ملک انتخابات کے مرحلے سے گزر چکا‘ لگ بھگ سبھی عبوری نتائج سامنے آ چکے‘ اب اگلا مرحلہ حکومت بنانے کا ہے۔ مضبوط معاشی نظام کے قیام کیلئے ضروری ہے کہ جس پارٹی کی اکثریت ہو‘ اسے حکومت بنانے کی دعوت دی جائے۔ عوام کے اصل نمائندے ہی عوامی پالیسیاں بنا سکتے ہیں اور عوام ہر اچھے‘ برے دور میں اپنے حقیقی منتخب کردہ نمائندوں کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔ نئی حکومت کو معاشی صورتحال بہتر بنانے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنا ہوں گے۔ نئی حکومت کی پہلی ترجیح مہنگائی اور زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہونی چاہیے‘ جبکہ بنیادی طور پر ایک ایسے نظام پر کام کرنے کی ضرورت ہے جو شرحِ نمو‘ پیداواری صلاحیت اور آمدنی میں اضافہ کرے۔ برآمدات‘ انٹرپرنیورشپ اور انفراسٹرکچر کو بڑھائے اور تعلیم‘ مہارت‘ آبادی پر کنٹرول اور عدم مساوات پر توجہ مرکوز کرے۔
کاروباری برادری انتخابات میں منقسم مینڈیٹ اور سیاسی غیر یقینی سے پریشان دکھائی دے رہی ہے۔ پاکستان سٹاک ایکسچینج کے بینچ مارک کے ایس ای 100 انڈیکس میں 2326 پوائنٹس کی شدید مندی دیکھی گئی۔ انتخابات سے ایک روز قبل (7 فروری کو) انڈیکس344.85 پوائنٹس اضافے کے بعد 64 ہزار 143 پر پہنچ گیا تھا جبکہ کے ایس ای 100 انڈیکس میں 796 پوائنٹس کا اضافہ دیکھا گیا تھا۔ درآمدات میں رکاوٹیں اور زیادہ شرحِ سود کے باعث گزشتہ 20 ماہ کے دوران پاکستانی تاجر اور اُمرا نہ صرف عرب امارات میں رئیل اسٹیٹ میں بہت زیادہ سرمایہ کاری کرنے لگے ہیں بلکہ وہاں ایکسپورٹ‘ امپورٹ ٹریڈ ہاؤسز بھی قائم کر رہے ہیں۔ پاکستان کے بہت سے بڑے بزنس ٹائیکونز نے اپنا کاروبار جزوی یا مکمل طور پر باہر منتقل کر لیا ہے جس سے ملک مناسب آمدنی اور ملازمتوں سے محروم ہوتا جا رہا ہے۔ اماراتی حکام کے مطابق 2022ء میں پاکستانیوں نے دبئی رئیل اسٹیٹ میں 10 ارب 60 کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری کی‘ جس سے وہ دبئی میں تیسرے بڑے سرمایہ کاروں میں شامل ہو گئے ہیں۔ بھارتی سرمایہ کار 29 ارب 80 کروڑ ڈالر کے ساتھ سرفہرست رہے‘ ان کے بعد برطانوی سرمایہ کار آتے ہیں جو 14 ارب 70 کروڑ ڈالر کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہیں۔ اگر ملک میں مضبوط‘ دیرپا چلنے والا مستحکم سیاسی نظام قائم نہ ہو سکا تو غیر یقینی صورتحال میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔ الیکشن نتائج کے بعد کرنسی ٹریڈرز آئندہ 15 روز میں روپے کی قدر میں اتار چڑھائو دیکھ رہے ہیں۔ مارکیٹ روپے کے مزید دوطرفہ اور کثیر جہتی بہاؤ کی توقع کر رہی ہے، اگرچہ آئی ایم ایف کے اگلے جائزے میں کچھ پیچیدگیاں آ سکتی ہیں لیکن امید کی جا رہی ہے کہ بالآخر اگلی قسط کا اجرا بھی کامیابی سے ہو جائے گا۔
نگران حکومت کی کارکردگی کے حوالے سے مختلف آراء پائی جاتی ہیں لیکن کچھ شعبے ایسے ضرور ہیں جہاں نگران حکومت کی کارکردگی پر سوال اٹھایا جا رہا ہے۔ ایک طرف نگران سرکار بجلی مہنگی کرکے تاریخ کی بلند ترین سطح پر لے گئی اور دوسری طرف‘ اطلاعات ہیں کہ گزشتہ مالی سال کے دوران مہنگے ذرائع سے سب سے زیادہ بجلی پیدا کی گئی۔ نیپرا کے مطابق ‘گزشتہ مالی سال متبادل ذرائع سے چار فیصد اور جوہری ایندھن سے 20 فیصد بجلی پیدا کی گئی‘ مختلف وجوہات کی بنا پر پن بجلی پلانٹس سے پیداوار انتہائی کم رہی اور پانی سے صرف 18 فیصد بجلی پیدا ہوئی جبکہ تھرمل ذرائع سے 58 فیصد بجلی پیدا کی گئی۔ پانی کے اخراج کی ناقص حکمت عملی کی وجہ سے بھی پن بجلی کی پیداوار کم رہی اور ونڈ پاور پلانٹس کی استعداد 82 سے 100 فیصد جبکہ سولر پاور پلانٹس کی استعداد 49.3 سے 98.7 فیصد رہی۔ اس وقت عوام دو طرفہ دبائو کا شکار ہیں۔ ایک طرف یہ کہہ کر بجلی مہنگی کی جا رہی ہے کہ آئی ایم ایف کا دبائو ہے اور دوسری طرف مہنگی ترین بجلی پیدا کر کے سارا بوجھ عوام پر ڈالا جا رہا ہے۔ نئی حکومت بجلی کے بلوں میں کمی کے لیے کچھ کرتی ہے یا نہیں‘ اس بارے کوئی دعویٰ نہیں کیا جا سکتا کیونکہ الیکشن مہم کے دوران کسی سیاسی جماعت کی جانب سے یہ پلان سامنے نہیں آیا کہ عوام کو سستی بجلی کی فراہمی کس طرح ممکن بنائی جائے گی۔ اگر نگران حکومت کے اچھے اقدامات کی بات کریں تو کابینہ کمیٹی برائے توانائی نے نجی شعبے کی آئل ریفائنریوں کے اہم مطالبات کو تسلیم کرتے ہوئے براؤن فیلڈ ریفائنریز کی پالیسی میں ترامیم کی منظوری دیدی ہے تاکہ موجودہ ریفائنریز‘ کو چھ سال کے اندر اَپ گریڈ کیا جا سکے‘ جو فرنس آئل جیسے کم معیار کے ایندھن کی کم سے کم پیداوار کے ساتھ یورو فائیو‘ پٹرول اور ڈیزل پیدا کرنے کی اہلیت رکھتی ہوں۔ چار نجی ریفائنریوں کے چار بڑے مطالبات منظور کر لیے گئے ہیں۔ پاکستان ریفائنری لمیٹڈ نے گزشتہ سال اگست میں اس معاہدے پر دستخط کیے اور فوری عمل درآمد شروع کر دیا۔ ان ترامیم کا مقصد یہ ہے کہ مقامی طور پر ریفائنڈ مصنوعات پر (6 سال کے بجائے) 20 سال کے لیے 7.5 فیصد ڈیوٹی جاری رکھی جائے یا پھر اس کا اطلاق تیل کی قیمتوں کی ڈی ریگولیشن تک رہے۔ استعمال شدہ آلات پر ریفائنری اَپ گریڈ کے منصوبے کے لیے ''ایسکرو اکاؤنٹ‘‘ سے فنڈنگ کی حد اگست 2023ء میں 22 فیصد سے بڑھا کر 24.5 فیصد کر دی گئی۔ یہ رعایت نئے آلات کے لیے 27.5 فیصد ڈسکاؤنٹ سے قدرے کم ہے۔ پالیسی پر عملدرآمد کے لیے قائم کمیٹی اب وفاقی سیکرٹری برائے پٹرولیم‘ سیکرٹری خزانہ اور سیکرٹری قانون پر مشتمل ہو گی۔ ریفائنریز کی اَپ گریڈیشن سے ملک میں 5 سے 6 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری آ سکتی ہے جبکہ اس کے نتیجے میں نہ صرف ماحول دوست ایندھن کی فراہمی ممکن ہو گی بلکہ قیمتی زرمبادلہ کی بھی بچت ہوگی۔
نگران کابینہ نے پی آئی اے کی تنظیمِ نو کی منظوری بھی دی‘ جس کے تحت پی آئی اے کو دو کمپنیوں میں تقسیم کر دیا جائے گا۔ بیرونی ممالک سے تعلق رکھنے والے سرمایہ کار پچاس فیصد سے زائد شیئرز نہیں خرید سکیں گے۔ ممکنہ طور پر انہیں مقامی سرمایہ کاروں کے ساتھ مل کر خریداری کرنا پڑے گی۔ اطلاعات کے مطابق پی آئی اے کے سرکاری قرضہ جات کی ادائیگی اور ٹیکس معاملات پر وزارتِ خزانہ کو تحفظات ہیں۔ وزارتِ خزانہ پی آئی اے کو کوئی بھی نیا مالی پیکیج دینے سے گریزاں ہے۔ ممکنہ طور پر نجکاری کے بعد 267 ارب روپے کے کمرشل بینکوں کے قرضے حکومت کو منتقل کیے جا سکتے ہیں جس پر وزارتِ خزانہ کو اعتراض ہے۔
خدمات کی برآمدات میں مسلسل دوسرے مہینے کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ دسمبر 2023ء میں خدمات کی برآمدات 6.93 فیصد سکڑ کر 72 کروڑ 69 لاکھ ڈالر رہیں جو گزشتہ برس کے اسی دورانیے میں 78 کروڑ 10 لاکھ ڈالر ریکارڈ کی گئی تھیں؛تاہم اگر پاکستانی روپوں میں دیکھا جائے تو دسمبر میں خدمات کی برآمدات 17.31 فیصد بڑھ کر 205 ارب 94 کروڑ روپے ہو گئیں جن کا حجم گزشتہ برس کے اسی دورانیے میں 175 ارب 55 کروڑ روپے تھا۔ خدمات کی برآمدات میں مالی سال کی پہلی ششماہی (جولائی تا دسمبر) کے دوران بھی 2.70 فیصد تنزلی دیکھی گئی اور یہ3 ارب 76 کروڑ ڈالر پر آ گئیں‘ جو گزشتہ برس کے اسی عرصے میں 3 ارب 87 کروڑ ڈالر تھیں؛ تاہم روپے کی قدر کم ہونے سے مقامی کرنسی میں ان میں 25.17 فیصد اضافہ دیکھا گیا۔ خدمات کی برآمدات میں کمی کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ ممکنہ طور پر کرسمس اور دسمبر کی چھٹیوں کی وجہ سے سروس سیکٹر کو زیادہ آرڈرز نہ ملے ہوں۔ آئندہ مہینوں میں آنے والی رپورٹس سے اندازہ ہو سکے گا کہ برآمدات گرنے کا سلسلہ ایک ٹرینڈ بن رہا ہے یا یہ وقتی گراوٹ ہے۔ نگران حکومت نے خدمات کے شعبے میں برآمدات بڑھانے کے متعدد دعوے کیے مگر وہ حقیقت کا روپ نہ دھار سکے۔ اب نگران حکومت رخصت ہونے کو ہے‘ امید ہے کہ نئی حکومت خدمات کے شعبے کی برآمدات میں اضافے کے لیے مثبت اقدامات کرے گی۔ اس حوالے سے خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کا کردار اہم ہو سکتا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved