ساری طاقت‘ پوری نوازش‘ تمام تر جبروت‘ اغوا کاری‘ چھینا جھپٹی‘ چھاپے‘ کریک ڈائون‘ گرفتاریاں‘ جان کے لالے اور جان کنی‘ صرف یہی نہیں‘ اس کے ساتھ ساتھ نہ پارٹی‘ نہ بلّا‘ نہ بلّے باز۔ نہ جلسہ‘ نہ جلوس‘ نہ ریلی۔ نہ انتخابی تقریریں نہ کوریج۔ نہ نام‘ نہ اذنِ کلام۔ شاعر ساغر صدیقی نے سچ کہا تھا:
یہ جو دیوانے سے دو چار نظر آتے ہیں
ان میں کچھ صاحبِ اَسرار نظر آتے ہیں
جس کے ہاتھ میں PTI کاجھنڈا نظر آیا‘ اُس کی ایسی تیسی کر دی۔ بزرگوں کو سرِعام پھینٹیاں‘ تھپڑ‘ دھکے۔ ایک اکیلی عورت کو ضیا رجیم کے جانشینوں نے ضیا کی طرز پر تین‘ چار مردانہ ہاتھوں سے دُرّے برسوائے مگر اُس نے پولنگ ایجنٹ والا بوتھ چھوڑنے سے انکار کر دیا‘ جس کی وڈیو سوشل میڈیا کے ذریعے ساری دنیا میں وائرل ہو چکی۔ وہ صنفِ آہن پوری قوت کے ساتھ لوہے کے ستون سے چپکی رہی۔ سیلولر نظام‘ موبائل فون‘ انٹرنیٹ اور مہذب دنیا میں معلومات تک رسائی کے سارے جدید ترین کنکشن کاٹ ڈالے گئے۔ معلومات تک رسائی کے لیے دستورِ پاکستان مجریہ 1973ء کے آرٹیکل 19-A میں دی گئی گارنٹی لاجواب ہے۔ آئین کا یہ آرٹیکل کہتا ہے: ہر شہری کو اطلاعات تک رسائی کا بنیادی حق حاصل ہے۔ In all matters of public importance۔
ذرا سوچئے! پاکستان کی تاریخ کا واحد ایسا الیکشن جس میں بارہ کروڑ سے زائد رجسٹرڈ ووٹرز تھے‘ الیکشن 2024ء میں ووٹ کاسٹ کرنے والوں کا تناسب پاکستان کی انتخابی تاریخ کے سارے پچھلے ریکارڈ بریک کر گیا۔ بالکل ویسے ہی‘ جس طرح طاقت‘ جبر و استبداد نے پچھلے سارے ریکارڈ توڑے‘ صرف اس لیے کہ لوگوں کو ووٹ سے مایوس کیا جائے۔ اس حوالے سے تین سوال مجھ سے اور آپ سب سے‘ سب سے زیادہ پوچھے گئے۔ پہلا سوال یہ تھا کہ جب بلّا ہی نہیں ہے‘ قیدی نمبر 804 دو عمر قیدوں کے برابر قید میں ڈال دیا گیا ہے‘ ایسے میں ووٹ ڈالنے کا فائدہ کیا ہو گا؟ اس پر بلین ڈالر مین کے ہمنوا بیانیہ بنانے کے لیے دن رات سارے وسائل استعمال کرتے رہے۔ دوسرے سوال کے مطابق: کبھی پہلے ووٹوں کی گنتی درست طریقے سے ہوئی ہے؟ الیکشن میں ووٹ ڈالنے والے الیکشن ہار جائیں گے اور ووٹ گنتی کرنے والے انتخاب جیت لیں گے‘ اس لیے ہم اپنا وقت اور ایک پورا دن کس مقصد کے لیے ضائع کریں‘ یہاں ووٹروں کی اوقات ہی کیا ہے؟ تیسرا سوال: آزاد امیدوار دو دن کے اندر اندر بک جائیں گے‘ اور پھر خلقِ خدا کے بجائے زمینی خدا راج کریں گے۔ بلین ڈالر مین کی ''گَل ہو چکی اے‘‘ اُسے کون ہرا سکتا ہے؟ اس مختصر ابتدائیے کا مقصدصرف یہ یاد کرانا ہے کہ یہ حال تھا‘ یا بظاہر مورال تھا‘ اُس انتخابی ٹیم کا جو کبھی میدان میں ہی نہ اُتری اور جسے بجا طور پر قیدی نمبر 804 نے انڈر 19 ٹیم قرار دیا تھا۔ نواز شریف کو سپر وزیراعظم کا پروٹوکول‘ مفت کے ہوائی جہاز‘ ہیلی کاپٹر‘ سپیرم لگژری کار جیپ SUV بلٹ پروف‘ ہر جلسے میں ہزاروں باوردی اور بے وردی اہلکاروں کی سہولت۔ میں سمجھ گیا‘ آپ ٹھیک سمجھ رہے ہیں۔ یہ سارے لوازمات ہماری جیب سے کاٹ کر جمع کیے گئے قومی خزانے کے تھے۔ حالانکہ اقتدارمیں آتے ہی نواز شریف کی جائیدادوں کے چرچے کا ہنگامہ چل نکلا تھا۔ پانامہ تو محض ایک لینڈ مارک سمجھ لیں‘ جو بہت بعد میں منظرِ عام پر آیا۔ شہباز شریف کے پاس سابق وزیراعظم والا پروٹوکول جبکہ خاتون لیڈر کے پاس وزیراعلیٰ پنجاب کا ایڈوانس پروٹوکول اور پروٹیکشن تھی۔
اس فیئر اینڈ فری اور ٹرانسپیرنٹ مقابلے کی ایک خاص بات یہ ہے کہ آج الیکشن کو گزرے چوتھا روز ہے‘ ووٹ ڈالنے والوں کی چوائس کو ووٹ گنتی کرنے والوں کی چوائس میں بدلنے کے لیے آپریشن ردّ و بدل اس وقت بھی جاری و ساری ہے۔ آپریشن ردّ و بدل کی سب سے بڑی مثال پنجاب کے سب سے بڑے شہر‘ زندہ دلان کے لاہور سے سامنے آئی۔ جہاں نواز شریف کے مقابل ڈاکٹر یاسمین راشد نے 8 فروری کے الیکشن میں 60 ہزار سے زائد ووٹوں سے برتری حاصل کی۔ ایک صحافی جو کئی سالوں سے بانی پی ٹی آئی اور PTI کے ناقد ہیں‘ اُنہوں نے اس کامیابی کا اندرونی سفر کیمرے کے سامنے بیٹھ کر بیان کیا ہے۔ اسی طرح ایک اور صحافی نے بھی آپریشن ردّ و بدل کا خوب تر پوسٹ مارٹم کیا ہے۔ یہ حلقہ ہے NA130‘ جس کے نیچے پنجاب اسمبلی کے دو صوبائی حلقےPP173 اور PP174 آتے ہیں۔
اس سے پہلے کہ میں آپ کو ریڈنگ ٹیبل پر پڑے ہوئے‘ آفیشل ڈاکیومنٹس کے پرنٹ میں سے فیکٹ اینڈ فگرز شیئر کروں‘ یہ بات ذہن میں رکھ لیں کہ یہ تمام تر فیکٹ اینڈ فگرز لنگر گپ نہیں بلکہ الیکشن کمیشن کے مقرر کردہ ریٹرننگ آفیسرز کی دستاویزات پر مبنی ہیں۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ مانسہرہ کا حلقہ نواز شریف ہار بیٹھے تھے کیونکہ مانسہرہ کے عالمِ دین مفتی کفایت اللہ‘ جو PDM کی سربراہ پارٹی JUI-F سے تعلق رکھتے ہیں‘ اُنہوں نے خواجہ سعد رفیق کی طرح بہادری سے خود PTI کے شہزادہ گستاسپ کے ہاتھوں شکست کو نہ صرف تسلیم کیا بلکہ نواز شریف کو باعزت طریقے سے شکست قبول کر کے لوگوں کا فیصلہ تسلیم کرنے کا مشورہ بھی دیا اور ساتھ ہی کہا کہ جو کچھ ہو رہا ہے وہ 1970ء کے انتخابات کا ری پلے ہے‘ جن میں شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ نے قومی اسمبلی کی 160 سیٹیں بھاری اکثریت سے جیت لیں لیکن اقتدار اُنہیں ملا جن کے پاس صرف 86+5 سیٹیں تھیں۔ مفتی کفایت اللہ صاحب نے بڑی جواں مردی سے خاکم بدہن کا رائیڈر بھی لگایا۔
اب آئیے بینگن بمقابلہ بلین ڈالر مین کے چار صوبوں میں لڑی جانے والی انتخابی جنگ کے صرف ایک حلقے کے حقائق دیکھ لیں۔ NA130 کے نیچے PP173 میں پول ہونے والے درست ووٹوں کی تعداد 1 لاکھ 39 ہزار 125 ہے جبکہ PP174 میں پڑنے والے صحیح ووٹ 87 ہزار 803 ہیں۔ اس طرح ان دونوں حلقوں میں ٹرن آئو ٹ کی شرح چالیس فیصد کے قریب بنتی ہے۔ NA130 میں ان دونوں صوبائی حلقوں کے ووٹوں اور قومی اسمبلی کے ووٹ میں ٹرن آئوٹ کی شرح میں 13 فیصد کا فرق ہے۔ ہم سب نے ووٹ ڈالے ہیں‘ اس لیے ہم سب جانتے ہیں کہ ہر ووٹر کو پولنگ بوتھ کے اندر قومی اسمبلی کے لیے سبز بیلٹ پیپر جبکہ صوبائی اسمبلی کے لیے سفید بیلٹ پیپر دیا گیا۔ ووٹ چاہے جس کو بھی پڑے‘ ووٹروں کی تعداد میں فرق کس طرح سے پڑ سکتا ہے؟ فارم 45 میں ہر امیدوار کو پڑنے والے ووٹ اور مسترد شدہ ووٹ علیحدہ علیحدہ لکھے جاتے ہیں۔
ہندسوں کا گورکھ دھندہ پڑھ کہ آپ یقینا بور ہو جائیں گے‘ اس لیے چلئے لطیفہ سُن لیں‘ جو کراچی سے 9 تاریخ کی گنتی کے مطابق ایک سیٹ جیتنے والی پارٹی کی آپریشن ردّ و بدل سے 17 سیٹوں پر کامیابی سے یاد آیا۔ اس غیر سیاسی لطیفے کے مطابق بچے کی پیدائش پر میراثی کے گھر والے خوشیاں منانے لگے‘ میراثی نے حیران ہو کر پوچھا: کیوں ناچ رہے ہو‘ کیا ہوا ہے؟ جواب ملا: بچہ ہوا ہے۔ میراثی نے حیران ہو کر سوال کیا: کن کا ؟ (جاری)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved