منیر نیازی نے کہا تھا ''شباب ختم ہوا‘ اِک عذاب ختم ہوا‘‘۔ کہنا چاہیے ''کسی طرح بھی سہی‘ انتخاب ختم ہوا‘‘۔ ویسے اس انتخاب کی ملک و قوم کو جتنی شدید ضرورت محسوس ہو رہی تھی اور جیسا بحران ملک میں جاری تھی‘ اس کے پیش نظر یہ شور‘ ہنگامہ لازمی بھی تھا۔ سو اللہ کا شکر کہ یہ مرحلہ بھی نمٹا اور بحیثیت مجموعی خیر و خوبی سے نمٹا۔ نتائج دیر سے آئے‘ طرح طرح کی قیاس آرائیاں کی گئیں۔ عجیب و غریب تبصرے سنے۔ تبصرہ نگاروں اور نامور صحافیوں کے بدلتے رنگ بھی دیکھے۔ یہ سب کچھ نیا نہیں۔ کم و بیش ہمیشہ ہی یہ ہوتا رہا ہے‘ لیکن اس انتخاب کی کچھ خصوصیات دوسروں سے الگ تھیں۔ بہت سے انداز ے غلط ثابت ہوئے بلکہ انہیں صرف غلط کہنا بھی غلط ہو گا۔ کوئی اور لفظ ڈھونڈنا ہو گا۔
انتخاب سے پہلے کے دنوں میں یہ بہرحال دیکھنے میں آیا کہ اس طرح شور‘ ہنگامہ‘ جلوس‘ ڈھول‘ تماشے نہیں تھے جو اب عام طور پر ہماری الیکشن مہم کا لازمی حصہ ہو جاتے ہیں۔ نسبتاً سکون تھا۔ ظاہر ہے کہ اس میں شہروں اور علاقوں کا بھی فرق ہو گا۔ دیہی علاقوں اور دیگر شہروں میں صورتحال شاید الگ ہو گی لیکن دوستوں سے بھی یہی معلوم ہوتا رہا کہ اُس طرح کا ہنگامہ نہیں ہے جو پہلے دیکھنے میں آتا رہا ہے۔ انتخاب کا دن طلوع ہوا تو لاہور شہر میں سکون سا تھا۔ میں انتخابات کے دن صبح ووٹ ڈالنے نکلا۔ یہ معلوم ہو چکا تھا کہ موبائل سروس بند رہے گی۔ میرے پورے گھرانے نے پہلے ہی اپنے اپنے ووٹ کی معلومات لے لی تھیں۔ ہم سب کے ووٹ بکھرے ہوئے تھے۔ پولنگ سٹیشن کی بات نہیں‘ حلقے اور امیدوار بھی جدا جدا؛چنانچہ اکٹھے ایک علاقے میں جاکر ووٹ ڈالنا بہت کم ممکن تھا۔ میرا ووٹ گلشن راوی کے حلقے میں تھا جبکہ سمن آباد موڑ کا آبائی گھر چھوڑے ہوئے مجھے تیرہ سال ہو چکے۔ یہ الیکشن کمیشن کی ماہرانہ تقسیم ہی تھی جس میں ووٹ اس طرح بکھرے ہوئے تھے کہ نہ اپنی رہائش کے قریب ووٹ ڈالنے کی سہولت تھی‘ نہ ایک علاقے میں اکٹھے جانے کی۔ لاہور کی سڑکیں پُرسکون اور بہت کم ٹریفک کے ساتھ تھیں۔ راستے بھر گہما گہمی بہرحال نظر آتی رہی۔ گلشن راوی لاہور کے علاقے میں یہ رونق زیادہ تھی۔ جس سکول میں میرا پولنگ سٹیشن تھا‘ اس کے قریب کافی تعداد میں مرد‘ خواتین‘ بزرگ اور پورے پورے گھرانے دکھائی دیے۔ کچھ فاصلے پر پولنگ کیمپ تھے جن میں زیادہ لوگ پی ٹی آئی اور (ن) لیگ کے کیمپوں میں نظر آئے۔ میں سکول میں داخل ہوا تو سکیورٹی اہل کاروں نے موبائل فون کا پوچھا‘ فون میرے پاس نہیں تھا۔ یہ بتانے پر آگے جانے دیا گیا لیکن جسمانی تلاشی نہیں لی گئی۔ یہ ممکن بھی نہ ہوتی لیکن اس کا مطلب ہے کہ موبائل فون لے جانا مشکل نہیں تھا۔ اور بہت سے لوگ ساتھ لے بھی گئے۔ اسی لیے بعد میں سوشل میڈیا پر تصویریں بھی جڑ دی گئیں۔ اصولاً سب کو اس ضابطے کا لحاظ رکھنا چاہیے تھا لیکن کیا کیجئے کہ بلاول بھٹو‘ نواز شریف‘ سراج الحق سمیت سارے بڑے سیاسی رہنماؤں کے ساتھ موبائل فون ہی نہیں‘ لوگوں اور ٹی وی کیمروں کا بھی ایک جم غفیر ٹی وی دکھایا گیا۔ کیا ان کیلئے یہ ضابطہ نہیں تھا؟ اور الیکشن کمیشن نے اس کا کیا نوٹس لیا؟
پولنگ بوتھ میں لوگوں کی اچھی خاصی تعداد تھی۔ مجھ سے آگے چھ سات لوگ اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے۔ پریذائڈنگ آفیسر‘ پولنگ ایجنٹس سمیت عملہ بھی موجود تھا اور معلوم ہوا کہ پولنگ ٹھیک وقت پر شروع ہوگئی تھی۔ کم از کم میرے پولنگ بوتھ اور پولنگ سٹیشن پر انتظام ٹھیک تھے اور کوئی بدنظمی دیکھنے میں نہیں آئی۔ عملہ بھی تعاون کرنے والا تھا۔ بعض لوگ اپنے کم عمر بچوں کو بھی ساتھ لائے تھے اور ان پر اعتراض نہیں کیا گیا۔ مجھے کم و بیش پندرہ منٹ لگے‘ جو ووٹرز کی خاصی تعداد کے پیشِ نظر زیادہ نہیں تھے۔ لوگ مطمئن اور خوش تھے۔ سابقہ برسوں کی نسبت خواتین کی تعداد زیادہ تھی اور میرے سامنے زیادہ لوگوں نے یہی بتایا کہ انہوں نے پی ٹی آئی کو ووٹ ڈالے ہیں۔ میرے گھر کے باقی لوگ جن جن علاقوں میں گئے‘ انہیں پولنگ سٹیشن ڈھونڈنے میں تو کچھ وقت لگا لیکن پولنگ میں زیادہ دیر نہیں لگی۔ البتہ جوہر ٹاؤن‘ ماڈل ٹاؤن‘ گارڈن ٹاؤن وغیرہ کے علاقوں میں پولنگ بہت سست تھی اور لوگ دیر تک قطاروں میں کھڑے رہے۔ کوئی ناخوشگوار واقعہ بہرحال دیکھنے سننے میں نہیں آیا‘ لیکن ظاہر ہے ہر علاقے اور ہر شہر کا معاملہ الگ الگ رہا ہوگا۔
تکلیف دہ باتیں کراچی میں زیادہ تھیں۔ کراچی کے جس سٹیشن پر میری بہن نے ووٹ ڈالا وہاں گیارہ بجے کے بعد تک عملہ ہی نہیں پہنچا تھا؛ چنانچہ پولنگ شروع ہونے کا کیا سوال تھا۔ کراچی میں عورتوں اور مردوں کو لمبی قطاروں میں لگنا پڑا۔ اور ووٹ ڈالنے میں کئی کئی گھنٹے لگے۔ اچھی بات بہرحال یہ تھی کہ کراچی میں لوگ بھرپور تعداد میں اپنے گھرانوں کے ساتھ نکلے اور اپنا حق استعمال کیا۔ اندازہ ہونے لگا کہ بھرپور حقِ رائے دہی کا رجحان پورے ملک میں تھا۔ بہت بڑی تعداد میں لوگوں نے ووٹ ڈالے اور اب تک کی اطلاعات کے مطابق مجموعی ٹرن آوٹ 48فیصد کے قریب رہا ہے۔
تمام چینلز کے تبصرہ نگاروں کے ابتدائی تبصرے یہی تھے کہ جس طرح انتخابات سے پہلے کا ماحول بنا ہے‘ عدالتی فیصلے آئے ہیں اور جس طرح پی ٹی آئی کی مرکزی قیادت جیلوں میں بند ہے‘ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مقابلہ یک طرفہ ہے۔ ایک بار پھر (ن) لیگ کی حکومت قائم ہو گی‘ میاں نواز شریف جس کے وزیراعظم ہوں گے۔ یہ بات تبصرہ نگاروں کے علاوہ بھی ہر شخص کی زبان پر تھی کہ میاں نواز شریف جو گرم زمین پر پیر دھرنے کے معاملے میں بے حد محتاط ہیں‘ اس وقت تک وطن واپس نہیں آسکتے تھے جب تک انہیں بہت سی چیزوں کی یقین دہانیاں نہ کرا دی گئی ہوں ۔ (ن) لیگ کے نامور لوگوں نے بیانات بھی دینا شروع کر دیے تھے اور میڈیا سے گفتگو میں خود میاں نواز شریف نے بھی یہی تاثر دیا تھا کہ وہ مخلوط نہیں‘ بھاری اکثریت سے حکومت بنانا چاہتے ہیں۔ ابتدائی نتائج جو گنے چنے پولنگ سٹیشنز کے تھے‘ اسی تاثر کے ترجمان تھے لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا گیا‘ دو تین رجحان واضح نظر آنے لگے۔ ایک تو یہ کہ لوگ بڑی تعداد میں ووٹ ڈالنے نکلے ہیں‘ خاص طور پر نوجوان‘ پہلی بار ووٹ ڈالنے والے اور مکمل گھرانے۔ دوسرا یہ کہ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں کو بڑی تعداد میں ووٹ پڑ ے ہیں۔ آزاد امیدوار ہر جگہ آگے نظر آنے لگے۔ یہ غیرمعمولی اور تبصروں کے خلاف صورتحال تھی۔ مجھے بعض تجزیہ نگاروں کے لٹکے ہوئے چہرے دیکھ کر اور بعض کے بدلتے رنگ اور زبانیں دیکھ کر ہنسی آتی رہی کہ ہوا کے رُخ کو پہچاننے والے صبح دم کیا تھے اور شام کو کیا۔ کیا کیجئے کہ دنیا یہی ہے اور ایک ہی دن میں صبح کا چولا شام کو اتار دینے والے ہمیشہ لباس بدلنے میں ماہر ہوتے ہیں۔ الیکشن کے سرکاری نتائج میں تاخیر نے شکوک و شبہات میں جو اضافہ کیا وہ بھی سب نے دیکھا۔ لیکن اگلے دن کا سورج ہر دھند‘ ہر غبار صاف کر چکا تھا۔ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار مرکز‘ خیبر پختونخوا اور پنجاب میں اکثریت سے کامیاب ہوئے ۔ دیگر صوبوں میں بھی ان کی موجودگی تھی۔ (ن) لیگ ان سے پیچھے تھی اور پیپلز پارٹی اس سے بھی پیچھے۔ سندھ ایک بار پھر پیپلز پارٹی کے ہاتھ میں تھا اور جے یو آئی کی اصل موجودگی بلوچستان ہی میں تھی۔ رہی جماعت اسلامی؟ ہر چند کہیں ہے کہ نہیں ہے ۔
رہے نام اللہ کا۔ کتابِ مبین نے کہا تھا: و تلک الایام نداولھا بین الناس۔ ''اور اسی طرح ہم لوگوں کے بیچ دن پھیرتے رہتے ہیں‘‘۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved