رات کے آخری پہر اور نورِ سحر کے نمودار ہونے سے پہلے‘ گزشتہ دو دنوں کے قومی سطح پر پیش آنے والے حالات و واقعات ذہن میں گردش کر رہے ہیں۔ اندرونی طور پر کئی طوفان اٹھے‘ تھمے اور کچھ اور طوفانوں نے جنم لیا‘ اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ مبادا آپ سوچیں کہ رات جاگ کر گزاری ہے یا نیند اچاٹ ہے‘ شاید ہی زندگی میں کبھی ایسا ہوا ہو۔ خدا کا شکر ہے کہ جب سوتے ہیں تو کسی اور دنیا میں چلے جاتے ہیں۔ یہ بے چینی‘ فکر مندی اور پریشانی جن کو اس وقت لاحق ہے‘ ان کے چہرے آپ اپنی سکرینوں پر دیکھ رہے ہیں‘ کچھ سیاست بازوں کو فتح کی تقریریں کرتے دیکھا تو اپنے سرائیکی وسیب کے عظیم شاعر‘ شاکر شجاع آبادی کا شعر یاد آ رہا ہے جو ایک ٹی وی مذاکرے میں پڑھا تھا۔ اس کا اردو ترجمہ کچھ یوں ہے کہ شاکر! آپ خود ہی سمجھ دار ہیں‘ میرا چہرہ پڑھ لیں‘ حالات کا کیا پوچھنا ۔ وہ چہرے بہت اداس‘ پریشان‘ فکرمند دکھائی دے رہے تھے۔ کوئی رونق‘ روشنی اور خود اعتمادی نظر نہ آئی جو عموماً ایسے مواقع دکھائی دیتی ہے جب کوئی سیاستدان اور پارٹی رہنما فتح کی تقریر کرتا ہے۔ دراصل اس تاریخی تقریر کا انعقاد پہلے طے تھا‘ مگر ان وجوہات کی بنا پر‘ جن سے آپ بخوبی واقف ہیں‘ ملتوی کر دی گئی تھی۔ آٹھ فروری کا دن اس کی شام اور اگلے دن میں ڈھلنے والی رات‘ جو پوری قوم نے جاگ کر کاٹی‘ اپنی آخری سانسوں تک یاد رہے گی۔ بارہ گھنٹوں کے دوران‘ صبح آٹھ بجے سے لے شام آٹھ بجے تک‘ ہم نے بہت کچھ بدلتے دیکھا۔ جو کہتے تھے کہ پوری قوم یونہی سوتی رہے گی‘ کبھی نہیں جاگے گی‘ ان کے سب اندازے‘ تبصرے اور مفروضے چھ بجے رزلٹ کا سلسلہ شروع ہوتے ہی دم توڑنے لگے تھے۔ سب کی نظریں آگے نکلنے اور پیچھے رہ جانے والے خانوں پر گڑی ہوئی تھیں۔ دلچسپ کرکٹ میچ کے فیصلہ کن لمحات کے آخر اوورز سے بھی ہزار گنا زیادہ اضطراب تھا۔
عجیب منظر نامہ تھا۔ کروڑوں لوگ بغیر بلا ہاتھ میں لیے‘ دیوانہ وار چھکے پہ چھکا لگائے جا رہے تھے۔ پہلے دو گھنٹوں کی سکرینوں کی تصویریں شاید کچھ لوگوں نے محفوظ کر لی ہوں‘ ہم نے ہمیشہ کے لیے اپنی یادداشت میں رکھ لی ہیں۔ سب کی نظریں سیالکوٹ کے ایک حلقے پر مرکوز تھیں۔ ابھی ابتدا ہی تھی کہ عمر رسیدہ‘ نحیف و ناتواں خاتون کسی زمانے میں ملک کے نامور وزیر دفاع اور کئی دیگر وزارتوں کے قلمدان سنبھالنے کا ریکارڈ قائم کرنے والے سیاسی رہنما سے ہلکی سی تیزی سے دوڑتے ہوئے آگے نکلیں تو اس حلقے سے مزید نتائج آنا بند ہو گئے۔ آہستہ آہستہ وہ انتخابی نظام‘ جس نے انتخابی نتائج منتقل کرنے تھے اور جس پر اربوں روپے خرچ ہوئے تھے‘ حسبِ روایت عوامی طوفان کا بوجھ نہ اٹھا سکا۔ نہ صرف پورے ملک کا میڈیا بلکہ ساری دنیا کے سامنے انتخابی نتائج دکھانے والی سکرینیں منجمد ہو گئیں۔ مبصرین ایک دوسرے کی طرف دیکھنا شروع ہو گئے۔ گھپ اندھیرے میں سب ایک ہی سوال دہرائے چلے جا رہے تھے کہ یہ ہو کیا رہا ہے؟ کسی کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ اس دوران شہر لاہور کے اہم ترین حلقوں میں موجود نامہ نگاروں کی طرف سے غیر سرکاری نتائج کی جھلکیاں دبے دبے لفظوں‘ مسکراہٹ کے پردوں اور سرگوشیوں کے نرم‘ دھیمے انداز میں کانوں کو چھونے لگیں تو بار بار دہرائے جانے والے سوال کا جواب ملنا شروع ہو گیا۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان میں موجود نامہ نگاروں سے رابطہ کیا گیا تو سوال وہی تھا کہ کیا ہو رہا ہے؟ نتائج کیوں رک گئے ہیں؟ وہ صرف اتنا بتا سکے کہ جو بڑی سکرین نصب تھی اور جس پر نتائج نشر ہو رہے تھے‘ اس کی بتی گل کر دی گئی اور دروازہ بند کر دیا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ دوسرا سوال تو یہ بنتا تھا‘ جو کیا بھی گیا‘ کہ چیف الیکشن کمشنر صاحب کمر ے سے باہر آکر کیوں نہیں بتا رہے کہ نتائج کی ترسیل کا نظام‘ جس کے معتبر ہونے کے دعوے اُنہوں نے کیے تھے‘ کیوں بیٹھ گیا ہے؟ بہت ہی عجیب لمحات تھے کہ جب کروڑوں لوگ قطاروں میں کھڑے ہو کر ووٹ دینے کے بعد شام کو نتائج کا انتظار کر رہے تھے تو خبر نشر ہوئی کہ چیف الیکشن کمشنر صاحب بغیر کسی پروٹوکول کے‘ دفتر سے نکل گئے۔ ساڑھے تین گھنٹے بعد بتایا گیا کہ وہ عقبی دروازے سے اپنے دفتر میں داخل ہوئے۔ صبح کے تقریباً دس بج چکے تھے‘ ہماری نظریں سکرین پر تھیں۔ چودہ گھنٹوں کے تعطل کے بعد نتائج دوبارہ آنا شروع ہوئے۔ واقعات کی تفصیل جن سے آپ واقف ہیں‘ پیش کرنے کی ضرورت اس لیے نہیں کہ جو اس کے بعد ہوا اور قطرہ قطرہ نتائج آنا شروع ہوئے تو بہت سے دیگر سوالوں کا جواب بھی ملنا شروع ہو گیا۔ وہ سوال جو ہم کمزور لوگ نہیں اٹھا سکتے۔ 2024ء کے قومی انتخابات کا یہ صرف ایک پہلو ہے۔ اب چونکہ نتائج تقریباً آچکے ہیں‘ قطع نظر اس کے کہ اگلی صبح دو بجے تک مکمل مرتب ہونے تھے اور زیادہ سے زیادہ 10 بجے تک حتمی اعلان ہونا تھا۔ تمام اسرار و رموز سے بڑے تو کیا ملک کا بچہ بچہ واقف ہے‘ مزید بات کی ضرورت ہی نہیں۔
یہ درویش ان لوگوں میں سے ہے جو اس ملک و قوم سے کبھی مایوس نہیں ہوئے۔ آپ ان نتائج کے بارے میں جو بھی رائے رکھتے ہیں‘ مجھے دل سے احترام ہے۔ میرے نزدیک چترال سے لے کر بحیرہ عرب کے کناروں تک بسنے والے پاکستانیوں نے ایک زندہ قوم ہونے کا بہت بڑا ثبوت دیا ہے۔ پہلے بھی ہمارے اوپر کئی طوفان آئے‘ حادثات کا شکار ہونا پڑا‘ دوسروں کے کیے کی سزائیں نسل در نسل بھگتتے رہے مگر اپنی تمام تر کمزوریوں کے باوجود اپنے آپ کو زندہ رکھا۔ کچھ لوگ نتائج کو دیکھ کر عجیب باتیں سوشل میڈیا پر لکھ رہے ہیں کہ انہیں یہ تماشا دیکھ کر شاید شرم آ رہی ہے۔ میرے احساسات بالکل مختلف ہیں۔ قوم کو صرف زندہ نہیں‘ بہت توانا ہوتا دیکھ رہا ہوں۔ ایسے توانا ولولے اور طاقتور جذبے کا اظہار پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ شہروں کو چھوڑ کر لوگ اپنے دیہات میں ووٹ ڈالنے گئے اور دیہات میں سے ووٹر ٹھوکریں کھانے کے باوجود اپنا اچانک تبدیل شدہ پولنگ سٹیشن تلاش کر تے رہے۔ پیدا کردہ تمام تر دشواریوں کے باوجود ٹھپے پہ ٹھپہ لگاتے رہے۔ حیران کن نتائج سامنے ہیں۔ عوام نے بڑے بڑے برج الٹا کر رکھ دیے ہیں۔
آپ کو یاد ہو یا نہ ہو‘ کئی برسوں سے یہ درویش عوامی طوفان اٹھنے کی باتیں کرتا چلا آ رہا ہے۔ یہ تو سیلاب تھا جو سب موروثیوں کو بہا لے گیا۔ عوامی شعور اور زندہ قوم کی علامتوں کی جانچ کا کوئی ذریعہ نہیں۔ میرا سر پُرامن مزاحمت پر فخر سے بلند ہے۔ ایک معتوب جماعت اور اس کے رہنماؤں پر جو ایک سال سے گزرتی آئی‘ اور جو امیدواروں پر کسی انتخابی نشان کے بغیر اور نگران حکومتوں کے جبر و استبداد کی فضا میں گزری‘ اس کی اپنی داستان ہے جو انتخابات کی تاریخ میں لکھی جا چکی۔اب نتائج پر مزید تبصرہ کیا ہو سکتا ہے۔ کوئی پروا نہیں‘ بے شک نواب شاہی اکابرین یا جاتی امرا کے ہمارے محترم حکومت بنائیں‘ لوگوں کے دلوں پر حکمرانی کسی اور کی قائم ہو چکی ہے۔ سیلاب کو روکنے کا بندوبست انہوں نے سیالکوٹ‘ لاہور‘ کراچی اور کئی دیگر شہروں میں کر ہی لیا تاکہ انہیں ایک اور سیاسی زندگی مل جائے۔ راہِ حق میں نہ جانے کتنے لوگ تاریخ میں اپنا نام لکھواتے رہے اورغاصب حکومتیں کرتے رہے۔ کاغذی شیروں کے اس دور میں ذہن کی سکرین پر نورِ سحر پھوٹ رہی ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved