راجندر سنگھ بیدی کی بے قرار روح کو کسی پل چین نہ تھا۔ وہ زندگی کے کسی ایک رنگ سے کبھی مطمئن نہ ہوتا۔ کم لوگوں کو معلوم ہو گا کہ اس نے اپنی فنی زندگی کی ابتدا شاعری سے کی اور محسن لاہوری کے نام سے شعر کہے‘ لیکن جلد ہی اسے اندازہ ہو گیا کہ شاعری اُس کا میدان نہیں ‘ اُسے کسی اور کوچے کا سفر کرنا چاہیے۔ اب اس نے کہانیاں لکھنا شروع کر دیں اور ادب کے سنجیدہ قارئین کو چونکا دیا۔ اسے یوں لگا کہ وہ کہانیاں لکھنے کیلئے ہی پیدا ہوا ہے۔ اس دوران اس نے ریڈیو کیلئے ڈرامے بھی لکھے لیکن اس کے تخلیقی وفور کو کچھ نئے پن کی تلاش تھی۔ یہ تلاش اُسے فلم کی دنیا میں لے گئی جہاں اس نے فلموں کیلئے کہانیاں‘ مکالمے اور سکرین پلے لکھے۔ لیکن وہ کچھ اس سے بڑھ کر کرنا چاہتا تھا۔ اب اُس نے فلمی دنیا میں ہدایت کاری کے کوچے کا رُخ کیا اور اس میدان میں بھی اپنے فن کا لوہا منوایا۔ پہلی فلم جس کی ہدایات بیدی نے دیں‘ 1970ء میں بننے والی فلم ''دستک‘‘ تھی جس میں سنجیو کمار اور ریحانہ سلطان نے مرکزی کردار ادا کیے اور موسیقی مدن موہن نے دی۔ اس کے بعد تین مزید فلموں میں بیدی نے ہدایات دیں جن میں ''پھاگن (1973ء)، نواب صاحب (1978ء) اور آنکھن دیکھی (1978ء)‘‘ شامل ہیں۔ اُس کے ناول ''ایک چادر میلی سی‘‘ پر پاکستان میں سنگیتا نے 1978ء میں ''مٹھی بھر چاول‘‘ کے نام سے فلم بنائی جو ایک مقبول فلم تھی۔ بھارت میں بھی 1986ء میں اس ناول پر ''ایک چادرمیلی سی‘‘ کے نام سے فلم بنائی گئی۔ بیدی کے افسانے ''لاجونتی‘‘ پر بھی الا بیدی دتا نے 2006ء میں ٹی وی سیریز بنائی۔
بیدی کو اُس کے فن کے اعتراف پر کئی ایوارڈ ز سے نوازا گیا۔ فلم ''گرم کوٹ‘‘ جس کی کہانی اس کے افسانے ''گرم کوٹ‘‘ سے لی گئی تھی‘ پر بیدی کو فلم فیئر ایوارڈ دیا گیا۔ اسی طرح ''مدھومتی‘‘ اور ''ستیہ کام‘‘ میں اس کے لکھے ہوئے مکالموں پر بیدی فلم فیئر ایوارڈ کا حقدار ٹھہرا۔ اس کے ناولٹ ''ایک چادر میلی سی‘‘ پر بیدی کو ساہتیہ ایوارڈ دیا گیا۔
ادھر فلموں کی چکا چوند دنیا میں بیدی اپنے دامن میں کامیابیاں سمیٹ رہا تھا اور دوسری طرف اُس کے افسانوں کا کامیاب سفر جاری تھا۔ 1962ء میں اُس کا ناولٹ ایک چادر میلی سی شائع ہوا۔ 1965ء میں افسانوں کا مجموعہ ''اپنے دکھ مجھے دے دو‘‘، 1974ء میں ''ہاتھ ہمارے قلم ہوئے‘‘ اور 1982ء میں افسانوں اور خاکوں کا مجموعہ ''مکتی بودھ‘‘ شائع ہوا۔ راجندر سنگھ بیدی کرشن چندر‘ عصمت چغتائی اور منٹو کی موجودگی میں ایک منفرد افسانہ نگار تھا۔ اس کی ایک وجہ اس کیCraftہے۔ وہ موضوعات کے چناؤ‘ لفظوں کی تراش خراش اور برتاؤ پر حد درجہ محنت کرتا اور یہی اسلوب اس کی پہچان تھی۔ اس حوالے سے ایک دلچسپ واقعہ کا ذکر بے جا نہ ہو گا۔ بیدی اور منٹو کی بے تکلفی تھی۔ ایک روز اُسے منٹو کا خط موصول ہوا جس میں منٹو نے لکھا تھا ''بیدی تمہاری مصیبت یہ ہے کہ تم سوچتے بہت زیادہ ہو۔ لکھنے سے پہلے سوچتے ہو، لکھتے ہوئے سوچتے ہو، لکھنے کے بعد سوچتے ہو، کہانی کم اور مزدوری زیادہ ہے‘‘۔ جوابی خط میں بیدی نے منٹو کو لکھا ''منٹو تم میں ایک برُی بات ہے اور وہ یہ کہ تم نہ لکھنے سے پہلے سوچتے ہو، نہ لکھتے وقت سوچتے ہو اور نہ لکھنے کے بعد سوچتے ہو‘‘۔ یہ دو دوستوں کے درمیان ایک معاصرانہ چشمک تھی‘ لیکن منٹو کی رائے اس حد تک درست ہے کہ بیدی اپنی کہانیوں کے در و بست پر بہت وقت صرف کرتا تھا اور یہی اس کے اسلوب کی پہچان تھی۔
بیدی کی کہانیوں کی اپنی فضا ہے۔ اس کے موضوعات میں ایک تنوع ہے۔ اس کی کہانیوں کے مرکزی کردار عام لوگ ہوتے ہیں۔ انسانی رشتوں کی تہہ داری اس کا خاص موضوع ہے۔ بیدی کرداروں کے ذہن میں اُتر کر اندر کی اتھل پتھل کو بیان کرتا ہے۔ بیدی کے نسوانی کرداروں کے بارے میں ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ وہ Stereotypesعورتیں ہیں جو مردوں کے ظلم و ستم سہتی ہیں لیکن صدائے احتجاج بلند نہیں کرتیں۔ یہاں یہ بات سمجھنا اہم ہے کہ بیدی کا اسلوب منٹو کی طرح بلند آہنگ نہیں۔ وہ نسوانی کرداروں کے ساتھ ناانصاف رویے کو یوں پیش کرتا ہے کہ پڑھنے والا اس ناانصافی کو نہ صرف محسوس کرتا ہے بلکہ اس میں غیرمنصفانہ سماج کو بدلنے کی خواہش شدت اختیار کر جاتی ہے۔
بیدی کی کہانیوں میں پنجاب کے دیہات کا عکس ہے۔ پنجاب کی سماجی اور مذہبی روایات اس کی کہانیوں سے جھانکتی نظر آتی ہیں۔ بیدی کی مشاہداتی آنکھ (Observent eye) ان چیزوں کو دیکھتی ہے جسے ہم نظر انداز کر دیتے ہیں۔ بیدی کے یہی مشاہدات پوری جزئیات کے ساتھ جب اس کی کہانیوں کا حصہ بنتے ہیں تو سماج کی تصویر اپنے تمام تر رنگوں کے ساتھ مکمل ہوتی ہے۔ بیدی کے ہاں زبان کے چناؤ اور استعمال میں اُردو کے ساتھ کہیں کہیں پنجابی الفاظ اور تراکیب اس کو دوسروں سے منفرد بناتی ہیں‘ اس کے امیجز بھی اپنے اردگرد سے لیے گئے۔
یوں تو بیدی نے فکشن اور فلم میں اپنا نام منوا لیا تھا لیکن بیدی کی ذاتی زندگی میں ایک گہرا خلا تھا۔ وہی بیوی جس کے ساتھ ابتدائی برسوں میں اسے پیار کا دعویٰ تھا‘ اب اس کے لیے ایک بوجھ بن گئی تھی۔ فلم کی دنیا میں کتنی ہی اداکارائیں تھیں جن کے ساتھ بیدی کی دوستی تھی۔ اس پر مستزاد بیدی کی شراب نوشی۔ یہ سب کچھ اس کی بیوی کے لیے ناقابلِ برداشت تھا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ اس کی طبیعت خراب رہنے لگی۔ حالات بتدریج ابتری کی طرف بڑھتے گئے۔ ایسے میں بیدی نے اپنے سرمایے سے فلم بنانے کا فیصلہ کیا‘ اُس فلم کا نام تھا ''آنکھوں دیکھی‘‘۔ فلم میں مرکزی کردار کے لیے اداکارہ سُمن کا انتخاب کیا گیا۔ اس انتخاب کی بڑی وجہ یہ تھی کہ بیدی اس کی محبت کا اسیر ہو گیا تھا۔ یوں تو فلمی دنیا میں کئی اداکاراؤں سے اس کی دوستی ہوئی تھی لیکن سُمن کے ساتھ اس کی دوستی نے اسے اردگرد کی دنیا سے علیحدہ کر دیا تھا۔ یہی روگ اس کی بیوی کولے بیٹھا اور وہ کچھ عرصہ بیمار رہنے کے بعد انتقال کر گئی۔ ادھر بیدی کی فلم ''آنکھوں دیکھی‘‘ مکمل ہوئی اور ادھر اداکارہ سُمن نے آنکھیں پھیر لیں۔ بیدی کے لیے اب کوئی جائے امان نہ تھی‘ اس کی صحت اب خراب رہنے لگی۔اُس کی فلم‘ جس پر اس نے زندگی کی جمع پونجی لگا دی تھی‘ کبھی سینما گھر پر نہ چل سکی۔ یہ ایک جاں لیوا صدمہ تھا۔ بیدی پر فالج کا حملہ ہوا اور وہ بستر سے لگ گیا۔ کئی برس بیماری کی اذیت سہنے کے بعد آخر کار وہ 1984ء میں 69برس کی عمر میں انتقال کر گیا۔ اپنی زندگی میں دولت‘ عزت اور شہرت سمیٹنے والا دل میں کتنی ہی محرومیاں لے کر ہمیشہ کی نیند سو گیا۔ ان محرومیوں میں ایک محرومی لاہور کو دیکھنے کی تمنا تھی جس کے گلی کوچوں میں اُس کی زندگی کے کتنے ہی شب و روز دھڑک رہے تھے۔ لاہور کا ذکر ہوتا تو اُس کے دل میں ایک ہوک سی اُٹھتی۔ ایک بار ٹی وی انٹرویو میں لاہور کا ذکر کرتے ہوئے وہ بچوں کی طرح رونے لگا۔ اُس کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو رواں ہو گئے۔ ان آنسوؤں میں لاہور کے سنت نگر کی شیام گلی میں اس کے گھر کی تصویر جھلملا رہی تھی۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved