میں نے ملت ہائی سکول چنن‘ ضلع گجرات سے 1963ء میں اچھے نمبروں کے ساتھ میٹرک پاس کرنے کے بعد اسلامیہ کالج‘ ریلوے روڈ لاہور میں داخلہ لیا۔ جناح ہاسٹل میں رہائش تھی۔ میں فرسٹ ایئر کا واحد طالبعلم تھا جسے سنگل کمرہ (کیوبیکل) الاٹ ہوا۔ باقی سبھی کو ڈارمیٹریوں میں داخلے ملے جہاں ایک بڑے کمرے میں چار سے پانچ طلبہ مقیم ہوتے تھے۔ میرے کمرے کا نمبر 10 تھا جو مین دروازے سے داخل ہوتے ہی دائیں جانب پہلا کمرہ تھا۔ بے تکلف دوست کمرے کے نمبر کو مزاح کا موضوع بنا لیتے تو میں بھی ان کے ساتھ محظوظ ہوتا۔ پروفیسر خواجہ ریاض احمد ہاسٹل سپرنٹنڈنٹ تھے اور سید عابد شاہ (لیبارٹری انسٹرکٹر) اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ تھے۔ شروع کے ایام میں گرمی اور گھر سے دوری کی وجہ سے کچھ عرصے کیلئے طبیعت خاصی اداس اور پریشان رہی، مگر آہستہ آہستہ گرمی بھی کم ہوتی گئی اور دوستوں کا ایک حلقہ بھی بن گیا تو صورتحال بہتر ہو گئی۔
کالج میں طلبہ کی تعداد ہزاروں میں تھی جن میں سے سال اول و دوم کے تقریباً دو سو طلبہ ہاسٹل میں رہتے تھے۔ ہاسٹل میں مقیم یہ طلبہ مختلف علاقوں سے تعلق رکھتے تھے۔ جمعیت طلبہ کا دفتر ہمارے کالج سے قریب ہی ریلوے روڈ پر گوالمنڈی میں ایک بہت پرانی سی عمارت میں پہلی منزل پر تھا۔ گرائونڈ فلور پر کباب‘ پکوڑے‘ روسٹ‘ مچھلی‘ کڑاہی گوشت اور جلیبی وغیرہ کی دکانیں تھیں۔ ہر وقت ماکولات کی خوشبو کے ساتھ دھویں کا بدترین ماحول ایذا بھی پہنچاتا رہتا تھا۔ جمعیت سے تعلق رکھنے والے مختلف اداروں میں زیر تعلیم کچھ طلبہ وہاں قیام پذیر تھے۔
جمعیت سے میں سکول کے زمانے ہی سے متعارف تھا۔ کالج اور ہاسٹل میں بھی ہم خیال ساتھیوں سے جمعیت کا تذکرہ کیا تو بعض میری طرح پہلے ہی جمعیت سے متعارف تھے‘ باقیوں کو متعارف کرایا گیا۔ ہم نے ابھی باقاعدہ حلقہ اور نظم قائم نہیں کیا تھا مگر اس کیلئے سوچ بچار ہو رہی تھی۔ اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ ایک روز ہاسٹل میں ایک مہمان میرے پاس تشریف لائے۔ وہ جمعیت طلبہ لاہور کے ناظم تھے۔ ان کا نام عطاء اللہ چودھری تھا۔ یہ پہلی ملاقات بڑی یادگار تھی۔ انہوں نے اپنا تعارف کرایا اور کہا کہ مجھے آپ کے بارے میں معلوم ہوا‘ آپ تحریکی گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں‘ میں اسی لیے آپ سے ملنے آپ کے پاس آیا ہوں۔ چودھری صاحب پنجاب یونیورسٹی میں شعبہ عربی کے طالبعلم تھے۔ اس سے پہلے بطور استاد کچھ مختصر عرصہ سرگودھا کے ایک تعلیمی ادارے قاسم العلوم میں خدمات سرانجام دے چکے تھے۔ سرخ و سفید رنگت اور سیاہ ریش کے حامل طلبہ تحریک کے محترم لیڈر کی آمد میرے لیے یادگار تھی‘ گویا کنواں پیاسے کے پاس آ گیا تھا۔ پہلی ملاقات کے باوجود مجھے احساس ہو رہا تھا جیسے ان سے پرانا تعلق ہے۔ یہ تحریک کی برکت ہے! ان کی گفتگو سنتے ہی میں نے بے تکلفی کے ساتھ کہا ''گویا آپ مجھے گرفتار کرنے آئے ہیں؟‘‘ اس پر چودھری صاحب خوب ہنسے اور فرمایا ''ہاں ایسا ہی ہے‘‘۔ یہ گرفتاری کا لفظ تو میں نے ازراہِ مذاق کہہ دیا تھا مگر پتا نہیں اس کی گونج کہاں کہاں تک پہنچی کہ اگلے سالوں میں جوں جوں وقت گزرتا گیا‘ یکے بعد دیگرے گرفتاریوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اس دور میں اتنی مرتبہ شاید ہی جمعیت کا کوئی دوسرا ساتھی گرفتار ہوا ہو‘ جتنا مجھے اس کا تجربہ ہوا۔
کالج کا ماحول بہت اچھا تھا۔ میں نے آرٹس میں داخلہ لیا۔ مضامین انگریزی‘ اردو تو لازمی تھے‘ ان کے علاوہ میں نے فلسفہ‘ سوکس (پولیٹکل سائنس) اور عربی اختیاری مضامین کے طور پر منتخب کیے۔ ہمارے اساتذہ میں پروفیسر خالد بزمی‘ جو عربی پڑھاتے تھے‘ سے ان دو برس میں سب سے زیادہ قریبی رابطہ رہا۔ مرحوم میرے استاذِ محترم تھے مگر ہمارے درمیان بے تکلفی اور دوستی کا تعلق بھی تھا۔ کالج کا ماحول پُرامن‘ تعلیمی اور علم و ادب سے مالا مال تھا۔ یہاں میرے دیگر اساتذہ میں امتیاز مسرور (انگریزی)، نثار صوفی ابن صوفی غلام مصطفی تبسم (سوکس)‘ پروفیسر محمد اقبال (فلسفہ) اور شہرت بخاری (اردو) شامل تھے۔ ان میں سے بعض ترقی پسند اور اشترا کی نظریات کے حامل تھے مگر بطور استاد سبھی ذمہ دار لوگ تھے۔
پروفیسر عبدالحی بٹ صاحب کالج کے پرنسپل اور پروفیسر مولانا علم الدین سالک وائس پرنسپل تھے۔ بزرگ اساتذہ میں پروفیسر عبدالحی فاروقی اور پروفیسر محمد اقبال قابلِ ذکر ہیں۔ پروفیسر خالد بزمی صاحب کے پیریڈ میں ہمیں سب سے زیادہ لطف آتا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ بزمی صاحب اپنے مضمون میں ماہر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بہترین ادیب‘ منجھے ہوئے شاعر اور ہمدرد مربی تھے۔ آپ دینی‘ تاریخی اور ملی پہلوئوں پر دلچسپ علمی انداز میں روشنی ڈالتے اور ایک اچھا مسلم اور اچھا شہری بننے کی ضرورت ایسے حکیمانہ انداز میں ذہن نشین کراتے کہ نہ تو کسی کو بوجھ محسوس ہوتا نہ ناگواری۔ ہماری کلاس میں ہر مسلک کے طلبہ موجود تھے‘ سب بزمی صاحب کی بات غور سے سنتے اور یکساں احترام کے ساتھ اس پر سر تسلیم خم کر دیتے۔ بزمی صاحب مسلکاً اہلِ حدیث تھے‘ وہ پروفیسر ابوبکر غزنوی مرحوم اور ان کے والد حضرت مولانا داوئود غزنوی مرحوم سے بہت متاثر تھے مگر ان کی گفتگو اور طرزِعمل سے کبھی یہ تاثر نہیں ابھرتا تھا کہ وہ کسی خاص مسلک کو پروان چڑھانا چاہتے ہیں۔ وہ ہر بات قرآن و سنت کی روشنی میں کرتے اور کلاس میں یوں محسوس ہوتا جیسے ایک خاندان کے لوگ اپنے سربراہ کے ساتھ بیٹھے خوشگوار ماحول میں تبادلہ خیال کر رہے ہیں۔ بزمی صاحب کا جماعت اسلامی سے کوئی تعلق نہ تھا مگر وہ مولانا مودودیؒ کے بہت قدر دان تھے۔ کئی پیچیدہ مسائل میں مولانا کی آرا کو بطورِ استشہاد بھی پیش کرتے تھے۔ اسلامیہ کالج میں اس زمانے میں سٹوڈنٹس یونین قائم نہیں تھی۔ کالج میں ایک اہم پروگرام ہفتہ وار اسلامی لیکچر ہوا کرتا تھا‘ اسے سرمن کہا جاتا تھا۔ اس کے انچارج پروفیسر عبدالحی فاروقی ہوا کرتے تھے‘ کالج کے وائس پرنسپل مولانا علم الدین‘ سالک فاروقی صاحب کے قریبی دوست تھے۔ مرحوم کی شخصیت انتہائی بارعب تھی۔ جناح کیپ اور شیروانی میں ملبوس مولانا سالک جب کالج میں چکر لگاتے تو طلبہ و اساتذہ سبھی بہت محتاط ہو جاتے۔ مولانا سالک اور مولانا فاروقی یک جان دو قالب تھے۔ مولانا سالک کو اگر جلالِ باشادہی کہیں تو مولانا فاروقی کو جمالِ خانقاہی کہہ سکتے ہیں۔
پروفیسر عبدالحی فاروقی عربی اور اسلامیات کے طلبہ سے ایک سوسائٹی منتخب کیا کرتے تھے جسے اسلامک کلچرل سوسائٹی کہا جاتا تھا۔ اس میں شامل صدر اور سیکرٹری اسلامی لیکچر (سرمن) کا اہتمام کرتے تھے۔ مجھے اس سوسائٹی کا صدر مقرر کیا گیا۔ اس دور میں فاروقی صاحب کی صحبت نے بہت فائدہ پہنچایا۔ ان کے مشورے سے ہم علماء اور دانشوروں کو دعوت دیتے۔ مولانا عبدالحلیم قاسمی‘ ان کے بھائی مولانا عبدالعلیم قاسمی‘ مولانا محمد حسین نعیمی(جامعہ نعیمیہ)‘ مولانا عبدالقادر روپڑی‘ مولانا بہاء الحق قاسمی (والد عطا الحق قاسمی)‘ مولانا عبدالرحمان اشرفی (جامعہ اشرفیہ)‘ مولانا عبیداللہ انور‘ مولانا ابوالبرکات سید احمد‘ حافظ جعفر حسین‘ مولانا محمد بخش مسلم‘ پروفیسر ابوبکر غزنوی‘ شورش کاشمیری‘ علامہ علاء الدین صدیقی‘ مولانا ملک غلام علی‘ مولانا خلیل حامدی سمیت بہت سے اہل علم کے لیکچرز کا اہتمام ایک سے زیادہ مرتبہ ہوا۔ ان حضرات کا لیکچر حبیبہ ہال میں ہوا کرتا تھا جس کا دورانیہ تقریباً ایک گھنٹہ اور پھر چند منٹ سوال و جواب کی نشست ہوا کرتی تھی۔
اس ہال میں مولانا مودودیؒ نے اعزازی طور پر اکتوبر 1939ء سے ستمبر 1940ء تک مسلسل لیکچرز دیے تھے۔ آپ کے ان خطابات کا تذکرہ کئی مصنفین نے اپنی کتابوں میں کیا ہے۔ ہمارے دور میں ہفتہ وار لیکچر کے بعد مہمانانِ گرامی کے لیے تواضع کا اہتمام کیا جاتا تھا۔ وہ دور یادگار تھا۔ اپنی کسی پرانی ڈائری پر نظر پڑ جائے تو بہت ساری یادیں تازہ ہو جاتی ہیں۔ اللہ ان سب حضرات کے درجات بلند فرمائے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved