الیکشن کمیشن نے قومی اسمبلی کے 264 حلقوں کے غیرحتمی مگر مکمل نتائج جاری کر دیے ہیں۔ این اے 8 میں امیدوار کے انتقال کے باعث انتخابات ملتوی کر دیے گئے تھے‘ جبکہ این اے 88 کے 26 پولنگ سٹیشنز پر 15 فروری کو دوبارہ پولنگ ہو گی۔ قومی اسمبلی کے 101 حلقوں میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد آزاد امیدوار پہلے نمبر پر ہیں۔ مسلم لیگ (ن) بطور سیاسی جماعت 75 نشستوں کے ساتھ سرفہرست ہے۔ پیپلز پارٹی نے 54 سیٹیں حاصل کیں۔ متحدہ قومی موومنٹ 17 نشستوں پر کامیاب قرار پائی۔تاہم پی ٹی آئی کی جانب سے 70 سے زائد نشستوں پر دھاندلی کا دعویٰ زمینی حقائق کے برعکس معلوم ہوتا ہے۔ جو سات جماعتیں حکومت سازی کی دوڑ میں شامل ہیں ان میں مسلم لیگ (ن)‘ پیپلزپارٹی‘ ایم کیو ایم‘ جے یو آئی‘ استحکامِ پاکستان پارٹی‘ مسلم لیگ (ق) اور بلوچستان عوامی پارٹی شامل ہیں۔ سندھ میں پیپلز پارٹی‘ خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار حکومت بنائیں گے جبکہ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) آزاد امیدواروں اور اتحادیوں کے تعاون سے حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہے؛ تاہم وفاق میں جو سیٹ اَپ تشکیل پائے گا اس میں کئی شراکت دار ہوں گے۔ ایسے آزاد اراکین جو پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ نہیں تھے‘ ان میں سے کئی ایک نے باقاعدہ طور پر مسلم لیگ (ن) میں شمولیت کا اعلان کر دیا ہے جبکہ لیگی ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد اراکین کی بڑی تعداد بھی حکومت کا حصہ بننے کیلئے تیار ہے کیونکہ بیرسٹرگوہر نے برملا کہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) یا پیپلز پارٹی کے ساتھ حکومت بنانے کا کوئی امکان نہیں‘ ظاہر ہے انہیں یہ ہدایت بانی پی ٹی آئی کی طرف سے ملی ہو گی۔ ایسی صورتحال میں پی ٹی آئی کیلئے آزاد امیدواروں کو اپنے ساتھ جوڑے رکھنا مشکل ہو گا کیونکہ جیتنے والا کوئی بھی رکنِ اسمبلی پانچ سال تک اپوزیشن میں بیٹھنے پر آمادہ نہیں ہو گا۔ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ اراکین جانتے ہیں کہ وفاداریاں تبدیل کرنے پر ان کے خلاف کارروائی نہیں ہو سکتی۔ البتہ پی ٹی آئی کسی جماعت کے ساتھ الحاق کرکے صوبوں اور وفاق میں اپنی مخصوص نشستیں بچانے میں کامیاب ہو سکتی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ مختلف جماعتوں اور آزاد امیدواروں کے اتحاد سے بننے والی حکومت کتنی مستحکم ہو گی؟ یہ طے ہے کہ موجودہ حالات میں جو بھی حکومت سنبھالے گا‘ وہ اس کی بھاری سیاسی قیمت چکائے گا کیونکہ نہ مہنگائی کم ہونے والی ہے نہ معاشی بحران ختم ہونے والا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جو غلطی پی ڈی ایم نے کی تھی اور جو اتحادی جماعتیں اب دوبارہ کرنے جا رہی ہیں‘ پی ٹی آئی یہ غلطی نہیں کرنا چاہتی۔
حقیقت یہ ہے کہ جمہوریت میں نظم و ضبط اور استحکام کیلئے سیاسی جماعتیں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ دنیا کے جمہوری نظام میں حکومت بنانے کیلئے دو طریقے رائج ہیں۔ اوّل دو جماعتی نظام‘ جہاں عام طور پر دو بڑی جماعتیں اقتدار کی رسہ کشی میں مصروف رہتی ہیں اور دوسرا کثیرجماعتی نظام‘ جہاں کئی جماعتیں موجود ہوتی ہیں اور حکومت سازی کیلئے ان کے درمیان اتحاد یا تعاون ضروری ہوتا ہے۔ امریکہ میں دو بڑی جماعتیں ریپبلکن اور ڈیموکریٹ طویل عرصے سے سیاسی میدان پر غالب ہیں۔ برطانیہ میں کنزر ویٹو پارٹی اور لیبر پارٹی دو بڑی سیاسی قوتیں ہیں۔ لبرل پارٹی اور کنزر ویٹو پارٹی کینیڈا کی دو بڑی سیاسی جماعتیں ہیں۔ چین میں کیمونسٹ پارٹی واحد سیاسی جماعت ہے‘ وہاں انتخابات تو ہوتے ہیں لیکن امیدواروں کا انتخاب پارٹی ہی کرتی ہے۔ دنیا بھر کے سیاسی جغرافیے میں دو جماعتی نظام کے تحت دو بڑی سیاسی جماعتیں غالب رہتی ہیں اور حکومت سازی ان کے درمیان مقابلے اور تعاون سے ہوتی ہے۔ اس نظام کے تحت عام انتخابات میں صرف دو بڑی جماعتیں حصہ لیتی ہیں جس سے ووٹروں کیلئے انتخاب آسان ہو جاتا ہے اور حکومت بنانے کا عمل بھی نسبتاً آسان ہوتا ہے۔ کسی ایک جماعت کو واضح اکثریت حاصل ہو جاتی ہے‘ جس سے مستحکم اور مضبوط حکومتیں تشکیل پاتی ہیں۔ اس طرح کے نظام میں حزبِ مخالف کا کردار بھی واضح ہوتا ہے جو حکومت کو جوابدہ رکھنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ دو جماعتی نظام میں جماعتیں جوابدہ ہوتی ہیں کیونکہ انہیں اگلے انتخابات میں ووٹروں کے سامنے جواب دینا ہوتا ہے۔ اس بات کا علم ہونے کی وجہ سے جماعتیں عام طور پر عوام کی ضروریات اور خواہشات کا زیادہ خیال رکھتی ہیں۔ اس کے برعکس اتحادی حکومتوں کی سب سے بڑی کمزوری ان کا غیرمستحکم اور غیریقینی مزاج ہے۔ مختلف جماعتیں اپنے مفادات اور نظریات میں اختلاف رکھتی ہیں جس سے حکومت کے اندر کشمکش اور اختلافات پیدا ہوتے ہیں۔ یہ اختلافات بڑھ کر حکومت کے زوال اور قبل از وقت انتخابات کا باعث بنتے ہیں۔ انہی سطور میں پہلے بھی لکھ چکے کہ غیریقینی صورتحال میں سرمایہ کاری کم ہو جاتی ہے اور معاشی ترقی سست پڑ جاتی ہے۔ جب کئی جماعتیں حکومت چلا رہی ہوں تو فیصلہ سازی کا عمل سست اور مشکل ہو جاتا ہے۔ ہر جماعت کو راضی کرنا اور اتفاقِ رائے تک پہنچنا ایک چیلنج بن جاتا ہے جس سے ضروری پالیسیوں اور اصلاحات میں تاخیر ہوتی ہے۔ جب فیصلوں کی منظوری کے لیے تمام جماعتیں رضامند ہوں تو کوئی ایک فرد ذمہ داری نہیں لینا چاہتا جس سے جوابدہی کم ہو جاتی ہے۔ عوام کو یہ سمجھ نہیں آتا کہ کون کس پالیسی کا ذمہ دار ہے اور کس سے جواب طلب کیا جائے۔ پی ڈی ایم سولہ ماہ تک اقتدار میں رہی مگر کوئی جماعت اُس حکومت کے فیصلوں کی ذمہ داری قبول کرنے کیلئے تیار نہیں۔ مخلوط حکومت اور ہجوم کی نفسیات میں کافی حد تک یکسانیت پائی جاتی ہے۔ ہجوم کا فائدہ اٹھاتے ہوئے عموماً وہ اہداف حاصل کر لیے جاتے ہیں جنہیں پورا کرنا فردِ واحد کیلئے مشکل ہوتا ہے کیونکہ ہجوم کی آڑ میں پکڑے جانے اور احتساب کے امکانات کم ہوتے ہیں۔ عام انتخابات میں کسی ایک جماعت کا سادہ اکثریت یعنی 134نشستیں حاصل نہ کرنا ان پر عوام کے عدم اعتماد کا اظہار ہے‘ مگر وہ کمزور جمہوری سسٹم کا فائدہ اٹھا کر اقتدار میں آجاتی ہیں اور جب رخصت ہوتی ہیں تو ان درجن بھر جماعتوں میں سے کوئی بھی اس حکومتی دور کی ذمہ داری قبول کرنے کیلئے تیار نہیں ہوتی۔ ہمیں اس کمزور جمہوری نظام کو بدلنا ہو گا۔
الیکشن ایکٹ 2017ء کے مطابق قومی اسمبلی کے لیے 30 ہزار جبکہ صوبائی اسمبلی کے لیے 20 ہزار سکیورٹی ڈپازٹ یا نامزدگی فیس ہے۔ اگر امیدوار اپنے متعلقہ حلقوں میں 25 فیصد سے کم ووٹ حاصل کریں گے تو یہ رقم حکومت ضبط کر لے گی۔ مذکورہ قانون سازی کا مقصد یہ تھا کہ ہزاروں کی تعداد میں شوقیہ امیدواروں کا راستہ روکا جائے کیونکہ 2018ء کے انتخابات میں ہم نے دیکھا کہ چھ ہزار امیدوار 25 فیصد سے زائد ووٹ حاصل کرنے میں ناکام رہے جن کی جمع کردہ رقوم ضبط ہو گئیں۔ سیاسی جماعتوں نے اپنے ووٹ بینک کو تقسیم ہونے سے بچانے کیلئے ضمانت ضبط ہونے کے حوالے سے قانون سازی کی۔ ہماری دانست میں اسی طرح کی قانون سازی ان سیاسی جماعتوں کے بارے بھی ہونی چاہیے جو سادہ اکثریت حاصل کرنے سے قاصر رہیں۔ کیا ایسی جماعتوں کو عوام کی حقیقی آواز کہا جا سکتا ہے؟ کیا اس ضمن میں قانون سازی کی ضرورت نہیں ہے؟ جتنا اہم جمہوریت کا تسلسل ہے‘ اس سے کہیں زیادہ مضبوط جمہوریت کی ضرورت ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved