کے سب اہم لوگ مختلف مقدمات میں جیل میں تھے۔ وہی قمر جاوید باجوہ جو عمران خان کی ہر فرمائش پوری کر رہے تھے‘ وہ اب اُن سے جان چھڑانا چاہتے تھے جسے خود انہوں نے وزیراعظم بنوایا تھا۔ واقفانِ حال کے مطابق انہیں وزیراعظم بنوانے کے پیچھے قمر جاویدباجوہ اور فیض حمید صاحب کی اپنے اغراض اور مقاصد تھے۔ قمر جاوید باجوہ نے مدتِ ملازمت میں توسیع لینا تھی تو فیض حمید کے حساب کتاب کے مطابق وہ نومبر 2022ء میں آرمی چیف بننا چاہتے تھے۔ یوں عمران خان ان دونوں کی سکیم آف تھنگز میں فٹ ہو رہے تھے۔
یہ الگ بات کہ فیض حمید نے ڈیڑھ سال پہلے ہی آرمی چیف کا کردار ادا کرنا شروع کر دیا تھا‘ جس کا انہوں نے برا منایا جنہوں نے نومبر 2022ء میں آرمی چیف بننے کی ریس میں شامل ہونا تھا۔ قمر جاویدباجوہ کو بھی محسوس ہوا کہ اُن کی اپنی پاورز بھی کمپرومائز ہورہی تھیں۔ یوں فیصلہ ہوا کہ فیض حمید کو سائیڈ پر کیا جائے جس پر عمران خان اور قمر جاوید باجوہ کے درمیان اختلافات اُبھرے۔ اُدھر عمران خان کی پاکستان کے دوست ممالک کے ساتھ تعلقات خراب کرنے کی شعوری کوششوں کی وجہ سے بھی مقتدر حلقوں میں بے چینی تھی‘ خصوصاً سعودی عرب‘ چین اور امریکہ ناخوش تھے اور پاکستان ان تین ملکوں کے بغیر نہیں چل سکتا۔ اب نواز شریف اور آصف زرداری کے پاس اس اندرونی لڑائی کا ایک حل تو یہ تھا کہ وہ ایک طرف ہو کر عمران خان اور قمر جاوید باجوہ کی لڑائی کو پاپ کارن کھاتے ہوئے انجوائے کرتے‘ لیکن انہیں اس میں ایک موقع نظر آیا۔ نواز شریف اور اسحاق ڈار ملک سے باہر تھے۔ آصف زرداری پر بھی منی لانڈرنگ کا کیس تھا۔ شہباز شریف اور حمزہ شہباز بھی منی لانڈرنگ کیس میں سزا پانے کے قریب تھے۔ یوں ان سب کو خیال آیا کہ وہ حکومت لے کر اپنا راستہ صاف کریں تاکہ سب کیسز اور نیب قوانین ختم ہوں۔ یوں چیئرمین پی ٹی آئی اور ان کی پارٹی جو سیاسی طور پر تقریباً ختم ہو چکی تھی‘ پی ٹی آئی کی حکومت ختم کرکے اسے نئی زندگی بخشی گئی۔ پنجاب میں بزدار حکومت سے لوگ متنفر ہو چکے تھے۔ خان کا رومانس لوگوں کے دلوں سے اُتر چکا تھا کیونکہ انہیں خان Fake لگنے لگا تھا۔ خان کا میرٹ سے کوئی تعلق نہ تھا۔ اسے نالائق اور ڈفر لوگ پسند تھے جن کی وفاداری جیتنا آسان ہوتا ہے۔ خان ایک کایاں سیاستدان کی طرح کسی پر اعتبار نہیں کرتا تھا۔ اسے یس مین درکار تھے اور اس قسم کے لوگ وفادار نہیں ہوتے۔ یوں عثمان بزدار اور محمود خان جیسوں کو ڈھونڈا گیا۔ اگرچہ بعد میں دونوں خان کو چھوڑ گئے۔ ایسے لوگوں کو کنٹرول کرنا آسان ہوتا ہے اور خان صاحب یہی کام کر رہے تھے۔ گورننس کا یہ حال تھا کہ ساڑھے تین سال میں پنجاب میں چھ چیف سیکرٹریز اور سات آئی جیز بدلے گئے جبکہ کسی بھی کمشنر یا ڈپٹی کمشنر کی تعیناتی کا دورانیہ تین سے چار ماہ سے زیادہ نہ ہوتا تھا کہ اس دوران جو کمانا ہے کما لو۔
اس میں شک نہیں کہ حکومت لے کر جہاں نواز شریف نے اپنا سیاسی نقصان کیا وہیں بہت فائدے بھی اٹھائے۔ تصور کریں کہ اگر وہ حکومت نہ لیتے تو وہ نیب سے دی گئی سزائیں ختم نہیں کرا سکتے تھے‘ نہ پارلیمنٹ سے تاحیات پابندی ہٹوا سکتے تھے‘ نہ انہیں عدالتِ عظمیٰ سے ریلیف ملتا۔ اسحاق ڈار کو نیب کی طرف سے ضبط کیا گیا لاہور میں واقع اپنا گھر واپس نہ ملتا۔ بینک میں فریز کیے گئے پچاس کروڑ بھی واپس نہ ملتے۔ اسی طرح سلمان شہباز‘ حمزہ شہباز اور شہباز شریف کے داماد کو بھی ضمانتیں ملتیں نہ کوئی ریلیف۔ الیکشن لڑنا تو دور کی بات ‘ انہیں پاکستان کسی نے واپس نہیں آنے دینا تھا۔ یوں نواز شریف نے جان بوجھ کر اس کھیل میں شرکت کی۔ سب کیسز ختم کرائے‘ بھائی وزیراعظم بن گیا‘ بھتیجا پنجاب کا وزیراعلیٰ بنا۔ یوں سیاسی طور پر انہیں لگا کہ یہ برُا فیصلہ نہیں تھا۔ مقتدر حلقوں کا خیال لیکن یہ تھا کہ نوازشریف کی واپسی پر پنجاب کا ووٹر انہیں اسی طرح ہاتھوں ہاتھ لے گا جیسے 2007ء میں لیا تھا۔ اس دوران عمران خان نے کئی بلنڈرز کیے‘ بالخصوص نئے آرمی چیف کی تقرری پر پی ٹی آئی قیادت کی طرف سے طوفانِ بدتمیزی اٹھایا گیا۔ یہ سلسلہ پوری شدت کے ساتھ جاری رہا جس کا نتیجہ نو مئی کی شکل میں نکلا۔ یہ وہ لُوز بال تھی جس کا خان کے مخالفین کو انتظار تھا اورنتیجہ سب کے سامنے ہے۔
اس کے بعد نواز شریف کیلئے میدان صاف تھا۔ انہیں گھوڑا اور تلوار دے کر میدان میں اتارا گیا۔ خان جیل میں‘ تیس سال قید بامشقت کی سزا اور نااہلی۔ اُن کی پارٹی ختم‘ انتخابی نشان واپس لے لیا گیا۔ پارٹی کے بیشتر مرکزی رہنما یا گرفتار یا روپوش یا پارٹی سے منحرف ہو چکے۔ مرکز اور صوبوں میں بھی مرضی کی نگران حکومتیں قائم ہو گئیں۔ پی ٹی آئی کو جلسے جلوس کی اجازت بھی نہ تھی۔ اس کے باوجود (ن) لیگ سادہ اکثریت تو چھوڑیں سو کے قریب سیٹیں بھی نہیں لے پائی۔ الٹا بدترین دھاندلی کے الزامات لگنا شروع ہو چکے ہیں۔ جو کچھ 2018ء میں ہوا ‘ وہی آٹھ فروری کو رات گئے ہونا شروع ہوا جب انتخابی نتائج آنا رُک گئے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ ایک طرف پی ٹی آئی دھاندلی کا شور مچا رہی ہے تو دوسری طرف (ن) لیگ کو لگتا ہے کہ اس کے ساتھ ہاتھ ہو گیا ہے۔ وہ تو اس چکر میں آرام سے گھر میں بیٹھے تھے کہ مقتدرہ سب کچھ کر لے گی‘ میاں نواز شریف کو تو بس جا کر وزیراعظم کا حلف اٹھانا ہے۔ آپ نوٹ کریں کہ اس انتخابی مہم میں میاں نواز شریف نے چند ایک جلسے ہی کیے۔ یہاں تک کہ وہ ملتان اور ڈیرہ غازی خان تک نہ گئے‘ کیونکہ انہیں یقین تھا کہ انہیں لندن سے لانے والوں نے سب بندوبست کر رکھا ہے۔
دوسری طرف عمران خان کو لوگوں نے ایک ایسے مظلوم انسان کے طور پر دیکھا جو اکیلا سب کے خلاف لڑ رہا تھا۔اگرچہ الیکشن سے چند دن پہلے دی گئی سزاؤں سے یہ تاثر پیدا ہوا کہ اس سے خان کا ووٹر بددل ہو جائے گا کہ اب خان کی واپسی کا کوئی چانس نہیں‘ لیکن خان نے بہتر کھیل کھیلا۔ ان کی سوشل میڈیا ٹیموں نے بہتر حکمت عملی اختیار کی۔ بلے کا نشان نہ ہونے کے باوجود اپنے ورکرز اور ووٹرز کو درست گائیڈ کیا۔ ''ووٹ ڈالو‘ خان کو نکالو‘‘ جیسے ٹرینڈز چلائے ۔ اب حالت یہ ہے کہ (ن) لیگ کیمپ شاکڈ اور ناخوش لگ رہا ہے۔ انہیں لگتا ہے کہ ان کے ساتھ ہاتھ ہو گیا ہے۔ اُدھر انہیں واپس لانے والے کہہ رہے ہیں کہ ہم نے تو آپ کو خالی میدان میں لڑنے کے لیے گھوڑا اور تلوار بھی دے کر بھیجا تھا‘ ہم اور کیا کر سکتے تھے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved